یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے

ہفتہ 22 اگست 2015

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

گزشتہ دنوں قندھار کے مرد جری ملامحمد عمر مجاہد کی وفات حسر ت آیات کی خبر عالم اسلام کے ایک بڑے طبقے پر بجلی بن کر گری اور اب سرزمین پاکستان کے ایک اور بہادر وغیرت مند سپوت جنرل (ر) حمیدگل کی اچانک رحلت نے آزادی وحریت کی جدوجہد پر یقین رکھنے والی پاکستانی قوم کو سوگوار کردیا ہے۔ اس طرح سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد اور امریکا کے خلاف طالبان افغانستان کی بے مثال جدوجہد کے دو اہم کردار تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔

مستقبل کا مورخ جب افغانوں کی ناقابل تسخیر مزاحمتی طاقت کا ذکر کرے گا، تو ان دو حضرات کے کردار کو آب زر کے ساتھ تحریر کرنے پر خود کو مجبور پائے گا۔
امیرالموٴمنین ملا محمد عمر کا شمار بلاشبہ اسلامی تاریخ کے چند نمایاں سپہ سالاروں اور دیومالائی کرداروں میں کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

تاریخ میں ہمیشہ یہ ہوتا آیا ہے کہ لوگ اقتدار کی خاطر تمام اصولوں کو پامال کرتے، قومی روایات کو پاوٴں تلے روند تے اور اخلاقی اقدار کو مفادات کی بھینٹ چڑھاتے ہیں، یہاں تک کہ پوری پوری قوم تک کو بھی فروخت کردیتے ہیں لیکن ملامحمد عمر کو تاریخ ان کے اس روشن کردار کے حوالے سے یاد رکھے گی کہ انہوں نے ایک اصول اور ایک قومی روایت کی خاطر اپنا وہ اقتدار قربان کردیا جس کی اس وقت دنیا میں کوئی مثال موجود نہیں تھی۔

ایک ایسا اقتدار کہ جس میں حکمران لوگوں کے جسموں سے زیادہ ان کے دلوں پر حکومت کرتا تھا۔ وہ حکمران جس کے ایک حکم پر افغانستان میں پوست کی کاشت ختم ہوگئی تھی جس کے خاتمے کے لیے عالمی طاقتوں کے کروڑوں ڈالرز بھی ناکافی ثابت ہوئے تھے۔وہ حکمران جس کے دوراقتدار میں چمن سرحد سے لے کر دریائے آمو کے کنارے تک لوگ اپنی جان ومال کے تحفظ کے سلسلے میں بے فکر ہوگئے تھے۔

ملامحمد عمر اگر چاہتے تو کسی تاویل وتوجیہ کا سہارا لے کر اپنے مہمان اسامہ بن لادن کو عالمی طاقتوں کے حوالے کردیتے اور اپنا اقتدار مستحکم بنالیتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے ظلم وجبر کے سامنے جھکنے سے انکار کرکے یہ پیغام دے دیا کہ #
مفاہمت نہ لکھا جبر ناروا سے مجھے
میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
ان کے اس فیصلے پر اس وقت بھی بہت سے اہل دانش وبینش نے سوال اٹھائے اور اب ان کی وفات کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد بھی یہ سوال زیربحث ہے۔

بہت سے دانشوروں کا خیال ہے کہ ملاعمر اگر وقت کی مصلحتوں کو سامنے رکھ کر امریکا اور عالمی طاقتوں سے کوئی سمجھوتا کرلیتے اور ایک فرد واحد کے لیے پورے ملک کو خطرے میں ڈالنے سے گریز کرتے تو شاید یہ ان کے اور افغانوں کے حق میں بہتر ہوتا۔ یہ سوال اور بحث نظری اعتبار سے بالکل درست ہے لیکن تاریخ کی اس ستم ظریفی کا کیا کیا جائے کہ یہ ہمیشہ طاغوت سے ٹکرانے اور سرفروشی وجاں سپاری کا راستہ اختیار کرنے والوں کو یاد رکھتی ہے اور وقت کی نزاکتوں، مصلحتوں اور حالات کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنے والوں کو فراموش کردیتی ہے۔

برصغیر میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی تاریخ میں نظام حیدرآباد نے بالکل وقت کے تقاضوں اور حالات کی مجبوریوں کے مطابق انگریزوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے کے نتیجے میں انگریزوں سے اپنے اقتدار کے تحفظ سمیت بہت سی مراعات بھی حاصل کی تھیں جبکہ میسور کے سلطان فتح علی ٹیپو نے انگریزوں سے ٹکرانے اور ان کے جبری تسلط کو قبول نہ کرنے کا پرخطر راستہ اختیار کیا اور اپنوں کی غداری کے باعث اپنی جان اور سلطنت دونوں سے محروم بھی ہوگئے مگر آج تین سو سال گزر جانے کے باوجود ان کا نام بچے بچے کو معلوم اور تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے جبکہ نظام حیدرآباد کا نام وقت کے اندھیروں میں گم ہوچکا ہے۔

تقریباً یہی مثال ملامحمد عمر اور جنرل پرویزمشرف کی بنتی ہے۔ ملامحمد عمر اپنی بے مثال قربانی، عزیمت اور جدوجہد کے ذریعے تاریخ میں امر ہوگئے ہیں جبکہ خود کو طاقتور ترین حکمران سمجھنے والے جنرل پرویزمشرف آج کل
پھرتے ہیں میرخوار کوئی پوچھتا ہی نہیں
کے مصداق نمونہٴ عبرت بنے ہوئے ہیں۔ملامحمد عمر کو دنیا کے چالیس ممالک کی جدیدترین عسکری ٹیکنالوجی سے لیس افواج کو اپنے چند ہزار سرفروش مجاہدین کی مدد سے شکست دینے کا اعزاز حاصل ہوا اور یہ ایسا محیرالعقول کارنامہ ہے کہ ظاہری اسباب پر نظر رکھنے والی نگاہیں اس کی حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتیں۔

ملامحمد عمر نے اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد قندھار چھوڑتے وقت بی بی سی کو پہلا اور آخری انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مقابلے کے لیے ایسی حکمت عملی تشکیل دی ہے کہ دنیا ایک دن دیکھ لے گی کہ ان کو کیسے شکست ہوتی ہے۔ ملامحمد عمر نے 12 برس تک تاریخ کی منفرد گوریلا وار کی روحانی طور پر قیادت کی۔

اس دوران تیزترین سراغرسانی کا دنیا کا جدیدترین سٹیلائٹ نظام ان کی تلاش میں رہا اور ہر طرف ڈھنڈیامچی رہی کہ #
کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے
عشق بلا خیز کا قافلہٴ سخت جاں
مگر اسے نصرت خداوندی کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کے کیمرے کی آنکھ سے محفوظ رہے۔ انہوں نے تاریخ کا قرض ادا کردیا اور ایک اور سپرپاور کا غرور خاک میں ملاکر افغانوں کے اعزاز کا کامیابی سے دفاع کرکے خود کو ہمیشہ کے لیے سرخرو کردیا۔


جنرل حمیدگل ویسے تو پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ رہے اور اس حیثیت سے سوویت یونین کے خلاف جہاد میں انہوں نے جو بھی کردار ادا کیا، اس کے بارے میں کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ وہ اس وقت کی ریاستی پالیسی کے تابع تھا اور انہوں نے محض اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں پوری کیں۔ مگر جنرل صاحب کو قریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ کیا، ایک نظریے اور جذبے کے تحت کیا۔

وہ اس ریاستی پالیسی کے معماروں میں سے تھے جس کے تحت سوویت ریچھ کو گوادر کے گرم پانیوں تک پہنچنے کے مکروہ عزائم سے روکنے کے لیے پاکستانی قوم نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آئی ایس آئی کی سربراہی سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی خود کو اسلام اور پاکستان کا ایک سپاہی سمجھتے تھے۔ جامعة الرشید کے سالانہ کانوکیشن میں برادرم مولانا سید عدنان کاکاخیل نے انہوں دعوت خطاب دیتے ہوئے ان کے نام کے ساتھ ” جنرل ریٹائرڈ“ کا سابقہ لگایا تو انہوں نے کہا کہ میں ریٹائرڈ نہیں ہوں اور اسلام اور پاکستان کے لیے اب بھی ایک جرنیل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہا ہوں اور یہ حقیقت ہے کہ خاص طور پر میڈیا کے محاذ پر جہاد، طالبان اور پاکستان کے اسلامی تشخص کا جس طرح کا دفاع جنرل صاحب کیا کرتے تھے،وہ ایک بہادر اسلامی جرنیل کا ہی خاصہ ہوسکتا ہے۔

ہمارے ہاں کچھ حلقے سوویت یونین کے خلاف اس خطے کے مسلمانوں کی مزاحمت کو ایک غلطی قرار دیتے ہیں اور اس میں پاکستان اور عالم کے دیگر حصوں کے مسلمانوں اور مجاہدین کی شمولیت کو حماقت سے تعبیر کرتے ہیں۔ آج 2015ء میں میڈیا چینلوں پر بیٹھ کر اس طرح کی موشگافیاں کرنا اور اپنی عقل و قیاس کے گھوڑے دوڑانا آسان ہے لیکن اگر کوئی شخص 1980ء کے عشرے کے عالمی وعلاقائی حالات اور خطے کی اس وقت کی معروضی صورت حال کو سامنے رکھ کر بات کرے گا تو اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکے گا کہ پاکستان کے پاس اس وقت سوویت یونین کے خلاف افغانوں کی مزاحمتی جدوجہد کا ساتھ دینے کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔

جنرل صاحب سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد اور امریکا کے خلاف افغان طالبان کے جہاد دونوں کا زبردست دفاع کیا کرتے تھے اور میڈیا میں ان کی گفتگو سے دل خوش ہوتا تھا۔ مرحوم ہم سے بھی بہت محبت کرتے اور ہمیشہ نیک خواہشات کا اظہار کرتے۔ ہم نے جب بھی رابطہ کیا، انتہائی خندہ پیشانی اور محبت سے بات کی۔ ان سے مل کر اور انہیں سن کر اقبال کا یہ شعر یاد آجاتا تھا کہ #
ہو حلقہ یاراں میں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :