شہید فون کیوں نہیں اٹھاتے؟

منگل 11 اگست 2015

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

ڈاکٹر نعمان صادق میرے سکول کے زمانے کے دوست ہیں . ڈاکٹر صاحب آرمی میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد برطانیہ آ گئے اور وہ پچھلے کافی سالوں سے یہاں ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے این ایچ ایس میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں . 1995 سے اب تک پچھلے بیس سالوں میں زندگی میں بہت سی تبدیلیاں آئیں ، بہت کچھ بدلا بلکہ زندگی ایک ایسا سفر بن گئی کہ جس کی کوئی منزل ، کوئی حد ، کوئی کنارہ ، کوئی حتمی ٹھکانہ نظر نہیں آتا، کیونکہ زندگی سب کے لیے ایک منفرد چیلینج لے کر آتی ، زندگی کا ڈی این اے ان سب عناصر کا ظہور ترتیبی ہے جو ہمارے سفر کا حصہ ہوتے ہیں .

اس کے برعکس زندگی کے سفر کا ایک حصہ ان اچھی یادوں ، کچھ اچھے دوستوں اور ان تعلیمی درسگاہوں کی نسبت پر محیط ہوتا ہے جو ہمیشہ انسان اپنے ساتھ رکھتا ہے ، اسی لیے پرانے ہم عصر اور بچپن میں اپنائی گئی عادتیں چھوڑے سے بھی نہیں چھوٹتیں. یہ انسانی زندگی کا کمال ہے کہ وہ ہر قسم کے ماحول میں ایڈجیسٹ ہو جاتا ہے ، اس کے علاوہ شائد انسان کے پاس کوئی چوائس ہے بھی نہیں ۔

(جاری ہے)


ایک شہر میں رہتے ہوئے میں اور نعمان بہت کم ملتے ہیں .

ڈاکٹر نعمان کے اور میرے کام کرنے کے اوقات مختلف ہیں مگر ہم فون پر اکثر بات کرتے ہیں . ایک دو بار ہم نے برطانیہ سے باہر اکٹھے سفربھی کیا ، نعمان کے پاس بانٹنے کے لیے اے ایم سی کے دور کی بہت سی یادیں ہوتی ہیں . کوئی بھی پروفیشنل جب کبھی مثال دیتا ہے تو اس کی مثال کا نقطہ آغاز یا نقطہ انجام وہ اکیڈمی ، سکول یا یونیورسٹی ہوتی ہے جس کا اس کی کامیابی میں کلیدی کردار ہوتا ہے .

یہ صرف ڈاکٹروں کا بات کرنے کا انداز نہیں ، فوجی ، صحافی، انجینیر ، وکیل ، پائلٹ یہاں تک کہ ٹیکنیشن اور کارپینٹر تک اپنی گفتگو میں کہیں نہ کہیں سے اپنی درسگاہ کا حوالہ شامل کر لیتے ہیں ، کیونکہ وہ ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں قائم ہونے والی دوستیاں بہت دور تک چلتی ہیں . نعمان کے بھی بیشتر دوست ڈاکٹر ہیں اور ان میں سے بہت سے ابھی بھی پاکستان فوج میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔
دو دن پہلے موسم اچھا تھا ، یہاں برطانیہ میں موسم کم ہی اچھا ہوتا ہے ، اور میں اپنے باغیچے میں بیٹھا نیلا آسمان دیکھ رہا تھا .

میرے موبائل پر ڈاکٹر نعمان کا فون آیا ہم معمول کی بات چیت کر رہے تھے اور نعمان کے پس منظر میں ٹی وی چل رہا تھا . اس فون کال کے دوران ایک ایسا سانحہ پیش آیا کہ میں تب سے خود سے یہ سوال پوچھ رہا ہیں کہ " شہید فون کیوں نہیں اٹھاتے؟".
ہم جب بات کر رہے تھے تو ڈاکٹر نعمان نے زور زور سے اللہ اللہ کہا اور پھر کہنے لگا " یہ کیسے ہو سکتا ہے ، سر تو ابھی چار ہفتے پہلے پاکستان گئے ہیں میں انھیں روز ڈیوٹی پر اتارتا تھا ، انہوں نے پاکستان جانے سے پہلے میرے گھر کھانا کھایا تھا ، یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟".

میں پریشان ہوا ، مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی ، ناجانے نعمان کس سر کی بات کر رہا تھا اور سر کو کیا ہوا ؟ نعمان نے بہت رنجیدہ لہجے کہا " میرے ایک سینیر میجر ڈاکٹر عثمان مانسہرہ میں ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہو گئے ہیں ". نعمان خاموش ہو گیا اور میرے پاس بھی اسے کہنے کے لیے کوئی جملہ ذہن میں نہیں آ رہا تھا . جس انداز سے نعمان اداس تھا ایسے لگتا تھا کہ اس کا کوئی بہت پیارا اس سے دور ہو گیا ہے ، شائد یہ شہیدوں کا کمال ہے کہ وہ جب جسم کی قید سے آزاد ہوتے ہیں تو سب کے پیارے ہو جاتے ہیں .

نعمان نے کہا " فون بند کرو میں سر عثمان کا نمبر ملاتا ہوں " یہ کہہ کر اس نے لائن کاٹ دی اور مجھے ایک عجیب کشمکش میں چھوڑ گیا . میں رات بھر سو نہیں پایا ، بار بار سوچتا رہا کہ کیا سر عثمان نے ڈاکٹر نعمان کی کال اٹھائی ہو گی ؟ اگر نہیں تو " شہید فون کیوں نہیں اٹھاتے؟". مجھے لگا کہ میرا کوئی زخم تازہ ہو گیا ہے ، میں بھی ایسے عظیم بیٹوں کو جانتا ہوں جو وطن کی عظمت کی خاطر قربان ہو گئے اور پیچھے غم میں ڈوبے والدین اور جوان بیویاں چھوڑ گئے کہ جن کی آنکھ کا ایک ایک آنسو صبر کی چادر میں لپٹا بہت ہی معتبر ہے ۔
مجھے احساس ہے یا یوں کہہ لیں کہ میرا اندازہ ہے کہ سرحدوں کے محافظوں کے گھروں سے ان عظیم جنت کے شاہسواروں کی شہادت کے بعد ان کے پیارے اپنے دل کو تسلی دینے کے لیے شائد کئی بار انھیں کال کرتے رہے ہونگے یا ہو سکتا ہے کسی نے اپنے پیارے کو ایک خط لکھا ہو جو شہید تک پہنچ نہ پایا ہو اور آج بھی یہ کشمیر، سوات ، سیاچن، وانا اور وزیرستان کی چوٹیو یا سندھ و بلوچستان کے ساحلوں پر ایک ان سنی صدا کی صورت زندہ ہے .

یہ میرے اللہ کا وعدہ ہے کہ یہ محافظ زندہ ہیں اور یہ میرا گمان نہیں بلکہ یقین ہے کے جو سپاہی چاک و چوبند اپنی دھرتی کی سرحدوں پہ ایک دیدبان کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ، اور جو یخ بستہ راتوں اور تپتی دوپہروں میں جب اہلیان وطن اپنی خواب گاہوں میں سکوں کی نیند سورہے ہوتے ہیں تو وہ جاگتے ہیں کہ جن کا جنون اور محبت ان کے رشتوں سے بہت عظیم تر ہے .

یہ بھی کسی کے جگر گوشے ہیں، یہ بھی کسی کی آنکھ کا نور اور دل کا سکون ہیں .عام شہری ہوتے ہوئے ہمیں شہدا کی عظمت کا احساس تو ہے مگر جو کرب ان کے ساتھی اور اہل خانہ محسوس کرتے ہیں وہ ہمارے محسوسات کا حصہ نہیں بن سکتا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جو چلا جاتا ہے کبھی لوٹتا نہیں مگر اس کی یادیں بہت تنگ کرتی ہیں . پاکستان کی دھرتی باکمال ہے ، اور اس کے محافظ بے مثال ہیں مگر اس فون کال کے کٹنے کے بعد سے اب تک میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر ڈاکٹر نعمان نے اپنے شہید دوست کا نمبر ڈائل کیا ہو گا تو کیا آگے سے کوئی جواب آیا ہو گا ؟ اور اگر نہیں تو شہید فون کیوں نہیں اٹھاتے؟ شائد میرا سوال بہت لوگ نہ سمجھ پائیں مگر جن گیارہ گھروں کے چراغ وطن کی آزادی کو قائم رکھنے میں بجھے کیا وہاں بھی کسی نے یہ سوال خود سے پوچھا ہو گا ؟ ایک پرانی نظم ان عظیم بیٹوں کے نام جو فون تو نہیں اٹھاتے مگر سب سن رہے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہیں .

اللہ ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کی قربانی کو قبول کرے (آمین). یہ نظم میں نے ایک شہید کی بیوہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے لکھی تھی جو اکثر راتوں کو اٹھ کر دروازے کے پاس جاتی تھی کیونکہ اسے لگتا تھا کہ اس کا سائیں لوٹ آیا ہے ۔
کہاں ہو تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
نہیں نظر میں تمہارا چہرہ
بادلوں میں تم چھپ گئے ہو
کہاں ہو تم عزیز من
کہاں کیا ہے تم نے بسیرا
رتجگوں کے عذاب سارے
زندگی کے یہ پر خار رستے
کیسے کٹیں گے یہ سخت موسم
کیسے دل کو قرار ملے گا
کہاں ہو تم میرے دلربا
کہاں ہو تم میرے جان من
کہیں سے گزرے جو کوئی قاصد
تمھارے خط کا میں پوچھتی ہوں
کبھی جو کوئی فون آئے
تمہارا مجھ کو خیال آئے
عساکر وں کی زندگی میں
دوریاں تو لکھی ہوئی ہیں
مگر تمھارے لوٹنے کا
کوئی امکاں نظر نہ آئے
کہاں ہو تم میرے سر کے سائیں
ڈھونڈتی ہیں تمہیں نگاہیں
میں اپنے دل کو دلاسہ دے کر
ہر ایک شب اک دیا جلا کر
تمھارے آنے کی جستجو کو
زندہ کرتی ہوں آنسووں سے
کہاں ہو تم اے میرے سپاہی
کہاں کیا ہے تم نے بسیرا …

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :