انسانیت اور مذہب

پیر 14 ستمبر 2015

Muhammad Wajid Tahir

محمد واجد طاہر

کیا انسانیت کا وجود مذہب کے بغیر ممکن ہے۔ کیا مذہب ہی وہ اکائی ہے جو اسکے پیروں کاروں کو انسانیت کے بنیادی اجزاء سے آشنا کرواتا ہے اور ایک ہی مذہب کے پیروکاروں کو محبت ایثار بردباری اور صلہ رحمی جیسے مقدس رشتوں میں جوڑے رکھتا ہے۔ اگر یہ مفروضہ سچ ہے تو اکثرایک ہی مذہب کے پیروں کار ایک دوسرے کی تکلیفات کو سمجھ کیوں نہیں پاتے ۔

وہ لاچار اور بے بس لوگوں کی مدد کیوں نہیں کرتے جو مشکل کے وقت میں اپنے ہم مذہب سے توقعات وابستہ کیے رکھتے ہیں جو انکے لیے آسانیاں پیدا کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں جو آج یورپ میں رہنے والا ہر وہ ذی شعور شخص خود سے کر رہا ہے جب وہ شام سے آنے والے پناہ گزینوں کو روز دیکھتا ہے ۔ روتی ہوئی مائیں جنہوں نے ہجرت کے دوران اپنے بچے کھو دیئے ۔

(جاری ہے)

وہ شریک حیات جنکا سفر تو اکھٹے شروع ہوا مگر ایک کو راستے نے نگل لیا۔شرمندہ اور لاچار بھائی جنکی بہنیں انکے ساتھ ہجرت میں شریک تو ہوئیں مگر اب شریک منزل نہیں تھیں اور وہ معصوم نونہال جو اپنے ماں باپ کو کھوکر یہاں پہچے تھے۔ آج یورپ میں ان سب کی موجودگی ہمارے شعور کو جنجور رہی ہے کہ کیوں مسلمان ہمسائیہ ممالک کے دروازے اپنے بھائیوں کے لیے بند ہو گئے جسکی وجہ سے انکو اتنے مصائب کا سامنا کرتے ہوئے یہاں آنا پڑا۔

وہ مساوات قربانی ایثار اخوت جنکا سبق ہم نے اپنی نصاب کی کتابوں میں پڑھا تھا کہاں گم ہو گئی۔ یہ سبق ہمیں اچھے انسانوں کی خوبیاں گنواتے تھے اور چونکہ ہم پیدائشی مسلمان تھے اس لیے ہم کو یہ بھی سکھایا گیا تھا کہ تمہارے اندر یہ خوبیاں باقی مذاہب کے لوگوں کی نسبت بہت ذیادہ ہونی چاہیں تاکہ غیر مسلم تم پر رشک کر سکیں۔مگر کتابی باتیں عملی زندگی میں شاید ہی ڈھونڈنے سے ہی ملتی ہیں۔


جرمنی میں شام کے پناہ گزینوں کو حکومت اور عوام کی طرف سے کھلے دل سے خوش آمدید کہا جا رہا ہے۔ شام کے مہاجرین جوق در جوق مشرقی یورپ سے یہاں امڈتے چلے آ رہے ہیں۔لیکن آفرین ہے یہاں کی عوام کے جذبہ ایثار کی اور انکے پیار کی جو انہوں نے ان مسلمانوں پر اب تک نچھاور کیا ہے۔ لوگ اپنے گھروں سے کھانے پینے کی اشیاء کپڑے برتن جوتے لحاف کمبل بچوں کے کھلونے اور ہر وہ چیز جو مہاجرین کو اپنایت کا احساس فراہم کرے اٹھا کر سڑکوں پراور ریلوے اسٹیشن پر کھڑے ہوتے ہیں اور آنے والے مہاجرین کو اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے وہ برسوں سے انہی کے انتظار میں کھڑے ہوں۔

حکومت کی طرف سے مہاجرین کی آبادکاری کا پلان تیزی سے بنایا جا رہا ہے۔ وقتی طور پر مختلف گراونڈز میں خیمے لگا کر ان کو ہر ممکنا سہولیات مہیا کی جارہی ہیں جو کہ ایک گھر کی لیے ضروری ہوتیں ہیں۔ ہر فرد کو مناسب جیب خرچ دیا جا رہا ہے ۔ صحت کی مد میں ڈاکٹرز دوائیاں اورایمبولینس سب انکی آسان پہچ میں ہیں۔ اب حکومت بچوں کی عارضی تعلیم اور نوجوانوں کی پروڈکٹو مصروفیت کے بارے میں بھی سوچ رہی ہے۔


دوسری طرف ہمارے وہ اسلامی ممالک جنکو مسلم امہ کے لیڈر کا کردار ادا کرنا چاہیے انہوں نے اپنے ملکوں کے دروازے ان مہاجرین کے لیے بند کر رکھے ہیں۔ اگر ہم صرف سعودی عرب کا کردار دیکھیں تو شرم سے آنکھیں جھک جاتی ہیں کہ وہ ملک جو ہر سال حج کے عزیم شان موقع پر لاکھوں حجاج کو رہائیش فراہم کر سکتا ہے تو یہ چند لاکھ مہاجرین کو سایہ کیوں نہیں دے سکتا۔

جواب شاید بہت ہی آسان ہے ۔ حج لاکھوں روپے کا زرمبادلہ فراہم کرتا ہے مگر مہاجرین تو اکانومی پر بوجھ ہوں گے۔ حجاج تو چند دنوں بعد چلے جائیں گے مگر مہاجرین کو خدا جانے کب تک کھلانا پڑے۔ حج ایک فرض عبادت ہے جسکو ادا کرنے کے لیے پوری دنیا سے مسلمان الله کے حضور اکھٹے ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی فرض عبادت ہے جس کے ساتھ حاجی کی مالی اور جسمانی آسودگی منسلک کی گئی ہے۔

یعنی کہ جو افورڈ کرتا ہے وہ ضرور کرے۔ حج کی قبولیت انسان کے گناہ مٹادیتی ہے انسان ایسے ہی پاک ہو جاتا ہے جیسے اپنی ماں کے پیٹ سے نکل کر آیا ہو۔ اس عبادت کا مطلوب الله کی ہی خوشنودی ہے مگر الله کی اصل خشنودی تو اس کے بندوں سے محبت اور انکی مشکل میں مدد سے منسلک ہے۔ کیا شامی مہاجرین کو سمندر کی لہروں کے حوالے کر کے اور بچے کھچوں کو کہنے کو عیسائی ممالک کے رحم کرم پر چھوڑ کر الله کی خشنودی تلاش کی جا سکتی ہے۔

کیا وہ خیمے جو حاجیوں کے لیے سعودیہ میں گاڑے گئے ہیں وہ مسلمان عورتوں اور بچوں کو دھانپ نہیں سکتے۔ اگر سعویہ کے حکمران ان مصائب کے شکار مسلمانوں کو چھت فراہم کر دیتے تو یہ مہاجر اس سال اپنے قیام کے دوران حج بھی کر لیتے ۔ اور انکا یہ عمل پوری دنیا کے لیے ایک ناقابل فراموش مثال قائم کرتا اور ہم سب مسلمان فخر سے یہ کہہ سکتے کہ دیکھو الله کا گھر تکلیف سے گھرے مسلمانوں کے دکھوں کا مداو بن گیا۔

مگرافسوس عرب لیڈر اس انداز میں سوچ ہی نہیں پائے انہوں نے اسلامی مساوات اور اخوت کے اس نادر موقع کو گنوا دیا۔ شایدوہاں کے حکمران ہمارے نبیﷺ کی تعلیمات اور سنت دونوں کو فراموش کر چکے ہیں۔ وہ بھول گئے ہیں کہ آقاﷺ نے خود بھی ہجرت کی تھی اور وہ مدینہ کے عرب ہی تھے جنہوں نے اپنی جان مال اور گھر خوشی خوشی مہاجرین سے بانٹ لیے تھے ۔
لیکن ترکی نے آج بھی اس سنت کو دل وجان سے زندہ رکھا ہے۔

بلکل جرمنی کی طرح اس نے بھی لاکھوں مہاجرین کو پنا ہ دے رکھی ہے۔ جیسا سلوک جرمنی میں عیسائی مسلمانوں مہاجرین کے ساتھ کر رہے ہیں ویسا ہی سلوک ترکش حکومت اور عوام ان لاچار اور غمزدہ مسلمانوں سے روا رکھے ہوئے ہیں۔ اب سوچ کا محور اس نقطہ پر آکر رک جاتا ہے کہ کیا جرمنی کے عیسائی اور ترکی کے مسلمان انسانیت کے ذیادہ قریب ہیں اور کیا سعودیہ اور دوسرے عرب ممالک کے مسلمان انسانیت سے بہت دور ہیں۔

اگر مذہب ان عرب ممالک کے حکمرانوں کو دلوں میں اس اذیت کا احساس پیدا نہیں کر سکا جو شام کے مہاجرین لمبا چکر کاٹ کر اور ناقابل تلافی نقصانات اٹھا کر یورپ آنے پر سہہ رہے ہیں تو پھر وہ کون سے عناصر ہیں جنہوں نے جرمنی اور ترکی کی حکومتوں کے دلوں کو پسج دیا اور وہ ان بے بس اور لاچار مہاجرین کو سایا دینے پر آمادہ ہو گئے۔ شاید یہ انسانیت ہے جسکا سبق گو کہ تمام مذاہب دیتے ہیں مگر اس پر عمل باکردار اور مہذب اقوام ہی کرتی ہیں۔

ترکی کا عالم اسلام میں ایک تشخص ہے ترکوں نے کئی صدیاں تک دنیا پر حکومت کی ہے۔ترکی نے اپنے کردار اور عمل سے ہمیشہ مسلمانوں کے دل جیتے ہیں اور جرمنی نے بھی جنگ عظیم دوئم کے بعد دنیا میں امن اور ترقی کے لیے وہ ساری کاوشیں کی ہیں جس سے انسانیت کو متواتر فائدہ پہچ سکے۔ ترکی تو ایک مسلمان ملک ہے مگر جرمنی نے تو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو نہ صرف ایک ساتھ رہنے بلکہ برداشت اور ہم آہنگی سے چلنے کا سلیقہ بھی سکھایا ہے۔

موجودہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ انسانیت کے رشتے مذہب کے رشتوں سے زیادہ پائیدار اور معتبر ہو گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ترکی کے باکردار مسلمان اور جرمنی کے مہذب عیسائی انسانیت کی مدد دل وجان سے کر رہے ہیں۔ مہاجرین سے جرمن قوم کا برتاو دیکھ کر آنکھیں تشکر سے نم بھی ہوتی ہیں اور دل انکے احسانات کے بوجھ سے دب سا جاتا ہے۔سعودیہ کے
حکمرانوں کے کردار کا موازنہ کرتے ہوئے جرمن چانسلر کے وہ الفاظ ان مسلمان حکمرانوں کے منہ پر تماچہ سے کم نہیں لگتے کہ ہم اپنے بچوں کو بتائیں گے کہ ہم نے مسلمانوں کو تب پناہ دی تھی جب سعودی عرب نے اپنے دروازے انکے لیے بند کر دیے تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :