سب کہانی ہے بابا

جمعرات 2 جولائی 2015

Akram Kamboh

اکرم کمبوہ

نیکی اور خوشی انسان کے اندر سے پھوٹتی ہے ،جیسے زرخیز زمینوں میں گلاب ،خوشی انسان کو شاد رکھتی ہے اور گناہ پریشان ،خوشی بازار دنیا کی کوئی جنس نہیں کہ دام دیا اور خرید لیا ،خوشی کا تعلق کچھ اور امور سے ہے ،آج ہم اپنے آس پاس نظر دوڑائیں ہر شخص ہمیں پریشان اور بے زار دکھائی دیتا ہے ،ماں کو بیٹے سے شکوہ ہے ،بیٹا باپ سے ناراض ہے ،بھائیوں میں تنازعات سراٹھاتے رہتے ہیں ،ہماری عدالتیں اور تھانے بھرے پڑے ہیں ،کسی دم ،کسی لمحہ سکوں ہی نہیں ،جب انسان مادیت کا اسیر ہوجائے تو پھر بھلا اسے خوشی کہاں نصیب ہوسکتی ہے ،خوشی تو دوسروں کو خوشی دینے سے ملتی ہے ،آپ لوگوں کے لیے جس قدر راستے آسان کرتے چلے جائیں گے تو آپ کی زندگی پگڈنڈیاں بھی اتنی کشادہ ہوتی چلی جائیں گی ،آپ دوسروں کے لیے جتنی آسودگیاں پیدا کریں گے آپ ہر رات راحت کی نیند سوئیں گے ،میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ قتل و غارت کرنے والے ،ٹارگٹ کلرز اور انسانیت کے ساتھ گھناوٴنے جرائم کرنے والے کیسے سکون کی نیند سوتے ہوں گے ؟ کیا انہیں نیند بھی آتی ہوگی ؟ جن کے ضمیر پر بوجھ نہیں ہوتا وہ سکھ کی نیند سوتے ہیں اور جو لوگ اپنی نیندیں دوسروں کے لیے قربان کرتے ہیں ان کے چہروں پر ہمیشہ خوشی اور اطمینان کا ہالہ رہتا ہے ،خوشی کے پیچھے ہم جتنا دوڑیں گے یہ ہماری دسترس سے دور ہوتی چلی جائے گی ،آج ہم سب خوشی کو جہاں تلاش کررہے ہیں وہ وہاں ہے ہی نہیں ،اس کی جگہ کوئی اور ہے ،اس کے حاصل کرنے کا راستہ کوئی اور ہے ،آپ کے پاس وسائل اور روپے پیسے ہیں تو آپ سامان تعیش تو خرید سکتے ہیں لیکن خوشی اور چین نہیں ،اگر دلی اطمینان اور خوشی پیسوں سے حاصل کی جاسکتی تو بڑے لوگ اذیت ناک زندگی نہ گذارتے ،انہیں تنہائی کا ناگ کا نہ ڈستا ،لمحہ لمحہ چین کے لیے نہ سسکتے ،لامحدود خواہشیں اور لمبی امیدیں سکھ چین کو زنگ آلودہ کردیتی ہیں ،دل مردہ ہوجاتے ہیں ،چہروں سے نور اٹھ جاتا ہے ،اطمینان خواب و خیال ہوجاتا ہے ،مال و دولت کمانا کوئی باعث شرم عمل نہیں نہ کوئی آر ہے ،ہاں دولت کے لیے زندہ رہنا، دولت کو بڑھاتے رہنا اور دولت کے انبار پر سونے کی خواہش کرنا یہ سب وہ عوامل ہیں جو چین نہیں دیتے ،مادیت میں بے سکونی ہے ،روحانیت میں چین ہے ،خواہشات کو توکل کی چادر میں رکھا جائے تو ہرلمحہ راحت کا لمحہ ہوتا ہے ،آج ہم میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ جس کے پاس مال و دولت ہے وہ اتنا ہی سکھی ہے ،حقیقت میں ایسا نہیں ،سکھی تو صرف وہ ہے جس کا دل پاک ہے ،جس کے سوچیں شفاف ہیں ،جس کا ہر قدم صراط مستقیم کا متلاشی ہے ،جب جائز و ناجائز مال و دولت کی حرص و ہوس بڑھتی ہے ویسے ویسے انسان کے باطن میں جگہ تنگ پڑتی چلی جاتی ہے ،میں نے اپنی زندگی میں امراء و روساء کو حتیٰ کے بینکوں کے مالکان کو پریشان دیکھا ہے ،راتیں کانٹوں پر کاٹتے سنا ہے ،وہ لوگ جن کی تجوریاں دولت سے بوجھل ہوچکی ہیں اکثر ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کی زندگی بے کیف ہوتی ہے ،ہاں استثنیٰ تو ہر جگہ ہوتا ہے ،وہ امیر ہو یا غریب جو سچائی ،دیانت ،خوف و خدا کے جذبوں کے ساتھ اپنے شب و روز بسر کرتا ہے اللہ اسے طمانیت عطا کردیتے ہیں ،اس کے قلب سے سارے بوجھ ہٹادیتے ہیں ،وہ چین کی نیند سوتا ہے ،راحت کی نیند گذارتا ہے ،اس کی شامیں حسین ہوتی ہیں ،وہ غریب جو خدا سے بے نیاز ہوجائے، من چاہی زندگی جس کی عادت ثانیہ بن جائے ،دنیا کا کوئی حکیم و دانا اسے خوش نہیں رکھ سکتا ،آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ لوگ ماہرین نفسیات کے پاس جاتے ہیں اپنی پیاسی روحوں کے ساتھ ،ماہرین نفسیات انہیں رونے کے لیے صرف اپنا کاندھا فراہم کرتے ہیں ،وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں اور کچھ بھی نہیں ،باقی سب کہانی ہے بابا،خواہشات جب رب سے دور کردیں ،آمدنی کے ذرائع آلودہ ہوں ،لوگ ظلم و جبرکے خوگر ہوجائیں ان کا ہرلمحہ بے چین گذرتا ہے ،ہر رات اخترشماری کرتے کروٹیں لیتے صبح کردیتے ہیں ،بعض لوگوں کو ماضی کی ناخوشگوار یادیں ستاتی ہیں ،کسی کو کوئی گلٹ ہوتا ہے جو انہیں چین نہیں لینے دیتا ،بعض لوگوں کی ذہنی الجھنیں کسی صدمے کے زیر اثر ہوتی ہیں ،ان کی بات الگ ہے ،اگر ہم اپنا غبار ،دل کی بھڑاس خدا کے حضور نکالیں ،اپنے رب سے راز و نیاز کریں ،اس کے سامنے کامل جھک جائیں ،پھر کسی اسپیچ تھراپی یا ادویات کی ضرورت نہیں ،جب افراد یا معاشرے ذہنی طور پر بیمار ہوجائیں تو ان کا علاج زمینی نہیں بلکہ آسمانی ہوتا ہے ،سکون و خوشی کا سب سے آسان راستہ اپنے اللہ سے تعلق مضبوط کرنا ہے ،اللہ کی چاہت پر اپنی ساری چاہتیں قربان کردینا ،جو اللہ کا ہوگیا اللہ بھی اس کا ہوگیا ،اکثر لوگ مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہمارے مسائل حل نہیں ہوتے ،ہم پریشان رہتے ہیں ،ایک بے نام سی اداسی چھائی رہتی ہے ،میرا جواب ہوتا ہے کہ جس نے مسائل بھیجے ہیں اس کے سامنے سائل بن کر کھڑے ہوجاوٴ، جب پریشانی اذیت بن جائے تو سجدوں میں جبین نیاز جھکادو ،لوگوں میں آسانیاں بانٹو ،معاف کرنا سیکھو ،رزق کو پاکیزہ بناوٴ، مخلوق کو خالق کی طرح چاہو ،ضرورت مندوں کی نگاہیں اٹھنے سے پہلے ان کے دروازوں پر پہنچ جاوٴ،سب بگڑے کام بنتے چلے جائیں گے ،اللہ خوشی کا لباس اوڑھادیں گے ،اپنی زندگی میں ہم کوئی ایک ایسا کام کر جائیں جس سے مخلوق خدا کو دائمی فائدہ ہو ،گمان غالب ہے وہ بھی معاف کردے گا جو ساری کائنات پر غالب ہے ،درگذر کرنا سیکھو ،معاف کرنا سیکھو ،چھوٹا بننا سیکھو ،اپنی ذات کے نکیلے کونوں کو گول کرو ،زبان کے انگاروں اور خاروں کو سرد کرو ،دل میں اترو ،دل سے نہ اترو ،ایک دفعہ .

...صرف کامل توبہ ہمیں دائمی خوشی دے سکتی ہے ،عطا کرنے والا تو ہمارا منتظر ہے ،ہم ہی مائل بہ کرم نہیں ،یہ رمضان المبارک کی مبارک ساعتیں ہیں ،اگر ان میں بھی ہم اپنے رب سے لو نہ لگاسکے ،مخلوق کے دل میں محبت کی جوت نہ جگاسکے ،پھر وہ وقت کب آئے گا ،وقت بہت کم ہے ،ایسا نہ ہو وقت کی نبضیں تھم جائیں ،ہم خالی ہاتھ رہ جائیں ،نہ ہماری اس وقت دعائیں کام آئیں گی اور نہ صدائیں ،آج فقیر آپ کے سامنے یہی صدا لگاتا ہے کہ حسن و حسین  کے مولا کو راضی کرلو ،

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :