اُمید

پیر 8 جون 2015

Akram Kamboh

اکرم کمبوہ

غم اور خوشیاں زندگی کے دوموسم ہیں۔ہم کبھی غم کے چادر اوڑھے ہوتے ہیں اور کبھی خوشیوں میں سَرمست،یہ دونوں موسم ساتھ ساتھ چلتے ہیں،کبھی ایک کیفیت طاری ہوتی ہے تو کبھی دوسری،بعض اوقات تو یوں لگتا ہے کہ ہماری زندگی میں ایک ہی موسم ٹھہرگیا ہے، بے چینی بڑھتی ہے،طبیعت مضحمل ہوتی ہے کبھی سوچیں ویران پگ ڈنڈیوں پردوڑتی ہیں۔سکون نصیب ہی نہیں ہوتا،بے کلی بڑھتی ہی چلتی جاتی ہے،سوال یہ ہے کہ ہم اداس کیوں ہوتے ہیں؟
ہمارے اندرکاموسم ویران کیوں رہتا ہے؟
سماجی علوم کے ماہرین اس کے جوابات تلاش کرتے ہیں،بعضے کہتے ہیں کہ ہماری زندگی میں بعض اوقات ایسے لمحات آتے ہیں جب ہم خوش ہوتے ہوئے بھی اپنے من میں ایک انجانی سے کسک محسوس کرتے ہیں۔

اُداسی کی اس کیفیت کوکوئی نام تو نہیں دیا جاسکتابہرحال محسوس ضرورکیا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)


صاحبو! جب زندگی ایک ہی دائرے کاطواف کرتی رہتی ہے تواعصاب چٹخ جاتے ہیں یوں اُداسی کی چادرہمارے اوپر تَن جاتی ہے،ہمیں ہرصبح پریشان کرتی ہے ہرشام اُداس لگتی ہے، جب بے اطمینانی کی کیفیت میں ہمارے روزوشب گزرنے لگتے ہیں تونااُمیدی ہماری روح کوتارِعنکبوت کی طرح جکڑلیتی ہے۔

ہمیں اپنی منزل بے یقینی کی دھندمیں کھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے،احساس سربریدہ ہوجاتا ہے۔سوچ آزردگی اور تھکن محسوس کرتی ہے یہ کیفیت بڑھتی رہے اورچارہ سازی نہ ہوتونااُمیدی کاآسیب ہمیں گھیرلیتاہے ہمیں چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی بے معنی محسوس ہوتی ہیں۔بلندارادوں کے باوجود بھی ہم ہمت نہیں کرپاتے،ایک قدم بڑھاتے ہیں ہمارااحساس ہمیں دوقدم پیچھے دھکیل دیتاہے۔

ہم ہجوم خَلق میں بھی خود کو تنہا اور ناتواں محسوس کرتے ہیں،زندگی کے سارے رنگ پھیکے پڑجاتے ہیں اورجب ہم اپنے اندرجھانکتے ہیں تو ہمیں قبرستانوں کاساسناٹاسنائی دیتاہے۔اِک خلل اورخالی پن ہمیں کچوکے لگاتاہے،راستے کی تلاش میں جس قدرہاتھ پیرمارتے ہیں اس قدرحالات ہمیں اُداسی میں دھکیل دیتے ہیں ۔اگر مصائب ومشکلات کے دریاپاربھی کرلیں منزل پر نہیں پہنچ پاتے۔

بعض اوقات منزل دو قدم پر ہوتی ہے اوراس کا حصول ناممکن ہوجاتاہے ہمیں نامرادلوٹنا پڑتا ہے،ایسا کیوں ہے ؟ ایسا کیوں ہوتاہے؟ ہم اکثرایسے سوالات خودسے کرتے ہیں،یہ خودکلامی ہمیں اپنا عادی بنادیتی ہے،ہم خود سے کوئی سوال پوچھیں توجواب ندارد،کوئی سرااورآسراملتا ہی نہیں،تھکن ہے کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے سوچیں کسی گہری غارمیں ڈوبتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں،آنکھیں سُونی،دل سکون سے خالی اوردماغ نیندکو ترس جاتا ہے۔

اعصاب پر پژمردگی طاری رہتی ہے،اِک خوف ہوتا ہے جو بے چین رکھتا ہے۔گفتگو اور سوچ میں مایوسی جھلکتی ہے،ہماری گفتگو کاآغازمنفی اوراختتام بھی منفی سوچ اور جملوں پر ہوتا ہے،کبھی رونے کو جی چاہتاہے اور کبھی تنہائی اوڑھنے کو،کبھی ماضی کی لغزشیں اور غلط فیصلے سانپ بن کرہمیں ڈستے ہیں،کبھی مستقبل کی ناکامی کا خوف ہماری آنکھوں سے نیندچھین لیتاہے،زندگی تو دھیرے دھیرے بڑھتی رہتی ہے کبھی سیلِ رواں کی طرح اور کبھی خاموش، سفر نہ رکتا ہے نہ کبھی سستاتاہے۔

ہم ہی وقت کے ہمقدم چل نہیں پاتے،جب کبھی آپ ایسی کیفیات غم و الم کاایساموسم اپنے اندرپائیں،اِک لمحہ رُکیں،اپنی سانسیں بحال کریں،یہی وہ مقام ہوتا ہے جب ہمیں اُمیدکے جگنو کے پیچھے چلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔دنیامیں لاکھوں کروڑوں انسان ایسے ہیں جنہوں نے مہیب اندھیروں میں اپناراستہ تلاش کیااور منزل کو جالیا۔رحمان ہمیں اُمید،رحم،شفقت اور محبت کایقین دلاتا ہے۔

اس کا کَرم بانہیں کھول کرہمارااستقبال کرنا چاہتاہے،رب کریم ہمیں خوشخبریاں سناتے ہیں،آس دلاتے ہیں کہ مجھ سے مایوس نہ ہونا،اس بات کاہمیں بہت کم کی ادراک ہوتا ہے کہ خوشی تو ہمارے اندرسے پھوٹتی ہے یہ کوئی بازارکی جنس نہیں،اُمیدزندہ ہوتو سنگ ریزوں میں سے بھی جواہرتلاش کیئے جاسکتے ہیں ۔خوشی تو تتلی مانند ہے آپ اسکے پیچھے جتنا بھاگیں گے یہ آپ سے دورہوتی چلی جائے گی اور اگرآپ سکون سے بیٹھ جائیں گے تو یہ آپ کے کندھے پر آکربیٹھ جائے گی۔

یاد رکھیئے!اگر آپ غریب ہیں تو جان لیں کہ ہرتنگی کے بعدآسانی ہوتی ہے ،اگرآپ بیمارہیں تو قدرت نے شفایابی کے تمام عوامل اس زمین پر رکھے ہیں۔اگر آپ رزق روزگار کی وجہ سے پریشان ہیں توحالات بدل بھی سکتے ہیں۔اگرآپ کو کوئی صدمہ پہنچا ہے تو قدرت آپ کوآسودگی بھی عطا کرسکتی ہے،اگر آپ گھریلوحالات سے پریشان ہیں توبارِالٰہ آپ کوطمانیت بھی عطا کرسکتے ہیں۔

آپ کی الجھن سلجھن میں بدل سکتی ہے ،یاس کو آس میں بدلا جاسکتا ہے۔غم کی جگہ آپ لباسِ خوشی کو بھی زیبِ تن کرسکتے ہیں۔ یہ سب کچھ ممکن ہے حالات بدل سکتے ہیں،آج بدل سکتاہے،کل بدل سکتا ہے،آپ کا اردگردبدل سکتا ہے،آپ کو کامل خوشی مل سکتی ہے،غم کے بادل چھٹ سکتے ہیں۔صرف ایک کام ․․․․․اپنی روح کے سارے زنگ اُتاردیجیئے،اُس ایک کے ایک ہوجائیں،اپنی چاہتوں کواُس کی چاہت پرقربان کردیں،اُس سے یاری لگالیں،اپنی راتیں اُس کی محبتوں میں آباد کرلیں،وہ آپ کومایوس نہیں کرے گا۔

دنیا میں کیسے کیسے اپاہج اورنادارلوگوں نے کیسے کیسے شاہکار کام کیئے،جو بھی لوگ اپنی اُمیدکو مرنے نہیں دیتے منزل ان کے قدموں کا بوسہ لیتی ہے۔یقین کی دولت سے مالا مال لوگ کامران ہوتے ہیں،ہم ہرروزمشاہدہ کرتے ہیں پرندے اپنے گھونسلوں سے خالی پیٹ نکلتے ہیں لمبی پرواز کرتے ہیں اُمید کے سہارے ․․․․․ اپنا رزق لے کر لوٹتے ہیں،اُمید رحمان ہے اور مایوسی شیطان ہے۔

اُمیدانسان کویقین عطا کرتی ہے کہ سویراقریب ہے افراداورقوموں پرجب اندھیراچھاجائے تو انہیں چاہیے کہ وہ روشنی کی آس میں جاگتے رہیں،اپنے عزم کوتوانا رکھیں،توقدرت بے اطمینانی کی جگہ اطمینان عطا کردے گی،اداسی کی جگہ مسرت مل جائے گی۔آپ کتنے بھی پریشان کیوں نہ ہوں،کتنے بھی مایوس کیوں نہ ہوں،صرف ایک قدم رب کریم کی طرف بڑھائیے وہ دوقدم آپ کی طرف بڑھائیں گے۔

آپ کولباسِ انبساط مرحمت فرمائیں گے،حالات میں بہنے کی بجائے الله کریم کے بھروسے پرحالات کا مقابلہ کیجیئے۔اگر آپ اسکے بھروسے پرڈٹ گئے توآپ کواندھیروں کے آسیب تحلیل ہوتے دیکھائی دیں گے۔مشکل کی اُوٹ میں راحت ضرورہوتی ہے اگر اُمید اوریقین زندہ ہوتوانسان حالات کی گردش سے نکل سکتا ہے۔جنہیں خالق پر یقین ہوتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتے، ہمارا رب ہمارے گمان کے مطابق ہمارے ساتھ معاملہ کرتا ہے،آپ کی زندگی اوراس ملک میں جاری خزاں کے بعدبہار ضرورآئے گی۔

حالات بدلیں گے ،حالات کے نقشے بدلیں گے،پست بالا ہوں گے،تنگدست تونگرہوں گے،تھکے ہوئے ہشاش بشاش ہوں گے،آپ اپنی منزل اورترجیحات کاتعین کرلیں اوراس کے بعدتھکا دینے والی محنت اوررلادینے والی دعا کریں،خداکی قسم کامیابی آپ کا طواف کرے گی،حالات کا رونا گانا اس بات کی علامت ہے کہ آپ حالات سے گھبراگئے ہیں۔ناموزوں حالات میں رہتے ہوئے اپنے یقین اورایمان کے سہارے جدوجہدکرنے والے اگراپنے معاشرے کو نہ بدل سکے مگر ان کی اپنی زندگی ضروربدل جائے گی۔

یہ دنیا امکانات کی دنیا ہے ہر چانس آخری نہیں ہوتا بلکہ سیکنڈلاسٹ ہوتاہے۔قوس قزاح آپ کے ذہن کے کنوس پرضرورچمکے گی۔میں اس ملک کوتبدیل ہوتے دیکھ رہا ہوں،میرااحساس کہتا ہے کہ اب لوگوں کی انفرادی زندگی میں بھی مثبت تبدیلیاں آئیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :