الیکشن ٹریبونل کے فیصلے اور سیاسی گرم گرمی۔۔۔۔۔۔۔

اتوار 30 اگست 2015

Hafiz Muzzammel Rehman

حافظ مزمل رحمان

انتخابی ٹریبیونلز کے فیصلے آنے کے بعد ملک میں ایک بار پھر سے سیاسی گر ما گر می میں تیزی آگئی ہے۔ حالیہ ٹریبیونلز کے فیصلے تحریک انصاف کے حق میں آ رہے ہیں جس سے ایک بار پھر عمران خان جارحانہ موڈ میں نظر آ رہے ہیں ۔ ان فیصلوں سے تحریک انصاف کے مورال میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے ۔مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے ارکان ایک دوسرے کے خلاف بیا ن بازی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی تگ و دو میں ہیں۔

الیکشن ٹریبیونل کے ان فیصلوں پر قانونی رائے تو ما ہر قانون ہی دیں گے لیکن ایک عام آدمی کی حیثیت سے ایک سوال جو ہمیشہ ہمارے اذہان میں کشمکش پیدا کرتا ہے وہ یہکہ اتنے لمبے عرصے تک یہ کیس کیوں چلتے ہیں ؟ کیا انصاف کرنا اس معاشرے میں اتنا ہی مشکل ہو گیا ہے ؟ اور یہ بھی کہ اس طرح کے کیسز کے آخر میں عدالتیں فیصلہ محفوظ کیوں کر لیتی ہیں ؟؟ یہ بھی کہ جب الیکشن ٹریبیونل اپنے فیصلے میں یہ لکھتا ہے کہ کتنے ووٹوں کی تصدیق نہیں ہو سکی یا کاؤنٹر فائلوں میں کوئی مسئلہ تھا ، مہر نہیں لگی تھی ۔

(جاری ہے)

ووٹرز کے شناختی کارڈ کے نمبر غلط تھے یا کوئی اور بے ضابطگی تھی تو اس میں یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ یہ غلطیا ں کس نوعیت کی تھیں ۔ شناختی کارڈ کے جو نمبر غلط تھے کیا وہ ووٹر تھا یا نہیں ؟ اور اگر وہ ووٹر تو اسی علاقے کا تھا مگر شناختی کارد غلط لکھا گیا تھا تو اس سے اُس ووٹر کی رائے پر کیا فرق پڑتا ہے ؟ اُس کی رائے کو تسلیم کیا جائے گا یا رد کر دیا جائے گا؟
مثال کے طور پر اگر ّ NA-122 میں 23 ہزار ووٹوں کی تصدیق نہیں ہو سکی تو کیا سارے ووٹ سردار ایا ز صادق کو ڈالے گئے یا پھر عمران خان سمیت سب اُمیدواروں کے تھیلوں میں سے نکلے؟ اگر یہ سارے ووٹ کسی ایک اُمید وار کے تھیلے میں سے نکلے ہیں تو پھر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اُس اُمیدوار نے دھاندلی کی ہے۔

لیکن اگر اس طرح کی بے قائدگی کا تعلق مختلف اُمیدواروں سے ہے تو انتخابی عملہ اس کا قصوروار ہے اور جب اانتخابی عملہ قصوروار ہے تو اس کی سزا کسی ایک اُمید وار کو دینا یقینا انصاف کے تقاضوں کے منا فی ہے اور حالیہ NA-122کے فیصلے میں ایک اہم اور دلچسپ نُقطہ یہ بھی ہے کہ ایاز صادق کو 20 لاکھ روپے بطور حرجانہ عمران خان کو دینے کی سزا بھی سُنائی گئی ہے ۔

اس حوالے سے ایک عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر دھاندلی یا انتخابی بے ضابطگی کا ذمہ دار سردار ایاز صادق ہے تو پھر محض جرمانے کی سزا کیوں دی گئی ؟؟ کیا کوئی بھی شخص دھاندلی کر کے عوام کی رائے کا قتل کر کے محض جرمانہ دے کر اپنی جان چھڑا لے گا؟؟کیا یہ عوام کی رائے کو کسی قیمت کے عوض تبدیل کرنے کے مترادف نہیں ؟ اور اگر ان بے ضابطگیوں کا تعلق جیتنے والے اُمیدوار سے نہیں ہے تو پھر یہ سزا کیوں دی گئی؟؟ جب ٹریبیونل کے فیصلے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ انتخاب کے دوران الیکشن کیمشن کے عملے کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے الیکشن مشینری فیل ہو گئی اور ان بے ضابطگیوں کا ذمہ دار الیکشن کیمشن کا عملہ ہے تو پھر اس کی سزا کسی ایک اُمیدوار کو کیوں دی جا رہی ہے؟ ؟ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اگر ایک کرکٹ میچ میں انتظامیہ کے نا قص انتظاما ت کی وجہ سے کوئی تماشائی کوئی بدمزگی پیدا کر دے یا پھر کسی کھلاڑی پر پتھراوئں کر دے تو اس کے نتیجے میں جیتنے والی ٹیم پر پابندی لگا دی جائے جو کہ سراسر زیادتی ہو گی۔

الیکشن ٹریبیونل کے تحریری فیصلے کے ابتدائی صفحات کو پڑھ کر میرے ذہن میں یہ کھلبھلی مچ گئی کہ فیصلے کو لکھنے میں فاضل جج صاحب نے اتنی تمہید کیوں باندھی جس کا تعلق اُن کی اپنی ذات سے ہے ۔ مثال کے طور پر جج صاحب لکھتے ہیں کہ " کیا میری تخلیق کا مقصد محض میرے پیٹ کے بارے میں سوچنا ہے؟" اور " کیا میں کسی جا نور کی طرح ہوں جو صرف اپنے چارے کے بار ے میں سوچے؟"اور بھی سوالات لکھے گئے ہیں جن کو پڑھ کر فیصلہ پڑنے والے کے ذہن میں مختلف سوالات جنم لیتے ہیں۔

مسلم لیگ ن نے اب ضمنی الیکشن میں مقابلہ کرنے کافیصلہ کیا ہے ۔ دوبارہ الیکشن میں جانے کا فیصلہ خوش آئند ہے یہ اس لئے بھی بہتر ہو گا تاکہ سچ سب کے سامنے آجائے۔ مجھے عمران خان کی نیت پر ذرا برابر بھی شک نہیں ہے کہ وہ انتخابی عمل کو بہتر بنا نا چاہتے ہیں مگر اس طرح کا ایک کمیشن تحریک انصاف نے خود بھی تشکیل دیا تھا جس میں تحریک انصاف کے ہی معزز اراکین کو ذمہ داریاں سونپی گئیں کہ وہ تحریک انصاف کے پارٹی الیکشن کی جانچ پڑتال کریں ۔

اب اُس کمیشن کی رپورٹ بھی سامنے آچکی ہے ۔ جسٹس وجیہ الدین اس رپورٹ کو میڈیا میں بھی پیش کر چکے ہیں کہ علیم خان ، جہانگیر ترین اور پرویز خٹک وغیرہ نے دھاندلی کی ان کو فی الفور تحریک انصاف سے فارغ کیا جائے ۔ اب عمرا ن خان کو چاہیے کہ اس اچھے کام کی ابتدا اپنے گھر سے کریں اور جسٹس وجیہ الدین رپورٹ پر عمل درآمد کر کے سیاسی عمل میں ایک لازوال مثال قائم کریں۔

اور آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ اگر فیصلہ حق میںآ جائے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ حق اور سچ کا بول بالا ہوا ہے اور پٹواریوں کا منہ کالا ہوا ہے۔اور اگر فیصلہ خلاف آجائے تو اوے فلاں !ہم تم کو چوک میں لٹکا دیں گے ، تم کتنے میں بکے وغیرہ وغیرہ۔ میری خواہش ہے کہ حالات کچھ بھی ہوں اس سے جمہوری عمل مضبوط ہو اور پاکستان سیاسی استحکام حاصل کرے اسی میں ہم سب کا فائدہ ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :