اہم گواہ قتل کیوں ہو جاتے ہیں ؟

منگل 16 جون 2015

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

ماڈل ایان علی کیس کے اہم گواہ کسٹم آفیسر چوہدری اعجاز کے قتل کے بعد یہ استفسار پورے قد کے ساتھ ہمارے مقابل آن کھڑا ہواہے کہ پاکستان میں اہم مقدمات کے گواہان اکثر قتل یا لاپتہ کیوں جاتے ہیں ؟۔ قرار دیا جاتا ہے کہ کسٹم آفیسر چودھری اعجاز نے ایان علی کیس میں اہم پیش رفت کر لی تھی اور ان کے ہاتھ چند ایسے ٹھوس شواہد بھی آگئے تھے جن کی مدد سے منی لانڈرنگ کیس کے پس پردہ ملزمان تک رسائی حاصل کی جاسکتی تھی ۔

مکرر عرض کرتا ہوں پاکستان میں اہم مقدمات کے گواہ ، مدعی یا تفتیش کار اکثر قتل کیوں ہوجاتے ہیں ؟۔ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی انوسٹی گیشن ایجنسیز نے کبھی اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہومگر چودھری اعجاز کے بہیمانہ قتل سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس نوعیت کی وارداتوں کا سدباب کر نے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔

(جاری ہے)

دراصل وطن عزیز میں یہ روائت روز اول سے ہی چلی آرہی ہے کہ یہاں طاقتور اپنے جائز و ناجائز مقاصد کے حصول کی خاطر بلاجھجک تمام وسائل بروئے کار لاتے ہیں ۔ان وسائل میں رشوت،ڈاکہ، چوری، بدعنوانی،قتل، اغوا اور تشدد شامل ہے ۔ اکثر فلموں اور ناولوں میں اس قسم کی سٹوریز دیکھنے اور پڑھنے کا موقعہ ملتا ہے جس میں بڑے بڑے گینگ پہلے کسی دیانتدار پولیس افسر کو قتل کرتے ہیں اور پھر بعد میں اس کے گھر والوں کو ہراساں کرتے ہیں کہ وہ اس کیس کی پیروی نہ کریں ۔

بدقسمتی سے پاکستان میں فلموں اور کہانیوں کے یہ حقیقی کردار ہمیں جابجا دکھائی دیتے ہیں ۔ایک مرتبہ راقم نے ایک ٹی وی پروگرام میں عرض کیا تھا کہ “جن ریاستوں میں سسٹم کمزور ہوتا ہے وہاں جرائم پیشہ افراد مظبوط ہو جاتے ہیں “۔ وطن عزیز کو اس سوختہ بختی کا سامنا رہا ہے کہ یہاں جرائم کے بادشاہ فی الحقیقت بادشاہ ثابت ہوئے ہیں ۔ اپنے دفاع اور تحفظ کی خاطر دیگر افراد کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دینا ان افراد کیلئے حشرات الارض کو پاؤں تلے روندھنے کے مترادف ہے۔

ظاہر ہے جب ہم داخلی سطح پر قانون کی دھجیاں اڑانے والوں کو نظر انداز کردیں گے تو پھر یقینی طور پر بین الاقوامی قوتیں بھی ہمارے ساتھ قانون شکنی والا رویہ اختیار کریں گی ۔ قانون سے بے نیازی اور من مرضی کی اولین مثال ہمیں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے بہیمانہ قتل میں دکھائی دیتی ہے ۔ پچاس کی دہائی کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ لیاقت علی خان 16 اکتوبر 1951ء کو جلسہ عام سے خطاب کرنے کی غرض سے راولپنڈی پہنچے ۔

یہ تقریر بڑی اہم تھی لیکن 4 بجے کے قریب جب وہ کمپنی باغ، جو اب لیاقت باغ کہلاتا ہے تقریر کرنے کیلئے کھڑے ہوئے تو ابھی ان کی زبان سے صرف ”برادران اسلام “ ہی نکلا تھا کہ سید اکبر نامی ایک شخص نے جو ڈائس سے آٹھ دس فٹ کے فاصلے پر بیٹھا ہوا تھا ان پر گولی چلا دی۔ لیاقت علی خان نے پہلے کلمہ پڑھا پھر کہا گولی لگ گئی ہے، پھر دوبارہ کلمہ طیبہ پڑھا اور کہا ” خدا پاکستان کی حفاظت کرے“۔

اس کے بعد بیہوش ہوگئے۔ اسی حالت میں انہوں نے جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔ اس کے بعد جلسے میں بھگدڑ مچ گئی اور پولیس نے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق قاتل پر حملہ کر کے اسے جان سے مار دیا قیاس کیا جاتا ہے کہ سید اکبر کو اس لیے گولی ماری گئی تھی تا کہ قتل کے حقیقی منصوبہ سازوں تک رسائی حاصل نہ کی جاسکے۔لیاقت علی خان کے قاتل کون تھے اور ان کا مقصد کیا تھا اس کا کوئی پتہ نہ چل سکا قتل کی عدالتی تحقیقات کسی نتیجے پر نہ پہنچی۔

اعتزازالدین جو تحقیقاتی افسر تھے اور انسپکٹر جنرل کے عہدے پر فائز تھے، وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی طلبی پر کراچی جا رہے تھے کہ طیارے کو جہلم کے قریب آگ لگ گئی جس کے سبب افسر تحقیقات اور مقدمہ کے اہم کاغذات نذر آتش ہو گئے۔ فروری 1958ء میں معلوم ہوا کہ پولیس کی تفتیشی کارروائیوں کی فائل بھی ریکارڈ سے غائب ہے۔نصف صدی گزرنے کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے اپنی ری کلاسیفائیڈ کی جانے والی دستاویزات میں بتایا کہ قائد ملت لیاقت علی خان کو امریکا نے افغان حکومت کے ذریعے قتل کروایا تھا ۔

گواہان ،مدعی اور تفتیش کاروں کو قتل کئے جانے کی ایک اور مثال ہمیں میر مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں دکھائی دیتی ہے ۔ میر مرتضیٰ بھٹو کوستمبر 1996 میں کراچی کلفٹن میں ان کی رہائش گاہ کے قریب ایک پولیس مقابلے میں سات ساتھیوں سمیت ہلاک کر دیا گیاتھا۔مرتضی بھٹو قتل کیس میں تیئس ملزمان کو نامزد کیاگیا ۔ جن میں پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید عبداللہ شاہ مرحوم بھی شامل تھے ۔

دیگر ملزمان میں شکیب قریشی ،مسعود شریف، شعیب سڈل، ایڈیشنل آئی جی سندھ واجد علی درانی، ای آئی جی پولیس ویلفیئر سندھ شاہد حیات، ایس ایس پی رائے طاہر، آغا جمیل، عبدالباسط، راجہ حمید، فیصل اور بشیر قائم خانی سمیت اٹھارہ ملزمان شامل تھے۔ شکیب جلالی اور آصف علی زرداری کو 2008میں اس کیس سے بری کر دیا گیا جبکہ دیگر تمام ملزمان کو پانچ دسمبر 2009کو بری کیا گیا ۔

اس کیس میں سب سے اہم کردار کلفٹن پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او حق نواز سیال اور انسپکٹر ذیشان کاظمی تھے کیونکہ یہ دونوں پولیس افسران قتل کی اس واردات میں براہ راست ملوث تھے اور کسی بھی موقع پر اس راز سے پردہ اٹھا سکتے تھے کہ انہیں گولی چلانے کے احکامات کہاں سے موصول ہوئے تھے ۔ لہذا اسے ایان علی کیس کے اہم گواہ چودھری اعجاز کے قتل کی طرح اتفاق ہی سمجھیں کہ انسپکٹر حق نواز سیال کو پولیس لائین کراچی میں ان کے گھر میں گھس کر قتل کر دیا گیاجبکہ ذیشان کاظمی کو بھی ایسی ہی موت سے ہمکنار ہونا پڑا ۔

جبکہ 2004میں مرتضیٰ بھٹو کے قریبی ساتھی علی سنیارا کو بھی قتل کر دیا گیا ۔ اسی طرح 2004میں ہی پیپلز پارٹی کے منورسہروردی کو بھی گرومندر کراچی میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا ۔ اب زرا محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کے اہم گواہ خالد شہنشاہ کا حال ملاحظہ فرمائیں خالد شہنشاہ بلاول ہاؤس کراچی کے چیف سکیورٹی آفیسر تھے اور بے نظیر بھٹو قتل کیس کے اہم گواہ تھے ۔

خالد شہنشاہ کو 22جولائی 2008میں کراچی میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا ۔
دراصل جرائم کے ”بے تاج بادشاہوں“نے یہ ادراک حاصل کر لیا ہے کہ پاکستان میں جرم کے بعد بچ نکلنے کیلئے اہم گواہوں کوقتل بھی کیا جاسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اہم واقعات اور جرائم کے منصوبہ سازایسی گھناؤنی حرکات کاارتکاب بلاجھجک کرتے ہیں ۔ ایان علی کیس کے اہم گواہ چودھری اعجاز کا قتل قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معزز عدلیہ کیلئے امتحان کی گھڑی ہے کہ وہ کسٹم آفیسر اعجاز چودھری کے بہیمانہ قتل کی تفتیش کس انداز سے کرتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :