کیافائدہ بلدیاتی اداروں کا

جمعرات 19 نومبر 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

بلدیاتی اداروں کو جمہوری معاشروں میں نرسری کی حیثیت حاصل ہے، ان اداروں کابراہ راست عوام سے رابطہ ،واسطہ رہتاہے جبکہ دیگراسمبلیوں میں قانون سازی کاعمل جاری رہتاہے جبکہ دیگر ترقیاتی عمل ،فنڈز وغیرہ کی دیکھ ریکھ اور خرچ اخراجات انہی بلدیاتی اداروں کے ذمہ ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھاجائے تو یہ ادارے خود مختیار حیثیت کے حامل ہوتے ہیں مگر چونکہ ہمارا سیاسی ،جمہوری نظام ابھی تک بلوغت کو نہیں پہنچا اس لئے کہاجاسکتاہے کہ ہم نے اداروں کو بھی بلوغت کی حدوں میں بھی داخل نہیں ہونے دیا،بلکہ بعض سیاسی ماہرین کے مطابق ہم ان ممالک میں شامل ہیں جہاں بدقسمتی سے کوئی بھی نظام پنپ نہیں سکا ،ہمارے ہاں جمہوریت پاؤں پاؤں چلنے لگتی ہے تو آمریت کے تیز شکنجے اسے اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں ،آمریت کا یہ دور عموماً ایک عشرہ سے زائد پر محیط ہوتاہے۔

(جاری ہے)

اگر اس کے ذمہ داران کا تعین کیاجائے تو زیادہ قصور سیاستدانوں کاہی نکلتاہے کہ ان کی ناعاقبت اندیشوں کی وجہ سے بھاری بوٹوں کی آوازیں گونجتی ہیں اورپھر تمام ادارے انہیں کے نیچے دبے نظرآتے ہیں۔
اس بحث سے ہٹ کر بلدیاتی اداروں کاذکر کیاجائے تو یہ افسوسناک پہلو بھی سامنے آتاہے کہ جمہوریت پسندی کادعویٰ کرنیوالے جماعتوں نے اس بنیادی نرسری کا ہمیشہ نظرانداز کئے رکھاحالانکہ اگر بلدیاتی اداروں کو مسلسل فعال ،متحرک رکھا جائے تو جمہوری عمل کی تقویت کا باعث بن سکتاہے ۔

یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ آج تک پاکستان میں بلدیاتی انتخابات آمروں کے ادوار میں زیادہ ہوئے،جبکہ جمہوری ادوار میں ہونیوالے انتخابات بھی مشکوک ہی قرار پائے ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کا فارمولہ انہی اداروں پر آزمایا گیااس ضمن میں پنجاب کی مثال یوں بھی دی جاسکتی ہے کہ موجودہ برسراقتدار جماعت پاکستان مسلم لیگ کے ادوار میں ہونیوالے انتخابات پر حقیقی معنوں میں ”گھوڑا منڈی‘ ‘ کانمونہ پیش کرتے رہے، حکومتی اثرورسوخ ،مرضی کے نتائج کے بعد بھی رہی سہی کسر ممبران کے اغوا، خریدوفروخت ، زبردستی وفاداریاں تبدیل کرنے پر پوری ہوگئی۔


ملک میں ایک بارپھر انتخابات کاواویلا جاری ہے، کے پی کے میں انتخابی عمل کب کا مکمل ہوچکا، دوصوبوں سندھ، پنجاب میں تین مراحل میں انتخابات ہوناقرار پائے جس کے تحت اکتیس اکتوبر کو پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ، دوسرامرحلہ آج یعنی انیس نومبر کوہوگا جبکہ تیسرے مرحلے کے انتخابات پانچ دسمبرکوہونگے۔ اس کی تفصیل سے پڑھنے خوب آگاہ ہونگے کہ الیکشن کمیشن اور حکومت وقت نے بڑی مشکل اورعدالتی دباؤ کے باعث یہ انتخابات کرائے ورنہ کئی مقامات ایسے بھی آئے جب واضح لگ رہا تھا کہ حکومت انتخابات میں دلچسپی نہیں رکھتی خیر پہلے مرحلے کے انتخابات کے نتائج کے حوالے سے بازگشت ابھی تک جاری ہے، حکومت وقت کی چھتری تلے پناہ لینے والے مفاد کے پابند امیدواروں نے شیر کے نشان کو گلے لگایا اور پھر نتائج بھی حسب توقع ہے ،جہاں شیر کی بجائے آزاد امیدواروں کو برتری حاصل رہی ہے وہاں مبینہ طورپر سرکاری اثرورسوخ بڑھایاجارہاہے کہ کسی طرح سے ان آزاد امیدواروں کو ن لیگ کی کشتی کا سواربناکر مرضی کے چیئرمین بنائے جائیں۔

اس بارے میں وزیراعلیٰ کے ایک مشیر خاص بھی متحرک ہیں بلکہ بعض حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ وزیراعلیٰ کے پولیٹیکل سیکرٹری کو بھی خصوصی ٹاسک دیاجاچکا ہے کہ وہ آزاد اراکین کو کسی نہ کسی طرح ن لیگ میں شامل کرائیں تاکہ مرضی کے نتائج حاصل کئے جائیں۔ یہ مرحلہ مکمل ہونے کے بعد جب میونسپل کارپوریشنوں، ضلع کونسل کے چیئرمینوں کی باری آئے گی تو پھر خریدوفروخت ،دھونس دھاندلی کے مراحل شروع ہونگے اورپھرنتیجہ ؟؟یقینا وہی ہوگا جو آپ کے اورہمارے ذہنوں میں موجود ہے۔


آمدہ اطلاعات کے مطابق صوبائی حکومت نے بلدیاتی آرڈینس میں ترمیم کرکے بلدیاتی اداروں کو ممبران اسمبلی کی باندی بناکررکھ دیاہے، کہاجارہاہے کہ ان اداروں کا قائد ایوان المعروف چیئرمین دو ممبران اسمبلی اور اپوزیشن لیڈر ایک ممبر اسمبلی کو نامزد کرے گا جنہیں وہ ماہانہ رپورٹ دینے کے پابند ہونگے۔ اس طرز عمل کے بڑے شہروں میں شاید اتنے اثرات مرتب نہ ہوں مگر ایسے اضلاع جہاں وڈیرہ شاہی، مقامی دھڑہ بندیوں کاہاتھ ہو وہاں اس کے اثرات منفی انداز میں مرتب ہونگے۔

پاکستانی تاریخ میں پہلی بار یہ عجب مذاق رچایاگیا ہے کہ بلدیاتی اداروں کو مزید آزادی کی بجائے ممبران اسمبلی کا کاسہ لیس بناکر رکھ دیاگیا ۔اس کامقصد بھی یہی ہے کہ اگر بلدیاتی اداروں کے چیئرمین چاہیں بھی تو حکومتی شکنجے سے نکل نہ سکیں۔ گویا مختصر لفظوں میں یوں بیان کیاجاسکتا ہے کہ(بقول ایک دانشور کے) یہ بلدیاتی ادارے ”انجمن غلامان شریفین“ کاعملی نمونہ ہونگے۔

یعنی جہاں ن لیگ کو اکثریت بھی حاصل نہیں وہاں بھی غلام ہی غلام نظرآئیں گے اور بادشاہ وقت ہرسو ”آیاآیا شیر آیا“ کی صدائیں سن کر نہال دکھائی دیں گے کہ ہرسو انہی کا چرچا ہے مگر حقائق کچھ اور ہی کہتے نظرآتے ہیں۔
ہم نے پہلے مرحلے کے نتائج سے ایک بات اخذ کی کہ اگر حکومتی زورا زوری ، دھونس دھاندلی نہ ہوتو پنجاب خاص طورپر جنوبی حصہ کے لوگوں نے بری طرح مسلم لیگ ن کو دھتکار دینا ہے اگر سرگودھاڈویژن کا جائزہ لیاجائے تو ہماری بات کی پوری طرح سے تصدیق ہوجاتی ہے مگر ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ جو کسی جاگیردار، وڈیرے کی کامیابی کو کسی جماعت کی مقبولیت قرار دیکر دراصل قوم کو ورغلانے کی کوشش کرتے ہیں۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ جنوبی پنجاب آج بھی وڈیروں ،جاگیرداروں اورروایتی سیاسی گروہوں کے شکنجے میں جکڑاہوا ہے جہاں سے کسی دور میں ”روٹی کپڑا مکان“ کے نعرے گونجتے تھے تو کبھی ”مردمومن مرد حق“ کی صدائیں بلندہوتی رہیں تو کبھی ”شیر“ کی جنگھاڑیں بھی سنائی دیں ،پھرچوہدریوں کی سائیکل کاپہیہ بھی گھومتا رہا مگر موجودہ نسل نے پنجاب پر ایک ہی سکہ زیادہ چلتے دیکھا اورآج سوال کرنے پر مجبورہیں کہ شیروں کی بدولت 1988کے بعد سے اب تک پنجاب خاص طور جنوبی پنجاب کو کیا ملا؟یقینا جواب نفی میں ہی آئیگا کہ ظاہراً باتوں کے محلات کھڑے کرنیوالوں کے پلے عملی طورپر کچھ بھی نہیں؟
آخری بات کے طورپرعرض کریں گے کہ اگر بلدیاتی اداروں کو ممبران اسمبلی کا محتاج ہی رکھنا ہے تو پھرکیافائدہ اس ڈرامہ بازی کا؟ بس بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا ڈرامہ کرنے کی بجائے عوام کو ایک بارپھر سول بیوروکریسی کے حوالے ہی رہنے دیاجائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :