شہید فون کیوں نہیں اٹھاتے؟
منگل 11 اگست 2015
(جاری ہے)
ایک شہر میں رہتے ہوئے میں اور نعمان بہت کم ملتے ہیں .
دو دن پہلے موسم اچھا تھا ، یہاں برطانیہ میں موسم کم ہی اچھا ہوتا ہے ، اور میں اپنے باغیچے میں بیٹھا نیلا آسمان دیکھ رہا تھا . میرے موبائل پر ڈاکٹر نعمان کا فون آیا ہم معمول کی بات چیت کر رہے تھے اور نعمان کے پس منظر میں ٹی وی چل رہا تھا . اس فون کال کے دوران ایک ایسا سانحہ پیش آیا کہ میں تب سے خود سے یہ سوال پوچھ رہا ہیں کہ " شہید فون کیوں نہیں اٹھاتے؟".
ہم جب بات کر رہے تھے تو ڈاکٹر نعمان نے زور زور سے اللہ اللہ کہا اور پھر کہنے لگا " یہ کیسے ہو سکتا ہے ، سر تو ابھی چار ہفتے پہلے پاکستان گئے ہیں میں انھیں روز ڈیوٹی پر اتارتا تھا ، انہوں نے پاکستان جانے سے پہلے میرے گھر کھانا کھایا تھا ، یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟". میں پریشان ہوا ، مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی ، ناجانے نعمان کس سر کی بات کر رہا تھا اور سر کو کیا ہوا ؟ نعمان نے بہت رنجیدہ لہجے کہا " میرے ایک سینیر میجر ڈاکٹر عثمان مانسہرہ میں ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہو گئے ہیں ". نعمان خاموش ہو گیا اور میرے پاس بھی اسے کہنے کے لیے کوئی جملہ ذہن میں نہیں آ رہا تھا . جس انداز سے نعمان اداس تھا ایسے لگتا تھا کہ اس کا کوئی بہت پیارا اس سے دور ہو گیا ہے ، شائد یہ شہیدوں کا کمال ہے کہ وہ جب جسم کی قید سے آزاد ہوتے ہیں تو سب کے پیارے ہو جاتے ہیں . نعمان نے کہا " فون بند کرو میں سر عثمان کا نمبر ملاتا ہوں " یہ کہہ کر اس نے لائن کاٹ دی اور مجھے ایک عجیب کشمکش میں چھوڑ گیا . میں رات بھر سو نہیں پایا ، بار بار سوچتا رہا کہ کیا سر عثمان نے ڈاکٹر نعمان کی کال اٹھائی ہو گی ؟ اگر نہیں تو " شہید فون کیوں نہیں اٹھاتے؟". مجھے لگا کہ میرا کوئی زخم تازہ ہو گیا ہے ، میں بھی ایسے عظیم بیٹوں کو جانتا ہوں جو وطن کی عظمت کی خاطر قربان ہو گئے اور پیچھے غم میں ڈوبے والدین اور جوان بیویاں چھوڑ گئے کہ جن کی آنکھ کا ایک ایک آنسو صبر کی چادر میں لپٹا بہت ہی معتبر ہے ۔
مجھے احساس ہے یا یوں کہہ لیں کہ میرا اندازہ ہے کہ سرحدوں کے محافظوں کے گھروں سے ان عظیم جنت کے شاہسواروں کی شہادت کے بعد ان کے پیارے اپنے دل کو تسلی دینے کے لیے شائد کئی بار انھیں کال کرتے رہے ہونگے یا ہو سکتا ہے کسی نے اپنے پیارے کو ایک خط لکھا ہو جو شہید تک پہنچ نہ پایا ہو اور آج بھی یہ کشمیر، سوات ، سیاچن، وانا اور وزیرستان کی چوٹیو یا سندھ و بلوچستان کے ساحلوں پر ایک ان سنی صدا کی صورت زندہ ہے . یہ میرے اللہ کا وعدہ ہے کہ یہ محافظ زندہ ہیں اور یہ میرا گمان نہیں بلکہ یقین ہے کے جو سپاہی چاک و چوبند اپنی دھرتی کی سرحدوں پہ ایک دیدبان کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ، اور جو یخ بستہ راتوں اور تپتی دوپہروں میں جب اہلیان وطن اپنی خواب گاہوں میں سکوں کی نیند سورہے ہوتے ہیں تو وہ جاگتے ہیں کہ جن کا جنون اور محبت ان کے رشتوں سے بہت عظیم تر ہے . یہ بھی کسی کے جگر گوشے ہیں، یہ بھی کسی کی آنکھ کا نور اور دل کا سکون ہیں .عام شہری ہوتے ہوئے ہمیں شہدا کی عظمت کا احساس تو ہے مگر جو کرب ان کے ساتھی اور اہل خانہ محسوس کرتے ہیں وہ ہمارے محسوسات کا حصہ نہیں بن سکتا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جو چلا جاتا ہے کبھی لوٹتا نہیں مگر اس کی یادیں بہت تنگ کرتی ہیں . پاکستان کی دھرتی باکمال ہے ، اور اس کے محافظ بے مثال ہیں مگر اس فون کال کے کٹنے کے بعد سے اب تک میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر ڈاکٹر نعمان نے اپنے شہید دوست کا نمبر ڈائل کیا ہو گا تو کیا آگے سے کوئی جواب آیا ہو گا ؟ اور اگر نہیں تو شہید فون کیوں نہیں اٹھاتے؟ شائد میرا سوال بہت لوگ نہ سمجھ پائیں مگر جن گیارہ گھروں کے چراغ وطن کی آزادی کو قائم رکھنے میں بجھے کیا وہاں بھی کسی نے یہ سوال خود سے پوچھا ہو گا ؟ ایک پرانی نظم ان عظیم بیٹوں کے نام جو فون تو نہیں اٹھاتے مگر سب سن رہے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہیں . اللہ ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کی قربانی کو قبول کرے (آمین). یہ نظم میں نے ایک شہید کی بیوہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے لکھی تھی جو اکثر راتوں کو اٹھ کر دروازے کے پاس جاتی تھی کیونکہ اسے لگتا تھا کہ اس کا سائیں لوٹ آیا ہے ۔
نہیں نظر میں تمہارا چہرہ
بادلوں میں تم چھپ گئے ہو
کہاں ہو تم عزیز من
کہاں کیا ہے تم نے بسیرا
رتجگوں کے عذاب سارے
زندگی کے یہ پر خار رستے
کیسے کٹیں گے یہ سخت موسم
کیسے دل کو قرار ملے گا
کہاں ہو تم میرے دلربا
کہاں ہو تم میرے جان من
کہیں سے گزرے جو کوئی قاصد
تمھارے خط کا میں پوچھتی ہوں
کبھی جو کوئی فون آئے
تمہارا مجھ کو خیال آئے
عساکر وں کی زندگی میں
دوریاں تو لکھی ہوئی ہیں
مگر تمھارے لوٹنے کا
کوئی امکاں نظر نہ آئے
کہاں ہو تم میرے سر کے سائیں
ڈھونڈتی ہیں تمہیں نگاہیں
میں اپنے دل کو دلاسہ دے کر
ہر ایک شب اک دیا جلا کر
تمھارے آنے کی جستجو کو
زندہ کرتی ہوں آنسووں سے
کہاں ہو تم اے میرے سپاہی
کہاں کیا ہے تم نے بسیرا …
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
انوار ایوب راجہ کے کالمز
-
سچ گونجتا رہے گا
پیر 27 اپریل 2020
-
میں اور میرا گیدڑ
پیر 13 اپریل 2020
-
تاریخ
پیر 29 اپریل 2019
-
محمد مالک کا یوٹوپیا، بلوائی اور زینب کی لاش
اتوار 14 جنوری 2018
-
میں زندہ ہوں
پیر 25 ستمبر 2017
-
مملکت کا کام نہیں رکتا
اتوار 17 ستمبر 2017
-
بیڈ نمبر ایک کا مریض
جمعہ 13 مئی 2016
-
طاہر شاہ ، اینجلز اور پانامہ لیکس
پیر 11 اپریل 2016
انوار ایوب راجہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.