سقو ط قندوز ، اتحا دی افواج کی نا کا می کا منہ بو لتا ثبوت

منگل 6 اکتوبر 2015

Zameer Asadi

ضمیر اسدی

افغا نستان کے شما ل میں واقع دس لا کھ کی آ با دی پر مشتمل علا قہ قندوز اسٹر یٹجک حوا لے سے انتہا ئی اہمیت کا حا مل ہے جسے نہ صرف طا لبان بلکہ اتحا دی افواج بھی تسلیم کر تے ہیں، یہ وہی علا قہ ہے جسے افغا نستان میں اتحا دی افواج کی آ مد کے وقت ابتدائی طور پر ہی طا لبان کو خا لی کر نا پڑا تھا اور اب طا لبان نے امر یکی تا ریخ کی 14سا ل جا ری رہنے والی مہنگی تر ین جنگ کے بعد شہر پر د ھاوا بو ل کر اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور اتحا دی افواج کی تر بیت یا فتہ افغان فورسز کو میدان چھو ڑ کر بھا گنے پر مجبور کر دیا،طا لبان کی جا نب سے قندوز پر حملے کے بعد بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے،امر یکی تا ریخ کی مہنگی تر ین جنگ کے بعد اتحا دی افواج کی مکمل واپسی کا مو سم بہت قر یب ہے اور انخلاء کے بعد افغا نستان میں صرف امر یکی سفا رتخانے اور قو نصلیٹ کی حفاظت کے لیئے امر یکی فو جی افغا نستان میں مو جو درہیں گے،اہم سوال یہ ہے کہ اتحا دی افواج کی طا لبان میں مو جودگی کے وقت اگر طا لبان اس قسم کا حملہ کر نے کی صلا حیت کے حا مل ہیں اور ایک شہر پر قبضہ کر نے کی اہلیت ر کھتے ہیں تو اتحا دی افواج کے انخلاء کے بعد افغا نستان کی صورت حا ل کیا ہو گی،امر یکی صدر با را ک او با ما کی جا نب سے اس با ت کا اعتراف کہ مضبوط امر یکی معیشت ، اسلحہ اور پیسے کے ساتھ ہم تن تنہا تمام مسا ئل ختم نہیں کر سکتے ان کی نا کا می کا منہ بو لتا ثبوت ہے،ایک بڑے عر صے سے سیکیو رٹی امو ر کے ما ہر ین کی جا نب سے اس با ت کو بیان کیا جا تا ر ہا ہے کہ چو دہ سال کی خا نہ جنگی کے بعد بھی اتحا دی افواج اس ملک کو محفوظ نہیں بنا سکیں اور اب جبکہ جنگ اختتام کے قر یب ہے تو طالبان نے ایک بار پھر سر اٹھا نا شروع کر دیا ہے،جب یہ کہا جا تا ہے کہ افغان حکومت چا ہے اس کے سر برا ہ حا مد کر زئی صا حب ہوں یا اشرف غنی ان کا اختیار صرف کا بل تک ہی محدود ہے تو اس تجز یئے کو رد کر دیا جا تا ہے تا ہم اب قندوز پر حملے کے بعد یہ با ت واضح ہو گئی ہے کہ افغا ن حکومت کا اہم شہر ی علا قوں پر کتنا کنٹرول ہے ، یہ علا قہ جو کہ وسطی ایشیا ئی را ستوں کی جا نب ایک اہم روٹ ہے اگر اس پر بھی افغان حکومت کی گرفت ایسی ہی ہے کہ صرف چو بیس گھنٹوں میں افغان فورسز کو بھا گنا پڑا تو دوسرے شہروں کا تو خدا ہی حا فظ ہے جبکہ اب دوسرے شہروں پر افغا ن طا لبان کے دھا وے کی خبر یں سا منے آ رہی ہیں۔

(جاری ہے)

قندوز پر قبضہ نے افغان حکومت کے دعووں کی قلعی کھو لتے ہو ئے نا کا می کو دنیا کے سامنے وا ضح کر دیا ہے جسے افغا نستان کے چیف ایگز یکٹو عبد اللہ عبد اللہ نے بھی تسلیم کیاہے،افغا ن حکومت کی جا نب سے غفلت نے طا لبان کو اس حملے کے لیئے اکھٹا ہو نے اور منصو بہ بندی کر نے کا مو قع فرا ہم کیا جو کہ قندوز پر حملے کی صورت میں سب کے سامنے ہے،اگر افغان حکومت کی جا نب سے ایسی ہی غفلت بر تی جا تی ر ہی تو مز ید نقصان اٹھا نا پڑسکتا ہے،اس علا قے کی سر حد یں وسطی ایشیا ئی ر یا ست تا جکستان سے ملتی ہیں اور اب اگر طا لبان اس علا قے میں اپنی محفوظ پنا ہ گا ہیں بنا ہ ر ہے ہیں تو یہ با ت وا ضح ہے کہ اس علا قے کی اہمیت ان کے لیئے بہت زیا دہ ہے ،ظا ہری با ت ہے قندوز پر حملہ را توں رات نہیں ہوا، اتنے بڑے پیما نے پر حملے کے لیئے یقینا کا فی عر صے سے کو ششیں جا ری ہوں گی جس سے افغان حسا س ادارے لا علم رہے اور طا لبان سیکیو رٹی خا میوں کا فا ئدہ اٹھا تے ہو ئے شہر پر قا بض ہو گئے، طا لبان کے لیئے اس علا قے پر طویل مدت کے لیئے قا بض رہنا یقینا نا ممکن تھا اور افغان فورسز اتحا دی افواج کی مدد سے شہر کے مر کزی حصہ سے قبضہ چھڑوا نے میں بھی کامیا ب ہو گئی ہیں،بظا ہر طا لبان کا مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ وہ اس طویل جنگ سے تھکے نہیں ہیں اور کسی بھی وقت کہیں بھی حملہ کر نے کی بھر پو ر صلا حیت ر کھتے ہیں،افغا ن حکومت کے لیئے عوام کا اعتماد جیتنا اس صورت میں دن بہ دن بہت مشکل ہو تا جا ر ہا ہے جبکہ اشرف غنی حکومت کی کمز ور یا ں بھی سب کے سامنے عیاں ہیں،کا بل میں کمزور حکومت کے لیئے طا لبان کو مکمل طور پر شکست دے کر عوام کومحفوظ رکھنا اب ان کے بس کی با ت نظر نہیں آ تی،افغان سیکیو رٹی پا لیسی پر بھی افغان صدر اور چیف ایگز یکٹو کے ما بین اختلا فات وا ضح ہیں،صورت حا ل دن بہ دن انتہا ئی پیچیدہ ہو تی جا رہی ہے جس کا احساس ابھی تک کا بل حکومت کر نے میں نا کام رہی ہے،ملا عمر کی موت کی تصد یق ہو نے کے بعد امن مذاکرات کو بھی بہت بڑا دھچکا لگا ہے ، دو با رہ سے مذاکرات کی میز پر آ نے سے قبل طا لبان کی جا نب سے اس طر ح کے مز ید حملے خا رج از امکان نہیں جس میں وہ اپنے آ پ کو طا قت کے طور پر تسلیم کروا نا چا ہتے ہیں تاکہ امن مذاکرات سے وہ اپنے لیئے زیا دہ سے زیا دہ فوا ئد حاصل کر سکیں،قندوز پر حملے کے بعد افغان فوج اور اتحا دی افواج کے طا لبان کو شکست دینے کے دعوے ریت کی دیوار ثا بت ہو رہے ہیں،افغا ن طا لبان پر اگر چو دہ سالہ جنگ کے بعد قا بو نہیں پا یا جا سکا تو اب اس حقیقت کو فوری طور پر تسلیم کیا جا نا چا ہیئے کہ امن مذاکرات جس پر تمام شرا کت دار متفق ہیں اس عمل کو مز ید معطلی کا شکار کیئے بغیر فوری طور پر آ گے بڑ ھا نا چا ہیئے تا کہ خو ن آ لودجنگ کا خا تمہ ممکن بنا یا جا سکے جس کے لیئے ضروری ہے کہ افغا ن حکومت زمینی حقیقتوں کو تسلیم کر تے ہو ئے آ گے کی جا نب بڑ ھے اور اس عمل کو کا میاب بنا نے کے لیئے جس نا کام حکمت عملی کے تحت سا بق صدر حا مد کر زئی نے اپنا دور اقتدار مکمل کیا اس پر نظر ثا نی کی جا ئے، افغان حکومت اسی صورت ملک میں امن قا ئم کر نے میں کا میا ب ہو گی جب اپنی تر جیحات کا تعین کر پا ئے گی، افغا نستان میں ایک لا بی پا کستان مخالف قو توں کو اقتدار میں دیکھنا چا ہتی ہے ، چیف ایگز یکٹو افغا نستان عبد اللہ عبدا للہ اسی لا بی کے حما یت یا فتہ ہیں سا بق صدر حا مد کر زئی بھی ا سی لابی سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمیشہ افغا نستان میں ہو نے والی بد امنی کا ذ مہ پا کستان پر ڈالتے رہے ، اشرف غنی نے اقتدار سنبھا لا تو انہیں زمینی حقیقت کا احساس جلد ہو گیا کہ خطے میں امن کا قیام بھا رت کے ساتھ ہا تھ ملا کر نہیں بلکہ پا کستان کے ساتھ دوستی سے کیا جا سکتا ہے، افغا نستان میں امن قا ئم کر نا ہے تو بھا رت کو کسی صورت شر یک نہیں بنا یا جا سکتا، نہ تو افغا نستان کی سر حدیں بھا رت کے ساتھ مشترکہ ہیں اور نہ ہی مفادات تا ہم اب وقت گز ر نے کے ساتھ ساتھ اشرف غنی بھی افغا نستان میں بھا رتی لا بی کے شکنجے میں پھنستے ہو ئے نظر آ ر ہے ہیں اور آ ئے روز کا بل سے پا کستان مخا لف بیا نات حکو متی پا لیسی کا حصہ بن چکے ہیں،افغا ن حکومت کو تسلیم کر نا ہو گا کہ بھا رت کی ز بان بو ل کر نہ تو افغان عوام کے دل جیتے جا سکتے ہیں اور نہ ہی طا لبان کے ساتھ امن مذاکرات کو کا میا بی کے ساتھ آ گے بڑ ھا یا جا سکتا ہے۔

افغا ن عوام کا افغان جہا د کے بعد جتنا وقت پا کستان میں گزرا ہے اتنا افغا نستان میں نہیں گزرا ،فغان عوام نے یہ تمام وقت جتنی آ زادی کے ساتھ یہاں گزارا ہے وہ جا نتے ہیں کہ پا کستان افغا نستان کے با رے میں منفی خیا لات نہیں رکھتا،افغان حکومت اس وقت تا ر یخ کے اہم دوراہے پر مو جود ہے، افغان صدر اس با ت کو تسلیم کر تے ہیں کہ تا ریخ بتا ئے گی کہ کو ن صیح تھا اور کو ن غلط تا ہم اب اس سے آ گے بڑ ھنے کی ضرورت ہے اور اس پہلے کہ تا ریخ جیسے آ ج حا مد کر زئی سے یہ سوال کر نے پر مجبور ہے کہ جن طا لبان کو شکست دینے کے دعوے کیئے جا تے رہے وہ طا لبان ایک با ر پھر کیسے سر اٹھا نے میں کا میا ب ہو رہے ہیں، کیا حا مد کر زئی اس سوال کا جواب دینا پسند کر یں گے کہ ان کی پا لیسیوں سے طا لبان کو کس حد تک کمزور کیا جا سکا،اب بھی افغان صدر کے پا س امن قا ئم کر نے اور تا ریخ میں اپنا نا م درج کر وانے کے لیئے بہت کچھ ہے اس سے پہلے کہ تا ریخ آ پ کو بھی حا مد کر زئی کے ساتھ منسلک کر ے اور یہ درج کر نے پر مجبور ہو کہ افغا نستان نہیں صرف کا بل شہر کا حکمران صرف اپنی حکومت کو بچا نے اور مدت پو ری کر نے کے لیئے کو ششوں میں مصروف رہا ، آ پ آ گے بڑ ھیئے حقیقت تسلیم کی جا یئے ابھی آ پ کے پا س بہت وقت ہے اور اپنی تر جیحات پر نظر ثا نی کر تے ہو ئے پا کستان اور افغا نستان کے مشتر کہ دشمن کوشکست دینے کے لیئے ہا تھ ملا یئے ،افغان اینٹلی جنس این ڈی ایس پر بھی بھا ری ذ مہ دا ری عا ئد ہو تی ہے کہ ہر نا کا می کی ذ مہ داری پا کستان پر ڈال کر آ پ اپنے فرا ئض سے منہ نہیں مو ڑ سکتے، افغا ن اینٹلی جنس جو کہ ہر وقت اس مو قع کی تلا ش میں رہتی ہے اسے بھی اپنا قبلہ درست کر نے کی ضرورت ہے ،این ڈی ایس اگر افغا نستان میں طا لبان کے منصو بو ں کو نا کام بنا نے پر تو جہ دے تو وہ افغان عوام کو محفوظ بنا نے میں اپنا مئوثر کردار ادا کر سکتی ہے بجا ئے اس کے کہ ہر وقت پا کستان مخا لف بیا نات جا ری کر نے کی منصو بہ بندی کی جا ئے۔

افغان حکومت اور این ڈی ایس اگر پا کستان کے خلاف ہر وقت پرو پیگنڈہ کر نے کی بجائے ملک میں امن قا ئم کر نے پر تو جہ دیں تو انہیں یقینا کا میا بی حا صل ہو گی جس کے لیئے افغان عوام عر صہ داراز سے نہ صرف مستحق ہیں بلکہ منتظر بھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :