بجٹ میں نظرانداز معذورافراد لاہورہائیکورٹ پہنچ گئے

بدھ 24 جون 2015

Qasim Ali

قاسم علی

پاکستان کی سب سے بڑی کمیونٹی معذورافراد کو نظراندازکیا جانا کوئی نئی بات نہیں ہے اور حکومت نے یہ روائت حالیہ بجٹ میں بھی برقرار رکھی اور معذورافراد کی بحالی کیلئے کسی پروجیکٹ کااعلان نہیں کیا گیا حالاں کہ گزشتہ کچھ عرصے میں لاہور کی سڑکوں اور پنجاب اسمبلی کے سامنے معذورافراد جن میں بڑی تعداد نابینا افراد کی تھی نے زبردست احتجاج کیا جس کے جواب میں ان کے مطالبات تو پورے نہیں کئے گئے البتہ انہیں لاٹھی چارج کا سامنا ضرورکرنا پڑا لیکن ان احتجاجی مظاہروں کے بعد ملکی سطح پر ایسی فضا ضرور بن گئی جس کے بعد یہ نظر آرہاتھا کہ اب کی بار بجٹ میں معذورافراد کو نظرانداز نہیں کیاجائے گا مگر حکومت نے ایک بارپھر جس بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان ڈیڑھ کروڑ زندہ لاشوں کیلئے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتی بلکہ ان کو شائد پاکستان کا شہری بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے یہی وہ ناانصافی ہے جس نے معذورافراد کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبورکیا ہے انجمن بحالی معذوراں رجسٹرڈ ضلع اوکاڑہ کی جانب سے ہائیکورٹ میں جناب اظہر صدیق ایڈووکیٹ صاحب نے فریق بننے کی استدعا کی جو قبول کرلی گئی ہے ۔

(جاری ہے)

انجمن بحالی معذوراں کے صدر ملک مظہر نوازنوناری اور جنرل سیکرٹری ظفرسیال صاحب جو کہ ہمیشہ ہی معذورافراد کی آواز حکام بالا تک پہنچانے کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دیتے رہے ہیں اس بار لاہور ہائیکورٹ سے بہت پرامید ہیں اور اس سلسلے میں بہت پرجوش ہیں ۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ معذورافرادکیلئے پاکستان کی کسی بھی ماضی یا حال کی حکومت نے کوئی ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی نہیں کی صرف 1981ء میں جنرل ضیالحق کے دور حکومت میں national rehabilitation and emplyment act 1981بنایا گیا جس کے تحت معذورافراد کو ایک فیصد کوٹہ الاٹ کیا گیا (جس کو 1997ء میں دو فیصد اور اب تین فیصد کیا گیا ہے)اس کے علاوہ اس آرڈیننس میں ضلعی،صوبائی اور قومی سطح پر نیشنل کونسل بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا جس میں معذورافراد کے مسائل کو دیکھا اور ان کو حل کئے جانے کا ذکر ہے اگرچہ اس آرڈیننس کا اگر بغور مطالعہ کیاجائے تو معذورافراد کیلئے بنایا گیا یہ آرڈیننس خود ہی ''معذور''کہلائے جانے کا حقدار ہے مگر افسوس کہ اس پر بھی آج تک عملدرآمد کرنے کی زحمت نہیں کی گئی ۔

اور اگر ہم اس آئین کے مطابق کوٹے کی بات کو ہی لیں تو پنجاب حکومت اس وقت معذورافراد کی 3093ملازمتیں دبا کر بیٹھی ہے جو انہیں نہیں دی گئیں ۔لیکن ٹھہرئیے صاحب ،معذورافراد کا مسئلہ صرف ملازمتیں دینے سے بھی حل ہونیوالا نہیں ہے بلکہ اس کیلئے مزید ٹھوس، جامع اور جاندار ہنگامی پلان آف ایکشن ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور یہ پلان آف ایکشن اقوام متحدہ کے معذورافراد سے متعلق کنونشن united nations convension for person,s with disabilities (جس پر پاکستان ستمبر 2011میں دستخط کرکے اس پر عملدرآمد کا پابند ہے )اور اوپر ذکر کئے گئے پاکستان کے آرڈیننس کی روشنی میں تشکیل دیاجانا چاہئے ۔

جس کے مطابق معذورافراد یعنی سپیشل پرسنز کو تمام سرکاری ہسپتالوں میں مکمل مفت اور نجی ہسپتالوں میں 60%رعائت پر علاج معالجے کی سہولیات ،تمام اداروں میں معذورافراد کے بچوں کو مفت تعلیم ،ہر طرح کی ٹرانسپورٹ بالکل فری اور ہوائی جہاز میں نصف رعائت،معذورافراد کو ترجیحی بنیادوں اور گھر کے قریب ملازمتیں دینے ،ہر ادارے میں بغیرقطار اور انتظار کے ان کا کام کرنے بلکہ ان کیلئے الگ کاوٴنٹر قائم کرنے ،ان کی اولاد کی شادی کیلئے مالی معاونت ،یوٹیلٹی بلوں میں ریلیف اور دیگر کئی سہولیات فراہم کرنے کا حکم دیاگیا ہے ۔

اس کے علاوہ یہاں ایک اور بات بھی انتہائی قابل غور ہے کہ عام طور پر معذورافراد کی کئی تنظیمیں معذوروں کیلئے صرف دومطالبات کرتی نظر آتی ہیں
موومنٹ میں آسانی کیلئے ریمپس بنائے جائیں اور دوسرا ان کو سرکاری کوٹے کے مطابق ملازمتیں فراہم کی جائیں میرے خیال میں یہ دونوں مطالبے جائز لیکن معذورافراد کی بحالی کیلئے انتہائی ناکافی ہیں کیوں کہ نوکریاں توصرف تعلیم یافتہ معذورافراد کو ہی لیں گی اور موومنٹ میں آسانی بھی انہی کو میسر آسکتی ہے جو کچھ نہ کچھ چل پھر سکتے ہیں مگر وہ معذورافراد
جو پڑھے لکھے نہیں ان کی معاشی بحالی اور ان کوزندگی کے دھارے میں شامل کرنے کیلئے کیا پروگرام بنایاجائے تو اس کا ایک سادہ سا حل یہ ہے کہ ایسے افراد کو انتہائی آسان اقساط پر قرض حسنہ دیاجائے جس کی مدد سے وہ اپنا چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرکے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پال سکتے ہیں اور دوسرے وہ معذورافراد جن کوقابل رسائی آسان رستوں سے کوئی غرض نہیں کیوں کہ وہ اپنی انتہائی حساس معذوری کے باعث گھر سے ہی نہیں نکل سکتے اور چارپائی کے ہی ہوکررہ گئے ہیں ان کیلئے معقول وظائف کی فراہمی بھی یقینی بنائی جانی چاہئے تاکہ وہ کسی پر بوجھ بننے اور دوسروں کے طعنوں سے بچ کر اپنے پاوٴں پر کھڑے ہوسکیں ۔

یہ کرنے سے ایسے معذورافراد کی بڑی تعداد باعزت روزگار پر آسکتی ہے جو پیشہ ور بھکاری نہیں بلکہ غیر مناسب معاشرتی رویوں اور حکومت کے عدم تعاون اور معذوروں کی کفالت نہ کرنے کی وجہ سے مجبوراََ پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوچکے ہیں ۔بہرحال معذورافراداب بہت پرامید ہیں کہ لاہور ہائیکورٹ میں ان کی ضرور شنوائی ہوگی اور ان کو ان کا حق ضرور ملے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :