سانحہ سندر کے اصل حقائق تک

بدھ 11 نومبر 2015

Aamir Khan

عامر خان

سانحہ سندرلاہور کیوں ہوا کیسے ہوا ہر شخص اس بارے میں جانا چاہتا اسکا سارا آنکھوں دیکھاحال اور اپنی ہر بات مکمل زمہ داری کے ساتھ آپ لوگوں کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں بہت سارے کالم نگاروں کی طرح کالم لکھنے میں اس لیے جلدی نہیں کی اس سارے سانحہ کو جانئے کے لیے وقت درکار تھا ۔آج سے چند برس پہلے لاہور سند انڈسٹریل سٹیٹ میں فیکٹری کے کام کا آغاز ہوا مالک نے اس کی تعمیر کے لیے لاہور سے تین چار گھنٹے کی مسافت پر واقع شہر جھنگ کے مشہور کاریگر بلائے جو اپنے کام کے ماہر جانے جاتے تھے جن نے لاتعداد رائس اور فلورمل بنائی تعمیرات کی دنیا میں ان کا نام کا سکہ چلتا تھا ۔

فیکٹری مالک نے کام کے دوران استعمال ہونے والا مٹریل خو دینے اور اس کا حساب کتا ب اپنے پاس رکھا۔

(جاری ہے)

جھنگ سے آنے والے کاریگروں کو تعمیراتی کام کی مزدوری پر رکھ لیا گیا کنٹریکٹ کے مطابق جھنگ سے آنے والے کاریگروں نے دومنزل کی مکمل تعمیر کروا کر دینی تھی ایسا ہی ہوا ایک عرصہ بعد دو منزلہ عمارت مکمل ہوگی ا ور اس میں چالیس لوم لگا دی گی فیکٹری چالو ہو گی ۔

اس فیکٹری میں پلاسٹک بیگ تھیلے بنائے جاتے تھے اس کی ایک کی دن کی آمدنی لگ بگ چالیس ہزار بتائی جا رہی ہے فیکٹری چالو تو ہو گی پر تعمیراتی کام کرنے والوں کا بقایا ادا نہ کیا گیا ۔فیکٹری مالک نے اس پر تیسری منزل بنا نے کے لیے کہا جس پر کاریگروں اسے صاف لفظوں میں کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا اگر تیسری منزل بنانا ہی تھا تو آغاز میں بتایا جاتا اب ایسا نہیں ہو سکتا اس طرح بلڈنگ کو خطرہ لیکن مالک اپنی ضد پے قائم تھا بولا میرے نقصان سے آپ لوگوں کو کیا آپ اپنے مزدوری کے پیسے لیں اور کام کریں ۔

مرتا کیا نہ کرتا کاریگر کام پر لگ سندر سٹیٹ میں بلدیہ یا جو بھی متعلقہ ادرہ تھا اس نے اس پر کام رکوا دیا اس بااثر فیکٹری کے مالک نے اپنے کسی ایم پی اے دوست کی مدد سے کام دووبارہ شروع کروا دیا ۔کام مکمل ہونے سے پہلے ہی اس سانحہ سے چند ماہ پہلے ہی فرسٹ فلور میں کریک آگیا جس پر کاریگروں نے مالک کو آگاہ کیا جب مالک نے کان نہ دھرے اُلٹا اُس کے یہ الفاظ تھے کے آپ لوگ ڈرامہ کر رہے ہو کاریگر خاموش ہو گے۔

کام جاری تھا کہ زلزلہ آگیا فیکٹری کو ہوا تو کچھ نہیں پر اس سے اور اس کے تیسر ے فلور کی تعمیر سے فیکٹری کی حالت کافی نازک ہو گی تھی جس کی وجہ سے وہا ں کام کرنے والے لوگ استعفیٰ دے رہے تھے اور اسی فیصد لوگ آخری تنخواہ کا انتظار کررہے تھے ۔جس دن یہ سانحہ ہوا تعمیراتی کام کرنے والے عینی شاہد کے مطابق اُس دن کام جاری تھا تعمیراتی کام کرنے والے دن ختم ہونے پہ کام روکنے والے تھے آخری مرحلہ جاری تھا کاریگروں کے انچارج نے سب کو کام ختم کرنے کا کہا جس پر دو مزودر جو دیوار پلستر کا کام کررہے اُن نے کہا تھوڑا سا سیمنٹ بچ گیا وہ لگا کر ہم آجاتے ہیں۔

اتنے میں فیکٹری کے مالک کا پی اے آتا اور کاریگروں کے انچارج سے کہتا کہ صاحب بولا رہے اوروہ بات کرتے ہوئے تیسری منزل کی چھت پہ آجاتے ہیں پی اے کاریگروں کے انچارج سے کہتا کہ فیکٹری مالک اسے بلارہا کہ یہ بتاو کہ اب بارہ کروڑکی منگوائی ہوئی مشنری کسے اُپر لانی ہے انچارج نہ صاف انکار کیا کہ ہمیں یہاں سے جانے دہ اُس کے بعد جو مرضی کرنا میں مالک کے سامنے گیا تو میری اُس سے لڑائی ہو جائے گی میں نے اُن کو پہلے بھی منع کیا اس پر کام کروایا جائے پی اے کہتا آو مل کر اُسے سمجھاتے ہیں ابھی یہ بات جاری ہی تھی کہ وہ قیامت اس فیکٹری پر آگی ساری فیکٹری ملبہ بن کر گر گی کاریگروں کا انچارج اور پی اے آخری چھت پر موجود تھے اس وجہ سے زخمی تو ہوئے پر بچ گے ۔


؛بھائی جس بلڈنگ کا کام کر رہے تھے وہ گر گی ہے ؛ یہ وہ الفاظ تھے جومجھے میرے دوست کی طرف سے موصول ہونے والی کال میں کہے گے تھے میں اب میں کیا کہوں یہی سوچھ رہا تھا کہ دوست نہ ساتھ جانے کا کہا انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا بات تھی ہی بہت بڑی راستے میں دوست کے بھائی سے بات ہو گی وہ اللہ کے کرم سے ٹھیک تھے ۔لیکن افسوس ناک بات یہ تھی کہ اُن کے ساتھ کام کرنے والے نواحی علاقے جھنگ کے دوافراد لاپتہ تھے جن کی تلاش میں ہم لوگ لاہورسندرسٹیٹ کے لیے نکلے کے اطلاع ملی کے ایک ساتھی کا پتا چلا کہ وہ جنرل ہسپتال میں ہے وہاں پہنچ کر پتا چلا کے وہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔

اتنے میں دوسرے ساتھی کی اطلاع آئی کے وہ بھی انتقال کر گیا اور ایک ہسپتال میں موجود گی کا پتا چلا۔اب جنرل ہسپتال لاہور میں اس نوجوان کے وارث بھی آگے جو اپنے لخت جگر کی نعش کو لے جانا چاہتے تھے لیکن ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے انتطار کا کہا گیاہم وہی موجود تھے ہسپتال کے عملے نے بتایا کے ایم ایس صاحب آتے ہیں تو کاغدی کاروائی کے بعد نعش اہلخانہ کے حوالے کر دیں گے ۔

ہم اتنے میں دوست کے بھائی کی طرف جانے کے لیے نکلے تو راستے بند تھے اتنے میں رات کے تین بج گے ہم آرام کی غرض سے قریب ایک دوست کے گھر چلے گے کے تاکہ راستے کھولتے ہی دوست کے بھائی کو لے کر اپنے آبائی شہر جھنگ چلے جائیں گے چائے پیتے اور اس سانحہ پر بحث کرتے کرتے رات کے چار بج گے اتنے میں جنرل ہسپتال میں موجواہلخانہ میں سے کسی نے کال کی ہمیں ابھی تک نعش حوالے نہیں کی گی حیرانگی سے پھر ہسپتال کی طرف بھاگے وہاں جا کر پتا چلا ایم ایس صاحب نے بات ہی نہیں سنی وہ اپنے عملے کے کچھ لوگوں کے ساتھ حادثے والی جگہ روانہ ہو گے ہیں۔

اب اہلخانہ کے چند نوجوان مشتعل ہو گے اوربات ہسپتال کے عملے سے بات ہاتھا پائی پر اُتر آئی سادہ لوگ تھے اپنی مادری زبان میں احتجاج کر رہے تھے ہسپتال انتظامیہ کو کچھ باتوں کی سمجھ لگ رہی تھی کچھ کی نہیں۔ میں نے اپنی علاقے میں بولی جانے والے زبان میں اُن لوگوں کو صبر کرنے کا کہا پاس کھڑے ہسپتال کا عملہ میں سے لوگ میرے پاس آئے مجھے سمجھدار ہونے کا لقب دے کر اپنے ساتھ لے گے اند ر کمرے میں ڈی ایم ایس صاحب موجود تھے جن نے مجھے کچھ کاغذات دیکھائے اور ساتھ کہا کے ہسپتال والے اپنا سارا کام کر چکے اب بس پولیس کے ایک آفیسر آکر ایک سائن کر دے تو یہ لوگ نعش لے جا سکتے ہیں اور ساتھ ہی مجھے سب انسپکٹر سبطین اعوان صاحب کا نمبر بھی دیا ۔

میں باہر آیا اہلخانہ کو کچھ دیر صبر کا کہا سب انسپکٹر صاحب کو کال کی اُنہوں نے تھوڑی دیر انتظار کا کہا اتنے میں اہلخانہ کے لوگوں نے بتایا کے وہ دس بجے سے سب انسپکٹر کو کال کر رہے پر وہ ٹا ل رہا اتنے میں مجھے کیسی ساتھی نے ڈی پی او صاحب کا نمبرملا کر دیا ڈی پی صاحب خود تھے یا اُن کا پی اے تھا اُن صاحب کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا ساتھ میں یہ بھی بتایا ان لوگوں نے تین چار گھنٹے کاسفر بھی کرنا ا ڈی پی او صاحب تسلی سے ساری بات سُنی اور ن دس منٹ کا وقت لیا دس منٹ سے پہلے ڈی پی او صاحب نے خود کال کی اور کہاکہ اہلخانہ کو احتجاج نہ کرنے دیا جائے ابھی ان کا کام ہو جائے گا اور پھر ایسا ہی ہو ا ہسپتال کا عملہ مہربان ہو گیا سرکاری گاڑی میں میت چھوڑ آنے کا کہا کچھ دیر میں سب انسپکٹر صاحب بھی آ گے جن نے آتے ہی اپنا کام مکمل کیا اور چلتے بنے ۔

اہلخانہ اپنے پیارے کی میت لے کر روانہ ہو گے میں وہیں کھڑا سوچھ رہا تھا کہ آج کے دن بھی کچھ لوگ اتنی سستی کا مظاہر کر رہے ہیں ہ آج اگر وہ لوگ احتجاج کرتے پہلے تو پولیس سے لاٹھیاں کھاتے بعد میں میڈتا پر آتا پھر کوئی ایکشن ہوتا ۔پر سلام ہے ڈ ی سی او لاہور اور ڈی پی او لاہور جو پوری رات کام کرتے رہے ۔ اب یہ سانحہ کیوں ہوا اس کا قصور وار کون ہے حکومت نے پہلے کی طرح عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ۔

یہ بلڈنگ جہاں تعمیر ہوئی اُس کے ساتھ ہی بلدیہ والوں کا آفس ہے قصور وار کو ئی بھی نہیں ملے گا ْ ا اس بلڈنگ کا نقشہ پاس کیسے ہوا اگر نقشہ پاس نہیں ہوا تو بلڈنگ کیسے تعمیر ہو تی رہی حکومت کے ادارے کیوں سوتے رہے ۔آج سیاست دانوں کے بیان سن کر مجھے ہنسی آتی ہے آپ میں سے ہر کسی نے اخبار ،ٹی وی ،کبیل پر اُن اشتہارت کو تو دیکھاہو گاجن میں کہا جاتا تین دن میں رنگ گورا کریں سات دن میں قدا میں اضافہ کریں پندرہ دنوں میں موٹاپہ سے نجات حاصل کریں ۔آپ لوگ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچھیں ان اشتہارت اور سیاست دانوں کے بیان بازی میں زرا بھی فرق ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :