یوم آزادی کے تقاضے

اتوار 16 اگست 2015

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

اہل پاکستان نے اپنا 69واں جشن یوم آزادی شایان شان طریقے سے منایا۔یہ دن اس لحاظ سے بھی انفرادیت کا حامل ہے ۔ اس دن رمضان المبارک کی 27ویں تاریخ تھی۔ 14اگست 27رمضان المبارک کو وجود میں آنے والی عظیم اسلامی مملکت پرالله تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے۔اس نے اپنے بندوں کی قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے بابرکت ایام میں ایسے خطہ ارض سے نوازا۔

پاکستان کا وجود دنیا کے نقشے پر اسلامی جمہوریہ کے نام سے نمودار ہوا مگر یہ بات اپنی جگہ محل نظر ہے کہ ریاست کو وجود ملا تو اس کے تخلیقی تصور کو عملی تعبیر نہ مل سکی۔اس بات میں شک نہیں کہ وطن عزیز کے حصول کے لئے مسلمانان ہند نے لاکھوں قربانیاں دیں ۔ اپنی آنکھوں سے مال مویشی،فصلیں اجڑتی دیکھیں، گھرلٹتے دیکھے،عزیز رشتوں کا خون بہتے دیکھا، ماؤں کی گودیں ویران ہوتے دیکھیں، سہاگنوں کے سہاگ تلوار کی دھار سے کٹتے دیکھے ، جوان دو شیزاؤں کے آبگینے ٹوٹتے دیکھے۔

(جاری ہے)

بے شمار جانوں اور عزتوں کی قربانیاں دے کر یہ ملک حاصل کیا گیا اور اس کے حصول کا مقصد وجیہ یہی تھا کہ ایسا آزاد ملک ہو جس میں سامراج کا جبر نہ ہو، ہندو کی ریشہ دوانیاں نہ ہوں اور سکھ کی قتل گری نہ ہو،بلکہ آزادی کے ساتھ اسلام کے نفاذ کے ذریعے امن سلامتی کا گہوارابنایاجاسکے جس میں قانون کی گرفت سب کے لئے یکساں ہو،انصاف ہر ایک کو آسانی سے میسر ہو،وسائل ہر با صلاحیت کی دسترس میں ہوں اور کہیں بھی طبقاتی استحصال نہ ہو ۔

اس عظیم ترین مقصد کے لئے بانی پاکستان کی قیادت میں قوم یکجان و متحد ہو کر لڑی ، مسلم برادری، وکلا، طلبہ، خواتین، تاجر، مزدوراور کسان حتیٰ کہ علماء بھی مسلم لیگی قیادت کے شانہ بشانہ میدان میں نکلے ۔ انہوں نے منبر ومحراب کی پرآسائش اور پر وقار زندگی چھوڑی اور کٹھن جدوجہد کی زندگی کو اختیار کیا ۔ سب قربانیاں آزادی کے لئے دی گئیں۔الله نے انسان کو جو نعمتیں دی ہیں ۔

ان میں ایک نعمت آزادی بھی ہے۔ رب کائنات نے ہر انسان کو آزاد پیدا فرما کر اسے اچھائی اور برائی کی تمیز عطا فرمائی ۔ ہندو اور مسلم دو الگ الگ قومیں تھیں،دونوں کے جدا جدا نظریات حیات تھے۔ برصغیرپاک و ہند کے مسلمانوں کو اقلیت تصور کیاجا تا تھا ، ان سے اچھوتوں جیسا رویہ اپنایاجاتا تھا، اسی سوچ کو مد نظر رکھ کر مسلمانوں نے اپنے لئے ایک آزاد اور نظریاتی ریاست کا نعرہ لگایا اورپھر پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا الله عملی صورت اختیار کر گیا ۔

پاکستان کے قیام کی اساس بھی یہی نعرہ تھا، جسے دو قومی نظریہ بھی کہاجاتاہے۔ قائد اعظم چاہتے تھے ،،پاکستان ایک ایسی اسلامی فلاحی اور جمہوری ریاست ہو جہاں مسلمان مذہبی، معاشی اور سماجی آزادی کے ساتھ زندگی رواں رکھ سکیں۔اسی لئے حضرت قائد اعظم  فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان کا مطالبہ اس لئے تھا کہ ہم مسلمان تھے اور ایساخطہ زمین چاہتے تھے کہ جہاں ہم مسلم قومیت کی حیثیت سے زندہ رہ سکیں، اپنی زندگیاں اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق ڈھال سکیں۔

الله تعالیٰ نے انہی جذبات کے تحت لاکھوں افراد کی قربانیوں کے صلہ میں پاکستان جیسی نعمت عنایت فرمائی۔ آج پاکستان کو وجودمیں آئے ہوئے 68برس ہو چکے ہیں۔ یہ عرصہ قوموں کی زندگی میں کوئی معمولی اہمیت نہیں رکھا۔ کم از کم تین نسلیں اس میں پرورش پا چکی ہیں مگر افسوس کہ ہم قومی اور ملی سطح پر ابھی تک بہت سی محرومیوں اورمایوسیوں کا شکار ہیں۔

اٹھارہ کروڑ کی آبادی کا موجودہ پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ہے۔ اس کے زرعی اورمعدنی وسائل ایسے ہیں کہ ہمیں خود انحصاری پر مبنی معیشت کو رواج دینا چاہیے مگر ہماری معاشی صورتحال مسلسل قرضوں کے باعث مفلوج ہو چکی ہے۔ مہنگائی کا عفریت منہ کھولے وسیع ترآبادیوں کو نگل رہا ہے۔ناخواندگی اورجہالت کی دلدل سے ہم ابھی تک باہر نہیں نکل سکے۔

جمہوری کلچرل ہماری زندگی کا ناگزیر حصہ ہے مگر وقفے وقفے سے اس پرشب خون مارے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اداروں کی نہیں افراد کی حکومت ہے جو قومی تشکیل اور ملی مقاصد کے لئے کوئی مفید راہ عمل نہیں ہے۔
ہماری انتظامیہ قوم کی خدمت میں ناکام رہی ہے۔ انتظامی اور عدالتی اداروں کے زخم خوردہ لوگ ابھی تک غلامانہ ذہنیت سے نجات حاصل نہیں کر سکے۔

فرقہ وارانہ ہم آہنگی جس کی اس ملک کو سب سے زیادہ ضرورت ہے، ابھی تک مفقود ہے۔نوجوان نسل بے روزگاری کے چنگل میں گرفتار ہے ۔ اسے نجات دلانے کا راستہ ہے ، ہمیں اس کی چنداں فکر دکھائی نہیں دیتی۔
معاشرے کے بعض طبقات میں انتہا پسندی کی علامتیں پائی جاتی ہیں جس میں ہم ایک امت وسط اور اعتدال کے رویوں کو حاصل نہیں کر سکے، اس پر مسلسل توجہ کی ضرورت ہے۔

اس کے خاتمے کے لئے مناسب منصوبہ بندی کیوں نہیں ہے۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی لہررکنے کا نام نہیں لے رہی ۔ اس کے اسباب و وجوہ پرغورکرکے اس کے خاتمے کے لئے قومی سطح پر کاوش کیوں نہیں کی جا سکتی ۔ ہمارا تعلیمی نظام اعلیٰ معیارات سے دور ہے۔جہالت اور خواندگی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔دوسرے تمام مسائل اس کے بطن سے پیدا ہوتے ہیں۔

قومی سطح پر جلد ایسی تعلیمی پالیسی بنانا چاہتے ہیں جس میں کم از کم وقت کی خواندگی کی سطح کو حاصل کیا جا سکے۔ 68سال بعد ہم نے کیا کھویا ،کیا پایا اس پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔
دو قومی نظریے کی اساس کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا۔ اچھائی برائی کے فرق کو واضح کرتے ہوئے عملی طورپر اچھائی کو شعار بنانا ہوگا۔ 14اگست کو تجدید عہد کے طورپر منا کر زندگی کو بدلنے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔

حق اور سچ کے بول بالا کے لئے حکمرانوں کے ساتھ عدلیہ ،پولیس اور عوام کو اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی ورنہ جس تیزی سے ہم اپنی منزل کھو رہے ہیں اس سے بڑا نقصان ہو سکتاہے۔68سال میں ہم قوم نہیں بن سکے، فرقہ وارانہ ،پرتشدد رویے، برادری ازم کا ناسور ہمیں کھا جائے گا۔ دشمنان دین تو پہلے ہی پھن پھیلائے ہمیں تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ذاتی مفادات فرقہ واریت سے نکل کر سبز حلالی پرچم کے سائے تلے زندہ قوم کی حیثیت سے عہد کرنا ہوگا ۔ ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :