کالاباغ اور نکی جئی ہاں

منگل 11 اگست 2015

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

گزشتہ سال کی طرح رواں سال بھی سینکڑوں افراد سیلاب میں ڈوب کر مر گئے۔ فصلوں اور گھروں کی تباہی کی مد میں نقصانات کا کوئی شمار نہیں۔ سیلاب میں سیاسی ”لوگ“ فوٹو سیشن کرائے جاتے ہیں۔ میڈیا میں بلے بلے ہوتی ہے۔ سندھ کے وزیر نثار کھوڑو کی سن لی جیئے کہتے ہیں سیلاب سے زمین زرخیز ہوتی ہے۔ ان سے کوئی پوچھے کس قیمت پر؟ انسانی جانوں کا نذرانہ دے کر اور ا ملاک کی تباہی کرا کے زمین زرخیز کرانا کہاں کی عقل مندی ہے۔

میں تو حیران ہوں، ہم اللہ منصوبہ بندی کر نہیں سکتے تو کم از کم ”کم“ ہلاکتوں یا زیادہ ہلاکتوں کے چکر میں نہ پڑیں۔یہ تو اچھے طالبان اور برے طالبان والی بات ہو گئی۔وزیر اعلیٰ سند ھ تو شاید یہ بھی کہہ دیں کہ ” سیلاب تو سیلاب ہوتا ہے، آتا جاتا رہتاہے“ وزیراعظم نواز شریف نے سیلاب متاثرین کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سیلاب کی تباہیوں سے عوام کو بچانے کیلئے مزید ڈیموں کی ضرورت پر زور دیا۔

(جاری ہے)

مگر وہ بھی یہاں آکر پھسل گئے ہیں کہتے ہیں سال ملک میں سیلاب 2010ء کے سیلاب سے کم ہیں، اللہ کا شکر ہے نقصانات بھی کم ہوئے ہیں۔قارئین کرام،کالاباغ ڈیم یا کالاباغ بند حکومت پاکستان کا پانی کو ذخیرہ کر کے بجلی کی پیداوار و زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک بڑا منصوبہ تھا جو تاحال متنازعہ ہونے کی وجہ سے قابل عمل نہیں ہو سکا۔ اس منصوبہ کے لیے منتخب کیا گیا مقام کالا باغ تھا جو کہ ضلع میانوالی میں واقع ہے۔

ضلع میانوالی پہلے صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ تھا جسے ایک تنازعہ کے بعد پنجاب میں شامل کر دیا گیا۔کالاباغ بند کا منصوبہ اس کی تیاری کے مراحل سے ہی متنازعہ رہا ہے۔ دسمبر 2005ء میں اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اعلان کیا کہ، “وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کالاباغ بند تعمیر کر کے رہیں گے“۔ جبکہ 26 مئی 2008ء کو وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے ایک اخباری بیان میں کہا، “کالاباغ بند کبھی تعمیر نہ کیا جائے گا“صوبہ خیبر پختونخوا، سندھ اور دوسرے متعلقہ فریقین کی مخالفت کی وجہ سے یہ منصوبہ قابل عمل نہیں رہا۔

“پاکستان کے بہتر تشخص کے لئے کام کرنے والی عالمی شہرت یافتہ تنظیم شکریہ پاکستان فاوٴنڈیشن کے سینئر قانونی مشیر و معروف قانونی دان محمد شہزاد اعجاز جو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے کی گئی تحقیق میں عالمی شہرت رکھتے ہیں نے کے مطابق شدید بارشوں اور بھارت کی طرف سے چھوڑے جانے والے پانی کا 30 فیصد پانی کالا باغ ڈیم سمیٹ سکتا ہے۔

بھارت ہر سال مبینہ طور6 ارب روپے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کے لئے مختص کرتا ہے۔ فوج اور حکومت ان ثبوتوں کو آئینے کے طور پر ’‘ مخالفین“ کے سامنے رکھے۔ اگر وہ باز نہ آئیں تو میڈیا میں ثبوت جاری کر کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جائے۔ اس کے بعد کالا باغ ڈیم کی مخالفت باقی نہیں رہے گی۔پاکستان میں 1950ء میں پہلا بڑا سیلاب آیا۔ یہ وہ موقع تھا کہ نوزائیدہ مملکت خداداد اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں تھی۔

انتظامیہ اور سیاسی حکمرانوں کیلئے یہ پہلا تباہ کن تجربہ تھا۔ اس سیلاب میں 22 سو افراد لقمہ اجل بنے۔ اس کے بعد بھی سیلاب آتے رہے۔ ان میں مجموعی طور پر 10 ہزار سے زائد انسان بمعہ ربوں روپے کے مال و اسباب اور گھروں کے صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ 2010ء میں 1950ء کے مقابلے میں زیادہ شدت کا سیلاب آیا اس کی تباہ کاریاں بھی زیادہ تھیں۔ اس میں اڑھائی ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔

وزیر اعظم نواز شریف نے اللہ کا شکر ادا کیا ہے؟ حیرت ہے!1950ء سے لے کر اب تک آمریت اور جمہوریت کے ادوار آتے رہے۔ ان میں قدر مشترک سیلاب کی روک تھام کی عدم منصوبہ بندی ہے۔ ایوب کے دور میں تربیلا اور منگلا ڈیم ضرور بنے۔ ان کی تعمیر کا مقصد بجلی کی پیداوار تھی۔ ان کی تعمیر کے پس منظر میں سیلاب روکنے کی سوچ موجودہ نہیں تھی تاہم جو پانی سیلاب کا سبب بن سکتا تھا وہ ان ڈیموں میں سما جاتا۔

سندھ طاس معاہدہ بھی ایوب دور میں ہوا۔ جس کو بھارت پانی کی بہتات کی صورت میں پاکستان میں سیلاب اور کمی کی صورت میں قحط سالی برپا کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ 21 ویں صدی کی ڈیڑھ دہائی گزرنے کے بعد بھی وہیں کھڑے سینکڑوں اور ہزاروں کی تعدا میں لاشیں اور نقصان اٹھا رہے ہیں۔ بھارت نے کشمیر میں 33 دریا باہم مربوط کر دیئے ہم پانچ دریاؤں کو سیلابی نہروں کے ذریعے ایک دوسرے سے نہیں ملا سکے۔ دریاؤں کو چھوٹی نہروں کے ذریعے لنک کیا گیا ہے، سیلابی نہر ایک بھی نہیں ہے۔ حکومت سیلابی نہریں بنا کر اپنے عوام اور املاک کو ہمیشہ کے لئے سیلاب سے نجات دلا سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :