سلامتی

جمعرات 11 جون 2015

Akram Kamboh

اکرم کمبوہ

جی نہیں تاریخ کو فتح نہیں کیا جاسکتا ،تاریخ سے سیکھا جاتا ہے ،یہ بھی تاریخ ہے کہ جو مقدمہ جواہر لعل نہرو ہار گیا تھا اب اسے نریندر مودی جیتنا چاہتے ہیں ،اکھنڈ بھارت ایک سونی آنکھ کا خواب ہے جسے رائیگاں جانا ہے ،برصغیر کے خمیر سے ایسے بھی لوگ اٹھے ہیں جو تاریخ کے چوراہے پر ببانگ دہل اعلان کرتے رہے کہ برصغیر ان کی لاشوں پر سے تقسیم ہوگا لیکن محمد علی جناح جس کی قبر پر صدیوں عظمت ٹوٹ کر برستی رہے گی اس خواہش کو ہمیشہ کے لیے رزق خاک کردیا ،پاکستان ایک حقیقت ہے ،اس حقیقت کو جھٹلانے والے تاریخ کے میزان میں ہمیشہ ہلکے رہیں گے ،کل ہم سوئے ہوئے تھے ،لالہ جی !آپ نے کاری زخم لگایا ،اب ہم جاگ رہے ہیں ،اپنے زخمی احساس کے ساتھ اب کی بار کوئی سقوط ڈھاکہ ہمیں درپیش نہ ہوگا ،آپ ہی اپنے بوجھ سے زمین میں دھنسیں گے ،نفرت آخرکار نفرت کرنے والے کو اندھیروں میں لے ڈوبتی ہے ،یہ آپ نے کون سی نئی بات بتائی ہے ؟ اور کون سا نیا انکشاف کیا ہے ؟ اور کون سی نئی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ ہندوستان پاکستان توڑنے کے ناپاک جرم میں ہراول دستہ کا کردار ادا کررہا تھا ،ہم تو صدیوں سے آپ کی ذہنیت سے واقف ہیں ،آپ کے خمیر میں ہی دھوکہ ہے ،اب دھوکے میں نہ رہیے گا ،اگر آپ کو اپنی طاقت پر ناز ہے تو یہاں بھی شہاب الدین محمد غوری شوق شہادت میں تڑپ رہے ہیں ،آپ پر تو ایک ممبئی اٹیک ہوا آپ کی ہوا اکھڑ گئی ،آپ ساری دنیا میں کاسہ گدائی لے کر ہمدردی کی بھیک مانگنے نکلے ،ہمیں تو روز خود کش حملوں کی صورت میں ایک کربلا درپیش ہوتی ہے ،ہم تو روز آپ کی لگائی ہوئی آگ کو اپنے عزم و یقین سے بجھاتے ہیں ،اب وہ پاکستان نہیں رہا اور نہ ہی وہ پاکستانی ہیں جو اپنی سادہ لوحی کے اندر آپ کے دام فریب میں آجاتے تھے ،آج ہمارا سپہ سالار بیدار مغز ہے ،ہماری سیاسی قیادت ملک کے چپہ چپہ کی حفاظت کے لیے یکسو ہے ،آپ کس قسم کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں اور اس سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ کیا یہ آگ آپ کے نشیمن تک نہیں پہنچے گی ؟ ہماری بربادیوں کے سپنے سوچنے کی بجائے اپنے ملک میں دہکتی ہوئی غربت کو ٹھنڈا کیجئے ،پاکستان ہمارا عزم ہے ،ہمارا یقین ہے ،ہمارا عقیدہ ہے ،ہماری صدیوں کی ذہنی غلامی کا انتقام ہے ،یہ وہ شمع ہے جسے آندھیاں اور جھکڑ بجھا نہیں سکتے ،بار بار سوچئے گا .

..کبھی تنہائی میں بھی سوچئے گا ،پاکستان کو آپ کس قسم کی دھمکیاں دے رہے ہیں ؟ کیا آپ زیر کرلیں گے ؟ اور پھر اس زیر کرنے کے بعد آپ جانتے ہیں آپ کہاں ہوں گے ؟ مسلمان تو دنیا کے ستاون ملکوں میں بکھرے ہوئے ہیں ،ہمیں تو ہر جارحیت پھر بھی زندہ رکھے گی ،اگر ہندوستان سے ہندو مٹ گیا تو روز قیامت تک کسی مندر کی گھنٹی نہیں بجے گی ،اب یہاں بھی محمود غزنوی سومنات کے لیے بے قرار ہیں ،ہمارے راستے میں مت آئیے گا ،موت ہمارے لیے شہد سے زیادہ شیریں ہے ،ہم امن چاہتے ہیں آپ کے آنگن میں بھی ،آپ کے کھیت کھلیان پھلے پھولیں ،آپ کے بچوں کے چہروں پر بھی لالی آئے ،آپ کا رزق بھی پروان چڑھے ،لیکن پاکستان کی قیمت پر نہیں ،سلامتی ہماری خواہش ہے ،ہماری خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے ،انیس سو اکہتر ایک ایسا زخم ہے یہ صدیوں کی ریاضت سے بھی نہیں بھرے گا ،ہم اسے بھولے نہیں ہیں ،امن کی خاطر طاق نسیاں میں رکھ دیا ہے ،اگر آپ جارحیت چاہتے ہیں یہ شوق بھی پورا کرلیجئے ،اب کی بار ناشتہ شملہ میں ہوگا اور رات کا کھانا دارجلنگ میں ،اب پاکستان تبدیل ہوچکا ہے ،یہاں کی انٹیلی جنشیا حالات کا ادراک رکھتی ہے ،آپ سپرپاور نہیں بن سکتے کیونکہ ہندوستان کا چہرہ بدنما ہی نہیں مودی نے کریہہ بھی کردیا ہے ،آپ سلامتی کونسل کی رکنیت چاہتے ہیں اور دوسروں کی سلامتی اجاڑ کر ،ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ،آپ بنگلہ دیش کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ کریں ،کیسی ہی محبت کی پینگیں بڑھائیں،ہماری بلا سے ،لیکن ہمارے جسد مقدس پر میلی آنکھ ہمیں قبول نہیں ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے جو ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار ہے اور جس کی کارپوریٹ کلاس بہت بڑی ہے ،وہاں ایک سطحی قسم کا آدمی جنگ و جدل کا ماحول چاہتا ہے ،کیا وہاں کے دانشور بانجھ ہوچکے ہیں؟کیا وہاں کا میڈیا تاریخ کے چوراہے پر سویا ہوا ہے ؟کہاں ہیں وہ انٹیلیکچوئل جو روز بھاشن دیتے تھے کہ یہ سرحدیں ہمارے دلوں کے درمیان حائل نہیں ہوسکتیں ،ہماری ثقافت تہذیب ایک ہے ،وہ کیوں خاموش ہیں؟کیا ان کی آواز اتنی کمزور اور ناتواں ہے کہ وہ مودی کو خودکشی سے بھی روک نہیں سکتے ،جس ملک میں ہر سال ہزاروں ریسرچ پیپرز شائع ہوتے ہوں وہاں کے اسکالرز کو اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ سیکولر انڈیا مودی جی کی قیادت میں اب کس سمت جارہا ہے ،کیا یہی گاندھی جی کا فلسفہ تھا ؟کیا یہی عدم تشدد ہے ؟نریندر مودی نے الیکشن پاکستان کی مخالفت اور نفرت کے عنوان پر لڑا ،جبکہ پاکستان میں الیکشن ایسے ہوئے کہ ہندوستان کسی جلسے ،کسی ٹاک شو،کسی اخباری کالم کا موضوع ہی نہیں تھا ،اس کا مطلب یہ ہے کہ بالغ نظری میں ہندوستان کا پڑھا لکھا طبقہ مات کھا گیا ہے یا اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا ،پاکستان ہندوستان کے لیے ایک بفرزون ہے ،ہندوستان آج خونریزی سے بچا ہوا ہے تو اس کی وجہ پاکستان ہے ،آج پاکستان نان اسٹیٹ ایکٹر کو راستہ دیدے تو شمال سے اتر کر اینٹ سے اینٹ بجادیں گے ،آپ سے تو ایک ممبئی حملہ برداشت نہیں ہوسکا ،آپ شمال سے اترنے والے جنگجووٴں کا کیا مقابلہ کریں گے ،صدیوں سے ایسا ہوتا آیا ہے ،صدیوں کی یہ تاریخ ہے ،تاریخ کے صفحات پر یہ حقیقت ثبت ہے کہ مغل ،تاتاری ،درانی ،ابدالی ،غوری شمال سے اترتے تھے ،راس کماری تک تاراج کرتے چلے جاتے تھے ،ہم نے !جی ہاں ہم نے ہندوستان کو بچارکھا ہے ،
ہندوستان تو جمہوریت کا ایک طویل تجربہ رکھتا ہے ،اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے سوا اس نے کوئی آمرانہ دور نہیں دیکھا ،اس کے باوجود ہندوستان کے عوام جمہوری مزاج کیوں نہ حاصل کرپائے ،ایک ہونق گجرات سے اٹھتا ہے سارے انڈیا کو اپنے پیچھے لگالیتا ہے ،کیا وہاں کے دانشور اس حقیقت کو نہیں سمجھتے ،ایک اوسط درجہ کا آدمی جس کی سمجھ بوجھ دیہات کے کسی مندر کے پجاری سے بھی کم تر ہے وہ انڈیا کو کس راستے کی طرف دھکیل رہا ہے ،کیا وہاں کی کارپوریٹ کلاس نے نریندر مودی کو جنگ و جدل کے لیے ووٹ دیئے تھے ،اب شائنگ انڈیا کا ستارہ بحیرہ ہند میں غروب ہونے جارہا ہے ،کانگریس ،سونیا گاندھی اس لیے خاموش ہیں کہ جب تاریخ اپنا فیصلہ دے اور مودی کو چارج شیٹ کرے وہ اسے اٹھا کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیں ،کل وہ اقتدار میں آئیں گے ،سیکولرازم کا راستہ اختیار کریں گے ،راہول اٹھے گا ،لیکن اس وقت نریندر مودی کہاں ہوگا ،اس کے لیے کسی الجبرے کا ماہر ہونا یاکسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ،ہر ذی شعور جانتا ہے مودی تاریخ کی کچہری میں ایک مجرم کی طرح کھڑا ہوگا ،وقت اسے اپنے عہد کا بدترین حاکم لکھے گا ،مہذب دنیا آج بھی نریندر مودی کو منہ نہیں لگاتی ،کیونکہ اس کے چہرے پر مسلمانوں کے خون کے چھینٹے ہیں ،نریندر مودی جوں جوں ہندوازم کو ابھارتے جائیں گے ،بھارت کا چہرہ مسخ ہوتا چلاجائے گا ،پھر روز حشر تک اسے شادابی نصیب نہیں ہوگی ،دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ہندوستانی بستے ہیں ،امیر ملکوں میں بھی اور پسماندہ ملکوں میں بھی ،ہندوستانیوں کی لابیاں بھی فعال ہیں ،لیکن آج ہر عالمی فورم پر انہیں ہندوستان کا مقدمہ پیش کرنے میں جو دشواری اور پشیمانی درپیش ہے شاید اس کا ادراک ہندوستان کی متعصب حکومت کو نہیں ،
مکرر عرض ہے پاکستان اس خطے میں سلامتی چاہتا ہے ،پاکستان ہر قسم کی جارحیت کے خلاف ہے ،ہم نے سال ہا سال دکھ اور مصائب کے بعد یہ سیکھا ہے کہ دنیا میں وہی قوم سربلند اور خوشحال ہوتی ہے جہاں لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو ،اقتصادیات مضبوط قدموں پر کھڑی ہو ،قومی ادارے قومی احساسات کے محافظ ہوں ،اب جنگ و جدل کے زمانے خواب و خیال ہوچکے ہیں ،مودی حکومت کو بھی یہ بات جان لینی چاہیے کہ خوشحال پاکستان اس کے مفاد میں ہے ،اگر پاکستان میں بے چینی ہوگی تو پھر کیسے دہلی ،لکھنئو ،بنگلور ،ممبئی اورکلکتہ میں لوگ سکون سے سوئیں گے ،ہماری امن پالیسی کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے ،ہماری امن پالیسی کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے ،ایک ہزار سال کے تجربے نے ہمارے اوپر آشکار کردیا ہے کہ بنیا تخریب کے زیر اثر سوچتا ہے ،اس کی تعمیر میں کوئی خیر کا پہلو نہیں ،ہم ”را“ کو راستے پر لگانا جانتے ہیں ،ہم مانتے ہیں ہمارے اپنے ملک میں کچھ بے چینیاں ہیں ،ہم اپنے مسائل پر اور وسائل پر قابو پالیں گے ،ہم تکلیف کے اس دور سے نکل رہے ہیں ،ہم تاریخ اور جغرافیہ کے روبرو سرخرو ہوں گے ،اگر ہمیں اندھیروں میں دھکیلنے کی کوئی خواہش رکھتا ہے تو وہ جان لے ہماری پٹاری میں کئی جرنیل سنگھ بھنڈراں والے مچل رہے ہیں ،کشمیر اب ہمارے بغیر ہی غلامی کے خلاف انگڑائیاں لے رہا ہے ،ہمیں آپ کی کمزوریوں کا پتہ ہے ،ہم راستے بھی سارے جانتے ہیں ،اب تمہیں راستہ سمجھا بھی دیں گے ،سوچ سمجھ کر بولیے ،اب آپ کے اک اک لفظ کا یہاں تجزیہ ہوتا ہے ،آپ کی اک اک پورٹ ،اک اک پل ہماری نظر میں ہے ،آپ بھی ایٹمی ملک ہیں اور ہم بھی ایٹمی ،ہمارا ایٹم کوئی ہولی دیوالی کے لیے نہیں ،اپنے قد میں رہیے ،اپنے آپ میں رہیے ،آپ جامہ سے باہر نہ نکلئے ،اب حساب برابر کردیں گے ،سارے اگلے پچھلے ،میرے وطن کا اک اک سپاہی شوق شہادت بھی رکھتا ہے اور وطن پر مرمٹنے کا ذوق بھی ،یہ ملک بیس کروڑ لوگوں کا نہیں بلکہ بیس کروڑ زندہ و جاوید لوگوں کا ہے ،دکھ تو ہمیں ان ننگے وطن لوگوں سے ہے جو آپ کی پالتو ”بنگالی ماتا“ سے ایوارڈ وصول کرنے جاتے ہیں ،اب ہر دشمن اور ہر ننگ وطن ہماری نظروں میں ہے ،جس دن نظریں ملانے کی اخلاقی جرات ہو پھر ہم سے بات کیجئے گا ،لالہ جی سلامتی سے رہو اور دوسروں کو سلامتی سے رہنے دو ،اگر جی میں کچھ اور ہے تو پرتھوی راج چوہان کی آتما سے مشورہ کرلیجئے ،فائدہ میں رہیں گے ،افاقہ ہوگا �

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :