خیالات

جمعرات 12 نومبر 2015

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

نوجوان کئی روزسے ملنا چاہ رہا تھا مگر مصروفیات ایسی رہیں کہ مل نہیں پایا آج وہ بغیرفون کیئے آدھمکا تھا ‘مجھے صرف ایک گھنٹے کا وقت درکار ہے اس نے چھوٹتے ہی مجھے آگاہ کردیا کہ گویا اگلے ایک گھنٹے تک مجھے اور کچھ نہیں کرناپھول‘پودے‘سبزیاں میراشوق ہے میں اس وقت اپنے چھوٹے سے لان میں پودوں کی کانٹ چھانٹ میں مصروف تھا ‘وہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں فائنل ائیرکا طالب علم تھا اور اسے اپنی اسائنمنٹ مکمل کرنے کے لیے میرا انٹرویوکرنا تھا‘گفتگوکا آغازنوے کی دہائی کی صحافت اور آج کی صحافت میں جو تبدیلیاں وقوع پذیرہوئیں اس سے ہوا وہ الیکٹرونک میڈیا کو ”بچہ جمہورا“کہنے پر خاصا پریشان ہوا ‘آج کی نسل شاید صرف اس لفظ سے واقفیت رکھتی ہے اس نے اصل میں بچہ جمہورا دیکھا نہیں ہمارے عہد کے لوگ اس کردار سے بخوبی آگاہ ہیں کہ مداری تماشہ لگایا کرتا تھا تو ایک بچہ جمہورا اس کے ساتھ ہوتا مداری اسے مختلف کام کرنے کو کہتا اور ہر کام کے ساتھ ایک جملہ ضرور شامل ہوتا ”پیٹ کی خاطرکرئے گا“تو بچہ جمہورا پیٹ کی خاطر بظاہرنامکمن کام کرنے کی حامی بھرتا چلاجاتا‘معاشرے کے بہت سارے کرداروں کی طرح یہ کردار بھی تاریخ کاحصہ بن چکا‘ہمارا آج کا میڈیا بھی ”پاپی پیٹ “کی خاطر”بچہ جمہورا“بنا ہوا ہے بلکہ بعض تو اس ”معرا ج“ تک جاپہنچے جہاں کا سوچ کر ہی شرفاء موت کو گلے لگانا پسند کرتے ‘آپ کے عہد کے بہت سارے ساتھی فرش سے عرش تک جا پہنچے مگر آپ......اس نے جیسے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑا تھا ‘نوجوان کے اس وار پر میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکا‘ہمیں ”فن“ہی نہیں آیا کہ نالائق لوگ ہیں میرے عزیزعرش سے بھی کسی نے یہی سوال کیا تو اس نے کہا تھا کہ ”کامیابی کے زینے پر میں بھی اپنی باری کا انتظار کررہا تھا کچھ لوگ آئے دوسروں کی گردنوں کو کچلتے اوپرچڑھتے چلے گئے ہم اس فن سے ناآشنا تھے سو کھڑے باری کا انتظار کرتے رہ گئے“میں یہ نہیں کہتا کہ اس عہد میں فرشتے صحافت کیا کرتے تھے بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر کھلے عام دو مشہور صحافیوں نے صحافت کے منہ پر کالک ملنے کا کام اسی دور میں شروع کیا ‘آغازدوپہرکے ایک اخبار سے ہوا اور انجام آج دنوں اپنے قائم کیئے بزنس ایمپائرزکوبچانے کی تگ ودو میں لگے ہیں ہاں ہم ان کے طرزصحافت کا موازانہ اگر آج کے الیکٹرونک میڈیا پر ہونے والی رپورٹنگ اور پروگراموں سے کریں تو ان کے مقابلے میں طفل مکتب تھے یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے اپنے ٹیلی ویژن چینل لانچ کیئے تو بری طرح پٹ گئے ‘کوئی پیسہ کمانا چاہتا ہے تو اسے یہ حق حاصل ہے مگر دنیا میں ہر جگہ کچھ حدودوقیود متعین ہیں جبکہ ہمارے ہاں ”سیٹھ مافیا“چوتھے ستون کے نام پر اتنی طاقت حاصل کرچکا ہے کہ آج کا صحافی اور مالکان خود کو کسی بھی قسم کے احتساب سے بالاترسمجھتے ہیں اگر کسی سیٹھ سے ادائیگی ٹیکس کی تفصیلات مانگ لی جائیں تو اسے ”آزادی صحافت“پر حملہ قرار دیدیا جاتا ہے ‘پاکستان شایددنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جہاں صحافت کی آزادی پر سب سے زیادہ حملے ہوتے ہیں ‘آپ کیمرے لیکر دیواریں پھلانگ کر چور‘ڈاکوکی طرح کسی کے بھی گھر میں داخل ہونااپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ‘ایک ٹی وی چینل کے مالک نجانے کس احساس محرومی کا شکار ہیں کہ انہوں نے اپنے چینل پر کرائم اور سرکاری محکموں پر چھاپوں کے لیے دوپروگرام خصوصی طور پر شامل کروارکھے ہیں حیرت انگیزطور پر دیگر چینلزکی طرح ایسے پروگرام ان کے لیے ”کماؤپتر“نہیں بلکہ انہیں پولیس افسروں اور سرکاری افسران سے ملاقاتوں اور دوستوں کا شوق ہے جسے وہ ان پروگراموں کے ذریعے پورا کرتے ہیں اب سب کچھ نہ ہی کہلواؤ تو اچھا ہے میرے نوجوان دوست ہمیں اسی مارکیٹ میں رہنا ہے ہاں اگر کبھی صحافت کو خیرآباد کہا تو ایک کتاب ضرور مرتب کرونگا کہ حقیقت میں اس ملک اور قوم کے ساتھ ان ”کلموہے کیمروں“کے ذریعے کیا ہورہا ہے‘نوجوان کے کچھ سوال صحافت کے اصولوں ‘روایات کے حوالے سے تھے ‘اب جب کوئی اصول ‘ضابط‘اخلاقیات رہیں ہی نہیں تو جواب کیا دوں‘بخثیت مجموعی جس طرح معاشرے میں روایات اوراقدارکا جنازہ نکل چکا ہے اسی طرح صحافت سے بھی اخلاقیات اور روایات کو نکال کر باہر پھینک دیا گیا ہے ”بچہ جمہورا“الیکٹرونک میڈیا کی پیدائش سے قبل یعنی دوہزار کے آغازتک جنسی زیادتی کے واقعات کو اچھالا نہیں جاتا تھا بلکہ اخبارات کی پالیسی ہوتی تھی کہ زیادتی کا شکار خاتون‘بچے یا بچی کی تصویر تو دور کی بات اس کا نام تک نہ لکھا جائے اس کے علاوہ ان خبروں کو اندورنی صفحات میں لگایا جاتا تھا نہ کہ ہیڈلائنزکی زینت بنایا جاتا‘پرتشددتصاویرکو بھی اندرونی صفحات پر سنگل کالم لگایا جاتا تھا ‘بعض اخبارات کو تو پالیسی تھی کہ نیم عریاں قسم کی تصاویرکو شائع نہ کیا جائے ‘پھر وقت بدلا زوال اپنے عروج کو پہنچا ‘روایات اور اقدار کمرشل ازم کی بھینٹ چڑھ گئیں ‘ جب صحافت میں کچھ اخلاقیات ابھی زندہ تھیں خبرباؤنس ہونے کو بہت معیوب سمجھا جاتا تھا‘ادارہ اگلے دن اس کی وضاحت ‘معذرت یا متاثرہ فریق کا موقف شائع کرتا تھا کئی مرتبہ رپورٹر کو خبرباؤنس ہونے کے جرم میں نوکری تک سے فارغ کردیا جاتا مگر آج کے مادر پدرمیڈیا میں خبرباؤنس ہونے پر جھوٹ کو سچ بنانے کے لیے پورا زور لگایا جاتا ہے یا پھر مکمل خاموشی ‘آج تک مادرپدرآزاد بلونگڑے الیکٹرونک میڈیا نے شاید ہی کسی کو خبرباؤنس ہونے پر نوکری سے نکالا ہو ‘کرپشن کا یہ عالم ہے کہ اللہ کی پناہ ‘ہرکوئی بک رہا ہے اور سب کچھ بک رہا ہے ‘اخلاقیات کا درس دینے والے خود اخلاقیات کے معنوں سے بھی آشنا نہیں-صحافی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ صحافی غیرجانبدار ہوتا ہے مگر صرف سوشل میڈیا پر ہی دیکھ لیں کیسے کیسے ”فرشتہ صفت“کن لوگوں کے ترجمان کا کردار اداکرررہے ہیں کون کس کے لیے ”خدمات“انجام دے رہا ہے یہ آپ سوشل میڈیا پر بڑے بڑے نامور ”دانشورصحافیوں“کے پیج دیکھ کر اندازاہ لگا سکتے ہیں ‘معافی چاہونگا الفاظ ذرا سخت ہیں مگر ہے سچ کہ آج کے میڈیا اور رنڈی میں فرق کوئی نہیں رہا جو مال لگائے گا”بائی“اس کے لیے ناچے گی‘بات سیاست ‘سیاسی رشوت ستانی اور احتساب سے ہوتی ہوئی تعلیم پر آگئی احتساب کے بارے میں تو جان کی امان پاتے ہوئے صرف اتنا عرض کرونگا کہ جب تک ملک میں ”مقدس گائیوں“کا احتساب نہیں ہوتا اس وقت تک احتساب کا نعرہ محض اک فریب ہے ‘دھوکہ ہے اس قوم کے ساتھ جو مشرف نے قوم کو دیا تھا اور آج موجودہ حکمران دے رہے ہیں ‘سکول کے معصوم بچوں سے خطاب کرتے جب پنجاب کے ”اصل وزیراعلی“فرمائیں گے کہ میرے بچوں کرپشن ہونے دو ‘کرپشن ہوتی ہے ‘کرپشن ہونے دو تو باقی کیا رہ جاتا ہے‘جس معاشرے میں کرپشن سے دامن بچاکرزندگی گزارنے والے کو احمق اور بیوقوف سمجھا جاتا ہوں اس کا تو خدا ہی حافظ ہوا ناں‘رہا تعلیم کا معاملہ تو اس پر ماتم کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا ‘تعلیم فروش مافیا اس قدر طاقتورہوچکا ہے کہ بچاراپبلک سکول سسٹم اس کا مقابلہ کرنا تو درکنار اس کے سامنے کھڑا بھی نہیں ہوسکتا کس میں جرات ہے جو کہے کہ بندکرو یہ پوزیشنیں بیچنے کا کاروبار ‘جی ہاں حیران کیوں ہوتے ہیں کہاں سے آگئے اتنے افلاطون جو ہزارنمبروں میں سے نوسو نناوے تک نمبر لیکر پاس ہوتے ہیں اور یہی افلاطون ٹیسٹ امتحانوں میں بری طرح فیل مگر اب ٹیسٹ امتخانوں میں بھی بولیاں لگنے لگی ہیں ‘نظردوڑائیں ان بڑے بڑے نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کون ہیں جو انہیں خالصتا کاروباری بنیادوں پر چلارہے ہیں مگر ٹیکس دھیلے کا نہیں دیتے کیونکہ انہوں نے چور راستے بنا رکھے ہیں کوئی ٹرسٹ کے طور پر رجسٹرڈہے تو کوئی این جی او کس میں مجال ہے ان سے سوال کرجائے کہ کوئی سابق وزیرہے تو کوئی مشیر‘کوئی سفیرہے تو کوئی میئرایک سے بڑھ کر ایک بلا ‘رہی تعلیم تو اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں آج بھی بچے کچے سرکاری تعلیمی اداروں کے طالب علم ان کے اداروں کے طالب علموں پر بھاری ہیں ‘امریکہ میں قیام کے دوران مجھے دوتین ریاستوں کی یونیورسٹیوں میں جانے کا اتفاق ہوا ‘خوشگوارحیرت ہوئی کہ درجنوں کی تعداد میں ایسے پاکستانی طالب علم وہاں زیرتعلیم تھے جنہوں نے پاکستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی امریکی یونیورسٹیوں کے وظائف حاصل کرنے کے مقابلوں میں حصہ لیا اور تعلیم فروشوں کے پوزیشن ہولڈروں کو بچھاڑتے ہوئے امریکی یونیورسٹیوں کے وظائف حاصل کرکے وہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں ‘نوے کی دہائی کے قریب سرکاری تعلیمی اداروں کے خلاف ایک مہم کا آغازہوا یہ بات شرمناک ہے کہ اس سازش میں حکومتیں ‘محکمہ تعلیم کے اعلی حکام شامل رہے اور سنہ دوہزار کے بعد اس مہم میں شدت آنے لگی جسے گھر والے پانی کا گلاس بھی دینا پسند نہیں کرتے تھے وہ بھی زہراگلنے لگا مقصد سب کا ایک ہی تھا پبلک سکول سسٹم کی تباہی کیونکہ اس میں حکمرانوں تک کے ذاتی مفاد جڑے تھے اس بہتی گنگا میں مذہبی جماعتوں اور ان کے راہنماؤں تک نے صرف ہاتھ ہی نہیں دھوئے بلکہ غسل فرمائے ‘ہرکوئی پبلک سکول سسٹم کی خرابیاں گنواتا رہا کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو اصلاحات کی بات کرتا کہ اگر اس نظام میں کچھ خامیاں ہیں تو انہیں دور کرلیا جائے‘آج صورتحال یہ ہے مزدورکا بچہ پڑھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کہ گلی محلے میں ”دوکانیں“سجائے چھوٹے چھوٹے تعلیم فروشی کے مراکزکی فیس بھی ہزاروں تک جاپہنچی ہے ‘نوجوان بڑے تحمل سے میری”فضول“باتوں کو سن رہا تھا ‘آپ مستقبل میں کیا دیکھتے ہیں ‘مجھے اس کے سوال پر ہنسی آگئی برخودار میں کوئی نجومی ہوں اور نہ فال والے طوطے پال رکھے ہیں ایک چھوٹا سا قلم مزدورہوں ‘نہیں پھر بھی کیونکہ آپ کے پسندیدہ تمام مصنفین انقلابی ہیں ‘آپ کی ذاتی لائبریری کی کتابوں کے موضات پڑھ کر خاصاپریشان ہوا ہوں اس لیے میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ مستقبل میں کیا دیکھ رہے ہیں ‘انقلابی کہاں رہے اب‘کیوں دہشت گردی کا ٹھپہ لگوانا ہے مجھ جیسے مسکین پر بس اتنا ہی کہونگا
اساں شوہ غماں وچ ڈبدے ساھڈی رڑھ گئی ناؤ پتوار
ساھڈے بولن تے پابندیاں ساھڈے سرلٹکے تلوار
سنو میرے دوست کچھ ”پابندیاں“ہیں مگر صرف اتنا کہہ دو ایک بہت بڑی تباہی اور ایک بہت بڑاخون خرابہ مقدر ہوچکا اس دنیا کا کہ سرمایہ درانہ نظام اب اپنے اصل ”روپ“میں سامنے آنا شروع ہوگیا ہے جمہوریت نامی اس کے بدنام چہرے کا نقاب انسانیت کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے‘غریب اور امیر میں بڑ ھتے ہوئے فرق سے ایک بڑے خونی انقلاب کی راہ ہموار کررہا ہے جو اب زیادہ دور نہیں بلکہ ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہیں ‘ہم میں سے کچھ اس دستک کو سن پارہے ہیں اور کچھ جان بوجھ کر نظراندازکررہے ہیں مگر وقت کم ہی ہے اب �

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :