بجٹ، ٹیکس اور قرضے

پیر 6 جولائی 2015

Akram Fazal

اکرم فضل

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے موجودہ دور حکومت کا تیسرا سالانہ بجٹ برائے سال 2015-16 ء پیش کر کے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں ایوانوں سے منظور کرا لیا ہے اور خوشی اور چین کی بنسری بجا رہی ہے۔ سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کا بھی یہ دعوی ہے کہ نئے بجٹ سے غریب آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جو کہ ایک دیوانے کی بڑھ کے سوا اور کچھ نہیں ہے کیونکہ سالانہ بجٹ تو ایک آئینی ضرورت ہے ورنہ ضمنی اور منی بجٹ وقتاً فوقتاً ہر سال پیش ہوتے رہتے ہیں اور نئے نئے ٹیکسوں کے ناموں سے عوام پر معاشی بوجھ کا اضافہ کرتے رہتے ہیں۔

اب تو یہ خطرہ نظر آتا ہے کہ کسی روز ٹیکسوں کی فہرست میں سانس لینے پر ٹیکس بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
حکومت اپنے اللے تللوں اور کرپشن پر قابو پانے کی بجائے ٹیکسوں کی صورت میں غریب آدمی پر مالی بوجھ کا اضافہ کرنے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتی اور بجٹ میں منظور شدہ اخراجات کے علاوہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کی رقوم کو بھی شیر مادر سمجھتے ہوئے استعمال کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

حکمران طبقہ اپنے مصاریف پر کوئی قدغن لگانے کی بجائے اپنی عیاشیوں کا بوجھ بھی عوام کی گردن پر ڈال رہا ہے اور پھر بھی نعرہ اور دعوی پارسائی کا لگا رہا ہے۔ حکومت کا دعوی تھا کہ وہ اپنے انتظامی اخراجات میں کمی کرے گی اور وزیر اعظم اس عمل کا آغاز اپنے دفتر سے کریں گے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ سال 2012-13میں وزیر اعظم کے آفس کا بجٹ 72 کروڑ 50لاکھ تھا جسے 2013-14ء کے لئے کم کرکے بجٹ 39کروڑ 60لاکھ کیا گیا مگرعملی صورت حال اس کے برعکس رہی اور ترمیمی بجٹ کے ذریعے 75کروڑ 50لاکھ کر دیا گیا، اگلے مالی سال اس میں تقریباً 5کروڑ روپے کا اضافہ کر دیا گیا اور اب یکم جولائی سے شروع ہونے والی نئے مالی سال کے لئے اس میں مزید 5کروڑ روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ ایک ارب روپے کے اخراجات منظور شدہ بجٹ کے علاوہ ہیں جس کا بجٹ دستاویزات میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

اسی طرح سے ایوان صدر اور دیگر وی وی آئی پی شخصیات کے دفاتر کے اخراجات ہیں۔
اپنی عیاشیوں کے لئے قومی خزانہ کم پڑے یا جتنی چادر اتنے پاوٴں پھیلانے کے برعکس اخراجات کریں تو آپ کو یقینی طور پر عوام پر ٹیکس لگانا پڑے گا اور اس پر بھی آپ کے پھیلے ہوئے پاوٴں قابو میں نہ رہیں تو اندرونی اور بیرونی قرضوں کا آپشن موجود ہے۔ چنانچہ حکمران طبقہ نے ایسے ہر عمل کو روزانہ کا معمول بنا لیا ہے اور آئے دن کوئی نیا ٹیکس، یا نیاقرضہ، کسی ایک یا تمام یوٹیلٹی بلز میں کسی نئے نام سے ٹیکس یا ایک اور منی بجٹ کی صورت میں قوم پر مالی بوجھ کا ناروا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔

اسی پر بس نہیں بلکہ مواصلات اور انٹرنیٹ کی خدمات پر نئے نئے ناموں کے ٹیکس لاگو کر دئیے جاتے ہیں مثلاً حالیہ بجٹ میں انٹرنیٹ ٹیکس لاگو کر دیا گیا ہے جس کی شرح شروع میں ہی14فیصد رکھ دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں موبائل صارفین کو اپنے بیلنس لوڈ کرنے پر سو روپے کے عوض پہلے اگر 10یا 15کٹوتی ہوتی تھی جو موجودہ حکومت کے گزشتہ دو برسوں میں 25فیصد کے قریب بڑھ گئی تھی تواب اسے بڑھا کر 35 اور 40فیصد تک پہنچا دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ یہ وہ کٹوتی ہے جو آپ کو بیلنس لوڈ کرانے پر معلوم ہو جاتی ہے لیکن ہر کال کے دورانیہ پر حکومتی ٹیکس کی شرح بھی لاگو ہے۔ اگرچہ عام آدمی ایسے ٹیکس سے واقف نہیں ہے لیکن اس کی تفصیل حکومتی مالیاتی نظام اور موبائل کمپنیوں کو بخوبی معلوم ہے۔
بنکوں کے ذریعے رقوم کے لین دین پر ٹیکس۔
ایک زمانہ تھا کہ بنکوں میں کھاتہ داروں کے لئے بنک مختلف قسم کی ترغیبات دیتے تھے اور کھاتہ داروں پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس نہیں تھا لیکن پہلے چیک بک پر دس پیسے فی چیک پرت متعارف کرایا گیا، پھر اس کی شرح میں اضافہ در اضافہ ہوتا چلا گیا جسے اب کچھ بنکوں نے اپنے کھاتہ داروں کے لئے آسان کر دیا ہے مگر حکومت نے مختلف بہانوں سے نئے ناموں سے کئی اور ٹیکس متعارف کرانے شروع کر دئے ہیں۔

پہلے 25ہزار روپوں کی کیش وصولی پر کوئی ٹیکس نہیں تھا جبکہ اس سے زائد رقم کی کیش وصولی پر ٹیکس لگا دیا گیا۔ پھر اس ٹیکس کی شرح میں اضافہ در اضافہ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اب حالیہ بجٹ کے ذریعے ہماری پیاری، جمہوری اور عوامی حکومت نے ہر بنک کھاتہ دارپر 75 روپے ماہانہ کے علاوہ 50ہزار روپے کی ہر ٹرانزیکشن (نقد یا چیک ہر دو صورتوں میں) پر عشاریہ 60فیصد ٹیکس عائد کر دیا ہے جسے کاروباری طبقے نے یکسر مسترد کرنے اور حکومت کی طرف سے واپس نہ لئے جانے کی صورت میں 7جولائی سے شٹر ڈاوٴن ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔


قرضوں کی غلامی کی کیفیت یہ ہے کہ قیام پاکستان سے 2001ء تک 54برسوں میں قرض کا بار ملک پر 3,172ارب روپے تھا جو 2008ء تک دوگنا ہو کر 6,126ارب رپے، پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 14,293ارب جبکہ مسلم لیگ (ن) کے موجود دور حکومت کے دو سال کے دوران تقریباً تین ہزار ارب کے اضافے کے ساتھ 16,936ارب روپے ہو چکا ہے اورقوم کو قرضوں کی دلدل میں اس قدر دھکیل دیا گیا ہے کہ آئندہ ایک برس کے دوران ہمیں 1,280ارب ان قرضوں کے نتیجے میں محض سود کی ادائیگی کے لئے درکار ہیں جبکہ حکومت 2005ء کے قرضوں کی حد پر پابندی کے قانون کی بھی مسلسل خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے۔

قرضوں کے نتیجے میں آج پاکستان کا ہر فرد بچہ ہو یا جوان ایک لاکھ تین ہزار روپے فی کس مقروض ہے۔ کیا ایسی صورت حال کو آپ قومی آزادی کا نام دے سکتے ہیں!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :