مدارس کے پر امن ناظمین کا مشترکہ اعلامیہ

جمعہ 28 اگست 2015

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

صوبائی وزیر داخلہ پر اٹک میں ہونے والے دہشت گردانہ خودکش حملے کے بعد اسلام آباد کے مدرسے سے کالعدم مذہبی تنظیم سے وابستہ افراد کو گرفتار کرنے کے بعد پنجاب بھر میں دینی مدارس کی چیکنگ کا سلسلہ جاری ہے جس سے سیکورٹی اداروں کو انتہائی کامیابیاں بھی ملی ہیں۔تاہم جدید علوم کے ساتھ پاکستان میں قیام امن اور اسلام کی اصل روح کی تبلیغ کرنے والے دینی مدارس کے منتظمین نے دینی مدارس میں سرچ آپریشن کی مکمل حمایت کا اعلان بھی کیا ہے۔

پنجاب بھر کے دینی مدارس میں چھا پہ مار کارروائیوں سے متعلقہ مدارس اہل سنت پاکستان کادینی مدارس کے خلاف آپریشن کیلئے حکمت عملی سیمینار سے خطاب اور مدارس دینیہ میں دہشت گردوں کی تلاش کے سلسلے میں جاری سرچ آپریشن کے حوالے سے مدارس اہلسنت کے مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے معروف مذہبی سکالر ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کہا کہ پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانے اور آخری دہشت گرد کے خاتمہ تک حکومت کی تمام پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں تاہم سرچ آپریشن یا چھاپہ مار کارروائیوں میں مسجد کے تقدس کا خیال رکھا جائے۔

(جاری ہے)

بچیوں کے مدارس اور خواتین کے مدارس کے لئے خواتین سیکورٹی آفیسر کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔کارروائی کے وقت میڈیا اور رینجر کے ساتھ ہونے سے دہشت گردوں کو مبینہ طور پر پناہ دینے والے حلقوں کی آنکھیں کھل جائیں گی”حکومتی آپریشن پرحکمت عملی سیمینار“ کے اعلامیہ کے موقع پر پنجاب بھرسے مدارس کے250 سے زائد ناظمین،علماء ومشائخ اور سنی جماعتوں کی نمائندہ شخصیات موجود تھیں۔

جامعہ نعیمیہ کے ترجمان حافظ محمد سلیم نعیمی کا موقف بھی بہت واضح ہے۔ان کے مطابق دہشت گرد ملک و قوم کے دشمن اور ان کا کوئی مذہب نہیں، مدارس اہلسنت ہر طرح کی تخریب کاری،صوبائیت پرستی کو ہوا دینے والے عناصر کے خلاف ہے اور پاکستان میں قیام امن تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔گزشتہ روز ہونے والے سیمینار میں جامعہ نظامیہ ر ضویہ،جامعہ رسولیہ شیرازیہ،جامعہ ہجوریہ،جامعہ غوثیہ رضویہ،جامعہ ام اشرف جمال،جامعہ محمدیہ غوثیہ،جامعہ فخرالعلوم،جامعہ فاروقیہ،جامعہ سراجیہ نعیمیہ،جامعہ رضویہ فیصل آباد،جامعہ برکات العلوم،جامعہ شہبابیہ،سنی اتحاد کونسل،پاکستان سنی تحریک،جامعہ اہل سنت،مجلس علماء نظامیہ،مرکزی جمعیت علماء پاکستان،نعیمین ایسوسی ایشن پاکستان،بزم رضا،جے یوپی،نعیمین علماء مشائخ کونسل،تنظیم اتحاد امت سمیت سینگڑوں مدارس اہل سنت کے ناظمین وناظمات،معلمین ومعلمات سیمینار نے اپنی اپنی رائے گا اظہار کیا۔

جامعہ نعیمیہ کے ذیلی ادارے ڈاکٹر سرفراز نعیمی انسٹی ٹیوٹ آف پیس ایجوکیشن اینڈ ریسرچ میں منعقدہ ”مدارس اہلسنت وجماعت سیمینار “کے موقع پر سیمینارشہید صوبائی وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ کی روح کے ایصال ثواب کے لئے خصوصی دعا کا اہتمام کیا گیا جس میں شہید کے درجات کی بلندی کیلئے لاہور سمیت250 سے زائد علما و مشائخ اہلسنت و جماعت نے شرکت کی۔

جبکہ دہشت گردی کے خلاف فوجی عدالتوں کے قیام اور ان کے فیصلوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاک فوج کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام اہلسنت پاک فوج کے ساتھ ہیں۔ایک خبر کے مطابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے شجاع خانزادہ شہید پر حملے کی رپورٹ اور ناقص سکیورٹی انتظامات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب میں ایکشن پلان پر عملدرآمد نظر آنا چاہیے، میں یہ نہیں سننا چاہتا کہ تین ملزم یہاں سے پکڑ لیے دو وہاں سے پکڑ لئے جلد واقعہ میں ملوث مرکزی ملزمان کو گرفتار کیا جائے۔

سانحہ پشاور کے بعد سیاسی و عسکری قیادت نے پہلی مرتبہ سر جوڑ کر قومی ایکشن پلان ترتیب دیا تھا جس کے تحت تمام شدت پسند تنظیموں ان کے رابطہ کاروں اور سہولت کاروں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ابھی تک اچھے اور برے طالبان کی طرح اچھے اور برے شدت پسندوں میں الجھے ہوئے ہیں جس کے باعث بڑے متحارب گروپ نے اپنے کارندوں کو انڈر گراوٴنڈ کر دیا ہے۔

ایکشن پلان سست روی کا شکار ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ تاہم شجاع خانزادہ پر ہونے والے حملے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے اس حملے سے بظاہر یوں لگتا ہے کہ شدت پسندوں کا نیٹ ورک بدستور فعال ہے اور وہ کہیں بھی حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وزیر داخلہ سکیورٹی ہونے کے باوجود دہشت گردوں کا نشانہ بن سکتا ہے تو عام عوام کتنے محفوظ ہوں گے؟ حکومت اچھے اور برے شدت پسند کی تفریق سے باہر نکلے اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن کو تیز کرے۔

کسی ہمسائے ملک کے دباوٴ پر کسی بھی مذہبی تنظیم کے خلاف آپریشن سے گریز کرنا اپنے آپ کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ پنجاب میں آ کر بسنے والے دیگر صوبوں کے افراد پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ان کے پاس آنے والے ان کے رشتہ داروں کا ڈیٹا متعلقہ تھانے میں جمع کروانے کا قانون لایا جائے۔ وزراء کے ساتھ ساتھ ایکشن پلان میں شامل سرکردہ رہنماوٴں کی سکیورٹی بہتر کی جائے اور افغانیوں کو صرف پشاور کیمپوں تک محدود کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :