اصلاح معاشرہ میں پولیس کا کردار

پیر 3 اگست 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

طویل وقت کے بعد ایک دفعہ پھر شدت کے ساتھ وہ یاد آیا۔ پولیس میں موجود چندہیروں میں جس کا شمار کیا جا تا تھا۔ ایک ایماندار اور فرض شناس افسر کے ساتھ مخلص دوست ، ترقی کی خاطر ٹریننگ کی کامیابی کے بعد لاہور آتے ایک ٹریفک حادثے میں جانور کو بچا تے بچاتے اپنی جان،جان آفریں کے سپرد کر گیا۔ اس کی یاد اب بھی دل کے ایک حصے میں زندہ ہے۔

لاہور کے جس بھی تھا نے میں تعینات ہو تا غنڈہ گردی اور جرائم اپنی موت آپ مر جاتے ۔شہر لا ہورکی گلیاں، سڑکیں اور محلے آج بھی نعمان حبیب کی غریب پرور اور انسان دوست کاوشوں کی گواہ ہیں ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب یہ خوبصورت نوجوان لاہور کے کسی بھی تھا نے میں تعینات ہوتا تو تما م حدودپار کرتے جرائم فوراََ ہی جیسے ختم ہو جاتے تھے۔

(جاری ہے)

گلیوں اور محلوں میں ٹولیوں کی طرح کھڑے اوباش نوجوان جو جرائم کی آدھی وجہ سمجھے جاتے تھے وہ نظر آنا بند ،یہاں تک کہ سر عام گلیوں، محلوں اور پارکوں میں سگریٹ نوشی پر بھی سختی سے پابندی لگا دی گئی۔

جب تک وہ یہاں رہا ،امن، سکون اور آشتی کو دور دورہ رہا۔ عوام سکھ کا سانس لیتے اور کسی ظالم کو کسی غریب اور لاچار پر ظلم کر نے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔
کچھ روز قبل میرے ایک قریبی دوست اپنے علاقے میں پیش آنے والا واقعہ مجھے سنا رہے تھے کہ ان کے محلے میں ایک پان سگریٹ کی دوکان پر ٹولیوں کی صورت میں اوباش نوجوانوں کا رش لگا رہتا تھا جس کی وجہ سے اہل علاقہ اور بالخصوص علاقے کی مائیں بہنیں بہت پریشان رہتی تھیں ، یہ اس عذاب سے اس قدر پریشان تھے کہ فی زمانہ تھانوں میں رائج کلچر اور ”پولسیوں “کی زبان درازی سے کنارہ کشی کر نے کی بجائے ہمت کر کے اپنی شکایت علاقے کے ڈی،ایس ۔

پی کے پاس لے گئے۔ انہوں نے فوری طور پران کی درخواست پر ایکشن لیتے، دوکان دار کے خلاف شاپ سیکورٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا اور آئندہ اسے اہل علاقہ کی منشا ء کے مطابق عمل در آمد کر نے کا پابند کیا۔ میرے دوست کے بقول اس ایکشن کے بعد ہمیں عذاب ہوتی زندگی رحمت کی مانند محسوس ہو رہی ہے۔
قارئین ! میری کوشش ہوتی ہے کہ میں اپنے کالموں میں ایسے لوگوں کا ذکر ضرور کروں جو اس اندھیر نگری میں بھی اپنے حصے کا چراغ روشن کر رہے ہیں ۔

میں جب اصلاح معاشرہ کا” عَلم “تھامے ڈی۔ایس۔پی رانا غلام عباس سے ملا تو مجھے یہ جان کر از حیرت اور خوشی ہوئی کہ ابھی بھی محکمہ پولیس میں ان جیسے خوبصورت لوگ موجود ہیں جو اپنے ضمیر کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔یہاں انور سعید کنگرہ، عمر فاروق اور عمر ورک کی قیادت میں کام کر نے والے بیشترپولیس افسران کا ذکرنہ کر نا ،نا انصافی ہو گی ،جنہوں نے مظلوموں کو اپنے سینے سے لگا کر، ظالم کی ناپاک جسارت کو خاک میں ملادینے کو ہی اپنا فرض منصبی جا نا ہے۔


قارئین محترم !رانا غلام عباس، انور سعیدکنگرہ اور عمر فاروق جیسے پولیس افسران کی اصلاح معاشرہ کے لئے کی جانے والی کاوشیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر پولیس کا محکمہ ایمانداری کے ساتھ اس سلسلے کو شروع کرے تو اس کے نہایت ہی مثبت نتائج معا شرے پر رو نما ہو سکتے ہیں ور اس کے لئے ،خیالات کوحقیقت میں تبدیل کر نے والے لاہور پولیس کے ڈی۔

آئی۔ جی آپریشنز، ڈاکٹر حیدر اشرف بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی بہت سی خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ جو کام کر نے کا ارادہ کرتے ہیں اسے یقین قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے کر ڈالتے ہیں۔ پولیس ملازمین کی نفسیات پر اچھا اثر ڈالنے کے لئے پولیس لائنز میں کھانے پینے، رہنے اور دوسری ضروریات کو پورا کرتی بہترین سہولیات کی دستیابی، تھانہ کلچر کو تبدیل کر نے میں کسی حد تک کامیابی، مسجدوں میں کھلی کچھریوں کے ذریعے لوگوں کے مسائل حل کر نے کی کوشش،یاد گا ر شہدا اور اور پولیس ملازمین کے بچوں کے لئے سکول اور ہسپتال کی تعمیر میں مثبت پیشرفت، یہ سب ڈاکٹر صاحب کے خیالات تھے جو انہوں نے حقیقت میں بدل ڈالے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اگر وہ اصلاح معاشرہ کے عظیم کام کے لئے پولیس کو استعمال کر نے پر سوچنا شروع کر دیں تو کوئی بعید نہیں کچھ ہی دنوں میں یہ پرو جیکٹ بھی وجود میں آسکتا ہے۔


مخبر صادق ﷺ نے کیا خو بصورت ارشاد فر مایا:”اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں ،اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ضروریات پوری کر نے کے لئے پیدا کیاہے، لوگ اپنی ضرورتوں کے وقت ان کے پاس گھبرا کے آتے ہیں اور یہ اُن کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں ، یہ لوگ قیامت کے دن ا،للہ کے عذاب سے محفوظ رہیں گے“۔
تو پھر دیر کس بات کی؟ صادق و امین ﷺ کی زبان سے جاری ہونے والے ان الفاظ کے بعد پھر کون سی دلیل باقی رہ جاتی ہے؟ امید ہے کہ جلد ہی باقی کاموں کی طرح اس پر بھی کام شروع ہو جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :