بلدیاتی الیکشن اور پی پی کا مستقبل۔۔۔!
ہفتہ 21 نومبر 2015
(جاری ہے)
جہاں تک آصف علی زرداری کی بات ہے تو ہمارے قارئین جانتے ہیں کہ ہم اُن کی سیاسی بازیگری کے ویسے ہی مداح ہیں اور اپنے کالموں میں اکثر اِس بات کا تذکرہ کرتے بھی رہتے ہیں ہم سمجھتے ہیں محترمہ شہید کے بعد آج اگر پاکستان پیپلز پارٹی اپنے وجودپر قائم ہے تو وہ صرف و صرف آصف علی زرداری کی زیرک قیادت اور بہترین سیاسی پینتروں کی بدولت ہے ، ورنہ نام تک نہ ہوتا نام لیواؤں میں۔ یہ آصف علی زرداری کی ہی سیاسی بازیگری ہے جس نے سائیں بھٹو کے نام کو آج بھی زندہ رکھ کر سیاسی میدان میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ زرداری صاحب کے پاس بلاول ، بختاور اور آصفہ جیسے بہترین مہرے موجود ہیں جو سائیں بھٹو کو مزید سو سال زندہ رکھنے کے لئے کافی ہیں بس تھوڑی دانشمندی اور گُڈ گورنرننس دکھانے کی ضرورت ہے۔
پارٹی کی گرتی ساکھ کو بچانے اور سندھ میں بیڈ گورنرننس کو دیکھتے ہوئے زرداری صاحب نے بلاول کوسیاست کے میدان میں تو اتاردیا لیکن پیپلز پارٹی کے دیگر سنیئر رہنما بلاول کی قیادت میں کام کرنے سے گریزاں ہیں وہ نہیں چاہتے کہ اٹھائیس سال کا نوجوان برسوں کے سیاسی تجربے رکھنے والوں کو لیڈ کرے لہذااختلافات کی صورت میں ہر کوئی مرزا بننے کی دھمکی دیتا نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دو سالوں سے بلاول پارٹی میں کبھی اِن تو کبھی آؤٹ نظر آتے ہیں۔برحال زرداری صاحب کو اِس ساری صورتحال سے جلدازجلد نمٹنا ہوگا پارٹی کی ساکھ کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ موثر اقدامات اُٹھائے جائیں تاکہ صوبے میں حکومتی رِٹ اور گُڈ گورنرننس بہتر ہوسکے ۔ بلاول کی مقبولیت میں اضافے اور عوامی حمایت یقینی بنانے کیلئے اُنھیں پارٹی قیادت کے ساتھ صوبے میں وزارتِ اعلیٰ کا قلمدان سونپنا ہوگا سائیں بھٹو نے بھی وزارتِ خارجہ سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھالہذا عوام میں مقبولیت اور سیاسی میچورٹی دکھانے کے لئے ضروری ہے کہ بلاول کو صوبائی سطح پر وزارتِ اعلیٰ کی ذمہ داری سونپی جائے ۔ اِس کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر چاروں صوبوں میں پارٹی کنوینشن منقعد کئے جائیں بلاول بختاور اور آصفہ کے ذریعے نوجوانوں کوپارٹی کے نئے وژن سے متعارف کرایا جائے تاکہ پارٹی میں نوجوانوں کی دلچسپی کو بڑھایا جاسکے عام سیاسی ورکر کو بلدیاتی سطح پر متعارف کرایا جائے تاکہ ورکر کی حوصلہ افزائی ہوسکے اور وہ نظریاتی بنیادوں پر پارٹی کے ساتھ جڑکر اہم کردار ادا کرسکے۔ یاد رکھیں جب تک پارٹی کے سنیئر رہنما بلاول پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار نہیں کرتے اور یہ بات سمجھ نہیں لیتے کہ وقت تیزی سے بدل رہا ہے ملک کا نوجوان فرسودہ نظام حکومت کو مسترد کرچکا ہے وہ تبدیلی کا خواں ہے لہذ پرانی قیادت کو پیچھے ہٹتے ہوئے نئے آنے والوں کی مثبت اندازِ فکر کے ساتھ رہنمائی نہیں کی جاتی تب تک یہ کشمکش چلتی رہے گی ۔ پارٹی قیادت اور سنیئر رہنماسمجھیں تو بلاول کی قیادت میں سندھ کو نہ صرف جدید خطوط پر استوار کیا جاسکتا ہے بلکہ دیہی علاقوں میں تعمیر و ترقی کی نئی راہیں متعین کی جاسکتی ہیں ۔ فلحال دیکھنا یہ ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے تیسرے مرحلے میں جو 5 دسمبر کو ہونا ہے پیپلز پارٹی کیا پوزیشن لیتی ہے کیونکہ پی پی کی مشکلات میں مزید اضافے کے لئے ذوالفقار مرزا کراچی میں دھول جھونکنے جارہے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
عمران احمد راجپوت کے کالمز
-
عہدِ راحیل شریف اور کراچی کے عوام۔۔۔!
جمعہ 9 دسمبر 2016
-
شادی کس سے کریں...!
بدھ 21 ستمبر 2016
-
آؤ ایدھی بنیں۔۔۔!
پیر 11 جولائی 2016
-
جوابِ شکوہ۔۔۔!
جمعرات 16 جون 2016
-
اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز قرآن وسنت کی روشنی میں۔۔۔!
اتوار 5 جون 2016
-
یومِ تکبیر ۔۔۔مجتبیٰ رفیق اور گھانس کھاتی عوام
اتوار 29 مئی 2016
-
موجودہ دور میں ماں کا کردار اور ہمارے معاشرتی رویے
منگل 17 مئی 2016
-
آفتاب احمد کی ہلاکت ۔۔۔ذمہ دار کون
ہفتہ 7 مئی 2016
عمران احمد راجپوت کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.