جمہوریت تو زندہ ہے ناں

جمعہ 10 جولائی 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

”آپ نے کبھی کوڑے کے ڈھیر سے رزق تلاش کرتے معصوم بچوں کو دیکھا ہے؟؟․․․․․․یاپھر گھر وں کے باہر پڑے ڈرموں میں بچا کھچا کھانا اٹھاکر اپنے بال بچوں کیلئے لے جانے والوں کے درد کو محسوس کیاہے؟؟ ایک روٹی کے بلکتے معصوم بچوں اور پھر ان کی ایک روٹی پوری نہ کرسکنے والے والدین کو سڑکوں پر لاکر بچے بیچتے دیکھا ہے؟؟ کبھی اس درد کو محسوس کرنے کی کوشش ہے جو تھر کے سینکڑو ں بچوں کے والدین کے دل میں آج تک نیزے کی طرح گھونپا ہوا ہے؟؟ کبھی اتنا ہی احساس کرلو کہ کراچی کی گرمی میں مرنیوالے بھی انسان تھے ․․․․․․․مگر تمہیں کیا ،تم توہو لکیروں کی خوشنمادنیا لوگوں کے سامنے پیش کرنے والے، کبھی سیاستدانوں کی فکر ہے تمہیں تو کبھی جمہوریت کا احساس ، تم چاہتے ہو کہ حکومت کوئی بھی رہے مگر جمہوریت کوہرصورت زندہ رہناچاہئے․․․․․․․․ تم نے پین کی سیاہی سے کسی کو اچھا اورکسی کو برا تو لکھ دیا لیکن یہ کبھی سوچا کہ تمہارے اچھا لکھنے یا برا کہنے سے اس شخص کو کوئی فرق پڑے نہ پڑے تمہارے دائیں بائیں بیٹھے فرشتوں نے تمہارے اعمال میں ”نیکیاں“ نہیں لکھنی کیونکہ تم جس کواچھا کہتے ہو وہ دراصل برا ہو تا ہے اورجس کو برا سمجھتے ہو وہ بہت ہی اچھا ہے․․․․․․․لیکن تم بھی کیاکرسکتے ہو، تمہاری بھی تو مجبوریاں ہیں، تم اگر پوراسچ اور وہ بھی کسی لگی لپٹی کے ، اگر لکھو، چھاپو تو کوئی بھی یقین نہیں کریگا کوئی بھی چھاپنے کی جرات نہیں کریگا․․․․․میرے بیٹے یہ دنیا ہی دراصل جھوٹ کی ہے اور جھوٹوں پر مبنی ہے“
ہم کافی دیر اس بزرگ کے پاس کھڑے تھے جس نے بڑا تھیلہ ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اوراس میں شادی ہالوں اورگھروں کے سامنے بچے ہوئے کھانے ڈالتے ہوئے کبھی حکمرانوں کو کوستا اورکبھی عوام کو۔

(جاری ہے)

اس بزرگ شخص کے گھر نہ تو فاقوں کاڈیرا ہے اورنہ ہی اس کے بچے بھوکے سوتے ہیں، اسے اپنی گھریلو تنگ دستی کی بھی پریشانی نہیں ہے۔کیوں کہ اس کے بیٹے اپنے ہاتھوں سے اپنا رزق کماتے ہیں ،بچیاں گھر کی ہوگئیں ۔اس بابا جی کو شوق ہی نہیں جنون بھی ہے کہ رزق کی بے قدر ی نہ کی جائے۔وہ پتہ نہیں اس بچے کھچے کھانے کا کیاکرتا ہے نہ تو ہماری سمجھ میں آیا اورنہ ہی کسی آس پاس بسنے والوں کو کبھی اس قدر کی توفیق ہوئی۔


صاحبو! اگلی صبح پھر اسی بابا جی کو جاپکڑا۔ پوچھ لیا کہ آپ نے کل جو باتیں کہی وہ دل پر نقش ہوگئیں مگر سوال یہ ہے کہ آپ جمہوریت اور سیاست سے اس قدر نالاں کیوں ہیں؟ باباجی کے ماتھے پر سوچ کی لکیریں بکھریں اور پھر انہوں نے سراٹھاکر ہماری طرف دیکھا اوربولے ”میں عام آدمی ہوں ،میری سوچ جمہوریت آمریت اور سیاست سے پہلے اپنے بچوں کے پیٹ کی طرف ہی رہتی ہے، جب میرے بچوں کے پیٹ بھرے ہونگے تو میرے لئے فیصلہ کرنا آسان ہوجائیگا کہ میرے لئے جمہوریت بہتر ہے یا آمریت، ملک کے کروڑوں لوگوں جیسا عام آدمی ہونا ایک اعزاز تو ہے مگر کبھی تم بھی صحافت اورکالم نگاری کی کلغی اتارکر عام آدمی بن کر اس معاشرے میں جاؤتو لگ پتہ جائیگا کہ ”عام آدمی“ ہوتا کیا ہے، اس کی مجبوریاں اورمحرومیاں کیاہوتی ہیں۔

اگر تم یہ محسوس کرلو تو پھر نہ تو تمہیں آمریت اچھی لگے گی نہ ہی جمہوریت اور نہ ہی تم سیاست اورسیاستدانوں کو اچھا کہنے کاسوچ سکوگے۔پوچھا باباجی!کراچی کی گرمی میں مرنیوالوں اورتھر کے صحراؤں میں گرمی بھوک،پیاس کے باعث شہید ہونیوالے معصوم بچوں کے ضمن میں بھلا سیاست اورسیاستدانوں کا کیاقصور؟بابا جی پھر سوچ میں غلطاں ہوگئے اورکافی دیر بعد سراٹھاکر بولے ” اگر حضرت عمرفاروق ہوتے تو میں سوال کرتا ۔

اے امیرالمومنین ،تھر میں اتنے بچے مرگئے ،کراچی کے لوگوں کو گرمی نے مار دیا ،ہرسال سیلاب میں سینکڑوں لوگ مرجاتے ہیں، اے عمر!آپ ہی بتائیے کہ میں کس کو گناہگارکہوں، آپ تو اپنے دور میں دریائے فرات کے کنارے ایک کتے کے مرنے پر خو د کو ذمہ دار کہتے تھے ،مگر آج کاحاکم تو کہتا ہے کہ ”اس میں بھلا ہمارا کیا قصور؟؟؟،اے عمر آپ ہی فیصلہ فرمادیجئے“ بابا جی کے منہ سے یہ باتیں سننے کے بعد دل اداس ہوگیا ،کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ،کے مصداق ایک بت کی سی کیفیت ہوگئی،وہ پھربولے ”تمہیں جمہوریت کی تو بڑی ہی فکر ہے، تمہیں آمریت کاخوف بھی ہے کہ اس کی بدولت بڑے بڑے ادارے تہہ تیغ ہوجاتے ہیں، تم چاہتے ہو کہ جمہوریت قائم رہے تاکہ اس کی بدولت کئی خاندانوں کے ”روزگار“ کامسئلہ ہوجائے مگرمیرے بیٹے سالوں سے جاری آمریت جمہوریت دھینگا مشتی میں نہ تو کوئی خاندان پیٹ بھرنے کی شکایت کرتے ہوئے باقی رہ جانیوالا ”خزانہ“ دوسرے کیلئے چھوڑنے کو تیارہے بس ہر طرف سے ”حل من مزید“ کی ہی صدائیں گونج رہی ہیں،بچے کبھی تھر میں بلک بلک کر مرجانے والے بچوں کی اجڑی گوددیکھ کر ان سے سوال تو کرنا کہ ”اس ملک میں جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں آپ بتائیں یہ خطرات کیسے ٹالے جاسکتے ہیں؟؟؟ کبھی کراچی میں پہلے ٹارگٹ کلنگ اوربعد میں گرمی سے مرنیوالوں کے ورثا سے جاکرپوچھنا کہ ہمارے لئے آمریت بھلی یا جمہوریت ؟؟ ،کبھی بھوک افلاس کے مارے بچوں کو فروخت کرنیوالے والدین کے پاس جاکر سوال کرنا کہ اس ملک میں جمہوریت کی جڑیں کیسے مضبوط ہوسکتی ہیں؟؟ یقینا تمہارے سارے سوالوں کا جواب تھر کی مائیں اور کراچی کے مرنیوالوں کے ورثا اوربچے فروخت کرنیوالے والدین دینگے“
بابا جی کی آنکھوں میں اتری نمی نے ان کے سچے ہونے کی گواہی دیدی۔

پھر خلاؤں میں دور تک دیکھنے کے بعد ایک آہ بھرکرباباجی بولے”عمرفاروق کو تو بڑی ہی فکر تھی کہ کہیں بھوکے پیاسے کتے کاحساب ان سے نہ لیاجائے ،کیا آج کے حاکم اس قدر فکر مندہوتے ہیں، پھرسوچتاہوں کہ آج کے حاکم کو سیاست ،جمہوریت کی گھمن گھیریوں کے دوران کبھی خیال بھی آیا کہ وہ کروڑوں ”عام آدمی“ کے بھی بادشاہ ہیں؟؟ نہیں میرا خیال ہے کہ نہیں، اگر انہیں خیال ہوتا تو کراچی سے لیکر سرحد تک کوئی بھی بھوکا پیاسا نہ مرتا، کوئی بھوک کے ہاتھوں بچے فروخت نہ کرتا۔ انہیں فکر نہیں بچے انہیں فکر نہیں“یہ کہہ کر بابا جی پھوٹ پھوٹ کر رودئیے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :