وزیرِاعظم پاکستان کی امریکی یاترا

جمعرات 22 اکتوبر 2015

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

ایجنڈاواضح ،”کچھ لو، کچھ دو“لیکن دونوں کے تصورات ،خیالات اورمطالبات میں بعدالمشرقین۔ امریکہ کی نظرمیں پاکستان نااحسان سپاس جبکہ پاکستان کے خیال میں امریکہ قدرناشناس ،اتحادی مگرجہنم سے نکلاہوا، دوست مگردشمن سے بدتر کہ بقول ہنری کسنجرامریکہ کی دشمنی بُری لیکن دوستی بہت بُری۔ اُدھر ہمارے فضاوٴں میں بکھرے سارے خواب ادھورے کہ ہمارے سراسیمہ ،نڈھال اوربدحال رہبر 68 سال گزرنے کے باوجودابھی تک خارجہ پالیسی کی نوک پلک سنوارنے سے قاصر ،چین اورامریکہ کے درمیان ”سینڈوِچ“ بنے کبھی اِدھرکبھی اُدھر۔

جن پہ قوم کوتکیہ وہ بھوکے گدھ کہ اقتدارکی ہوس میں سب کچھ فراموش ،ملکی سلامتی کی پرواہ نہ قومی وقارکی ،ساری تگ ودَوکا محور ومرکز حصولِ اقتدار۔

(جاری ہے)

قوم حیراں وانگشت بدنداں کہ

خطروں نے جہاں دی نہ میری آنکھ بھی لگنے
اُس شہر کا اِک شخص بھی بیدار نہ دیکھا
اسی اندرونی کشمکش اورافراتفری کا بوجھ اٹھائے وزیرِاعظم عازمِ امریکہ ہوئے جہاں اُن کا ”ٹاکرا“ ابلیسیت کے اُن علمبرداروں سے جن کے دل میں ایٹمی پاکستان کانٹے کی طرح کھٹکتاہے ۔

امریکہ کاپہلا مطالبہ جوہری ہتھیاروں کو محدودکرنے کے گردہی گھومے گاجو پاکستان کے لیے ناقابلِ قبول کہ واسطہ بھارت جیسے پڑوسی سے جس کا ہر وزیرِاعظم ”اکھنڈبھارت“ کانعرہ لگاکر اقتدارکے ایوانوں تک پہنچتاہے اوراب توبھارت کی تمام انتہاپسند ہندوتنظیموں کامتفقہ نمائندہ، نریندرمودی وزیرِاعظم جوسب سے بڑاانتہا پسنداور مسلمانوں کا بدترین دشمن ۔

19 اکتوبرکو انتہاپسند شیوسینا نے پاکستانی کرکٹ بورڈکے وفدکے ساتھ جوکچھ کیاوہ سب کے سامنے۔ کیاامریکہ کے پاس بھارت کی کسی بھی ممکنہ جارحیت سے پاکستان کومحفوظ رکھنے کاکوئی حل ہے؟۔اگرنہیں توپھر کیاوہ پاکستان کی ایٹمی قوت کومحدود کرکے اُسے بھارت کا تَرنوالہ بنانا چاہتاہے؟۔ ساری عالمی طاقتیں مل کربھی بھارت کوکشمیر پراقوامِ متحدہ کی ”استصواب رائے“ کی قراردادوں پرعمل درآمد کے لیے مجبورنہیں کرسکیں، بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کاکیا خاک ساتھ دیں گی ۔

ہمیں بھارتی جارحیت کاجواب دینے کے لیے کسی کی مددکی ضرورت نہیں، ہم ایٹمی قوت ہیں اور بوقتِ ضرورت جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے ہرگز گریزنہیں کریں گے۔
پاکستان بھارتی دہشت گردی اورجارحیت کے تمام ثبوت اوباماکے سامنے رکھ کرکشمیر سمیت تمام متنازع امورکے حل پرزور دے گا جواوباما کے لیے ناقابلِ قبول۔ اُس کالیت ولعل سے کام لینااظہرمِن الشمس کہ بھارت ٹھہرااُس کا اسٹرٹیجک پارٹنرجسے چین اورروس کے بڑھتے تعلقات سے خوفزدہ امریکہ اتنا طاقتور دیکھناچاہتا ہے کہ بوقتِ ضرورت کام آسکے۔

ویسے بھی دفاعی اور اقتصادی لحاظ سے مضبوط پاکستان امریکہ کوپہلے کبھی قبول تھا ،اب ہے نہ آئندہ ہوگا کیونکہ اُسے خطرہ ہے کہ گرم پانیوں پر حکمرانی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ مضبوط پاکستان ہی ہوگا۔ پاکستان امریکہ سے بھارتی طرزکے سول نیوکلئیر ٹیکنالوجی تعاون کامطالبہ بھی کرے گاجس کاٹکا ساجواب ملنے کی توقع کہ امریکی پالیسی سازوں کے ہاں تو پہلے ہی نیویارک ٹائمزکی اِس رپورٹ پرہلچل مچی ہوئی ہے کہ پاکستان ممکنہ بھارتی حملے کوروکنے کے لیے چھوٹے جوہری ہتھیار نصب کرنے جارہا ہے حالانکہ یہ” گُر“ توپاکستان نے امریکہ سے ہی سیکھاہے جس نے روس کے امکانی حملے کوروکنے کے لیے یورپ میں چھوٹے جوہری ہتھیارنصب کیے تھے ،جواباََ روس نے بھی ایسے ہی جوہری ہتھیار کیوبامیں نصب کردیئے جس سے تیسری عالمی جنگ کاخطرہ سرد جنگ میں ڈھل گیا۔

آج اگرپاکستان وہی حربہ آزماناچاہتا ہے توامریکی پالیسی سازچیں بچیں کیوں؟۔ شاید امریکہ ممکنہ تیسری عالمی جنگ کامیدان برِصغیر پاک وہند کوبنانا چاہتاہو ۔پاکستان کی طرف سے چھوٹے جوہری ہتھیاروں کی تنصیب سے بھارتی پالیسی سازوں کو کم ازکم اتناتو یقین ہوجائے گاکہ پاکستان بھارت کی کسی بھی ممکنہ جارحیت کامُنہ توڑجواب دینے کے لیے ہمہ وقت تیارہے۔


امریکہ کاپاکستان سے بنیادی مطالبہ یہ ہوگاکہ پاکستان افغانی طالبان کومذاکرات کی میزپر لانے کے لیے اُس کی مددکرے ۔ طالبان مذاکرات کے لیے تیارتو ہیں لیکن اِس شرط پرکہ پہلے تمام غیرملکی افواج افغانستان سے چلی جائیں۔امریکہ سمجھتاہے کہ پاکستان اِس” کڑی شرط“ کے بغیربھی طالبان کومذاکرات کی میزپر لاسکتا ہے اور اگرایسا ممکن ہواتو افغانستان میں چودہ سالہ ہزیمت کے بعد باعزت واپسی کی کوئی راہ نکل آئے گی ۔

نائن الیون کابہانہ بناکر 7 اکتوبر 2001ء کو جدیدترین اسلحے سے لیس60 ہزار امریکی فوجی افغانستان پرچڑھ دوڑے ،افغانستان میں شمالی اتحادکے ہزاروں جنگجو بھی ساتھ دینے آن پہنچے اوربرطانیہ بھی ۔ 2003ء میں دنیا کے 18 طاقتور ترین ملک بھی مددکو آگئے اور 2006ء میں مزید 46 غلامِ بے دام ممالک بھی۔ دنیاجہان کے ہرقسم کے جدیدترین اسلحے سے لیس لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ نیٹوافواج اور2لاکھ افغانی فوج 14 سال تک اُن نہتے افغان مجاہدین سے بَرسرِپیکار رہی جن کے پاس کوئی جہازتھا نہ ٹینک، بکتربند گاڑی تھی نہ ہیلی کاپٹر۔

پھرچشمِ فلک نے دیکھاکہ بدترین ہزیمت اُن کے حصے میںآ ئی جواپنی طاقت کے زعمِ بَدمیں گرفتارتھے اورسرخرووہ جن کایہ جزوِ ایمانی کہ ”مومن ہے توبے تیغ بھی لڑتاہے سپاہی“۔ آج نیٹوافواج کا70 ملکوں کا یہ ”اکٹھ“ تِتربتر ہوچکا، باقی رہ گیاصرف امریکہ جسے واپسی کی کوئی راہ دکھائی دیتی ہے نہ سجھائی ۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بارک اوباما نے کہاکہ عالمی مسائل طاقت اوردولت کے زورپر حل نہیں کیے جاسکتے ۔

اُس نے یہ اعتراف بھی کیاکہ امریکہ کو افغانستان اورعراق میں اِس کاتجربہ ہوچکا لیکن وہ یہ اقرارکرنا بھول گئے کہ بہت پہلے ویت نام کی جنگ میں بھی اُنہیں ایسی ہی ہزیمت سے دوچار ہوناپڑا تھالیکن عالمی چودھری بننے کانشہ ہی ایساہے کہ امریکہ کوباربار ذلتوں کا سامناکرنا پڑتاہے پھربھی وہ باز نہیںآ تا۔”تاریخ کاسب سے بڑاسبق یہ کہ تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا“۔

طالبان کومذاکرات کی میزپر لانے میں مدد کرنے کامطالبہ ہی وہ نکتہ ہے جس پرپاکستان اپنے مطالبات کی عمارت استوارکر سکتاہے۔ وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ امریکہ جواباََ پاکستان کوامدادکی پیش کش توکر سکتاہے لیکن باقی مطالبات پرٹال مٹول سے کام لے گاجبکہ دوسری طرف میاں نواز شریف امریکہ سے دوٹوک بات کرنے کے موڈمیں نظر آتے ہیں پاکستانی کشکول میں امریکی امدادکی تگ ودَومیں نہیں۔اِس لیے اُمیدِ واثق تویہی کہ وزیرِاعظم صاحب امریکی یاتراکے اختتام پریہی گنگناتے نظرآئیں گے
چل دوں ابھی تو روکنے والا نہیں کوئی
کِن بے مروتوں کے یہاں آ گیا ہوں میں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :