بلدیاتی الیکشن اور پی پی کا مستقبل۔۔۔!

ہفتہ 21 نومبر 2015

Imran Ahmed Rajput

عمران احمد راجپوت

پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی الیکشن 2015 ء مرحلہ وار اپنی تکمیل کے مراحل سے گزررہے ہیں تین مراحل پر مشتمل الیکشن کا پہلا مرحلہ 31 اکتوبرکو مکمل ہواجس میں پنجاب سے حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے امیدواربھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے پہلے نمبر پر آزاد امیدار دوسرے نمبرپرجبکہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوارتیسرے نمبر پر آئے۔

اسی طرح سندھ میں بیڈ گورنرننس کے باوجود صوبائی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے سب کوحیران کردیا۔ الیکشن کا دوسرا مرحلہ 19 نومبرکو مکمل ہواجس میں پنجاب میں مسلم لیگ ن نے باآسانی مارکہ جیت لیا جبکہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اپنی برتری برقرار رکھنے میں تو کامیاب رہی لیکن بدین ،حیدرآباد، میرپورخاص سمیت کچھ علاقوں میں بدترین شکست کاسامنا کرنا پڑا۔

(جاری ہے)

بدین میں ذوالفقار مرزا نے اینٹی زرداری مہم چلا کر پیپلز پارٹی کو زِچ کرنے کی کامیاب کوشش کی جبکہ حیدرآباد میں ایم کیوایم نے نامساعد حالات کے باوجود توقعات سے بڑھ کامیابی حاصل کی ۔بدین حیدرآباد اور دیگر علاقوں میں شکست کا سامنا کرنے پرپاکستان پیپلز پارٹی کو مقتدر عوامی حلقوں کی جانب سے مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی آہستہ آہستہ اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے۔

بدین شہر کی صرف 14 یونین کونسلوں میں مرزا گروپ کی کامیابی پر الیکٹرونک میڈیا نے وہ شور برپا کیا کہ جیسے اِس شکست کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کالعدم قرار دے دی جائیگی۔ لہذا 19 نومبر کو شام پانچ بجے کے بعد سے پاکستان بھر کا میڈیا الیکشن کی ساری کوریج چھوڑ کر ذوالفقار مرزا کو لائیو کوریج دینے کے لئے اُمڈ تا نظر آیا۔اِس بات میں شک نہیں کہ ذوالفقار مرزا بدین کی عوام کی نطروں میں اینٹی زارداری دھول جھونکنے میں کامیاب ہوگئے لیکن یہ دھول کب تک عوام کی آنکھوں میں جھونکی جاتی رہے گی اور بدین کے عوام کب تک اِس جھونکتی دھول میں گرفتار آنکھوں پر پٹی باندھے رہیں گے یہ سب دیکھنے کے لئے پاکستانی عوام کوزیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔

دوسری جانب سپریم کورٹ کے آڈر کے تحت سندھ میں نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھنے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں حیدرآباد میرپورخاص ٹھٹہ سمیت اندرونِ سندھ کے کچھ علاقوں میں نئی حلقہ بندیاں ہونے تک الیکشن ملتوی کردئیے گئے ہیں جوکہ یقینا پیپلز پارٹی کے لئے اچھی خبر نہیں ہے جس پر پیپلز پارٹی کی قیادت اور دیگر رہنماؤں کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اِس ساری صورتحال کے پیشِ نظر یہ تجزیہ لگانا مشکل نہیں کہ پی پی اِس وقت مشکل میں ہے اور پارٹی قیادت پر پارٹی کے اندر باہر دونوں جانب سے کافی پریشر ہے موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے زرداری صاحب اور پارٹی کے سنیئر رہنماؤں کو کڑوے گھونٹ پیتے ہوئے اہم فیصلے کرنا ہونگے۔


جہاں تک آصف علی زرداری کی بات ہے تو ہمارے قارئین جانتے ہیں کہ ہم اُن کی سیاسی بازیگری کے ویسے ہی مداح ہیں اور اپنے کالموں میں اکثر اِس بات کا تذکرہ کرتے بھی رہتے ہیں ہم سمجھتے ہیں محترمہ شہید کے بعد آج اگر پاکستان پیپلز پارٹی اپنے وجودپر قائم ہے تو وہ صرف و صرف آصف علی زرداری کی زیرک قیادت اور بہترین سیاسی پینتروں کی بدولت ہے ، ورنہ نام تک نہ ہوتا نام لیواؤں میں۔

یہ آصف علی زرداری کی ہی سیاسی بازیگری ہے جس نے سائیں بھٹو کے نام کو آج بھی زندہ رکھ کر سیاسی میدان میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ زرداری صاحب کے پاس بلاول ، بختاور اور آصفہ جیسے بہترین مہرے موجود ہیں جو سائیں بھٹو کو مزید سو سال زندہ رکھنے کے لئے کافی ہیں بس تھوڑی دانشمندی اور گُڈ گورنرننس دکھانے کی ضرورت ہے۔
پارٹی کی گرتی ساکھ کو بچانے اور سندھ میں بیڈ گورنرننس کو دیکھتے ہوئے زرداری صاحب نے بلاول کوسیاست کے میدان میں تو اتاردیا لیکن پیپلز پارٹی کے دیگر سنیئر رہنما بلاول کی قیادت میں کام کرنے سے گریزاں ہیں وہ نہیں چاہتے کہ اٹھائیس سال کا نوجوان برسوں کے سیاسی تجربے رکھنے والوں کو لیڈ کرے لہذااختلافات کی صورت میں ہر کوئی مرزا بننے کی دھمکی دیتا نظر آتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پچھلے دو سالوں سے بلاول پارٹی میں کبھی اِن تو کبھی آؤٹ نظر آتے ہیں۔برحال زرداری صاحب کو اِس ساری صورتحال سے جلدازجلد نمٹنا ہوگا پارٹی کی ساکھ کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ موثر اقدامات اُٹھائے جائیں تاکہ صوبے میں حکومتی رِٹ اور گُڈ گورنرننس بہتر ہوسکے ۔ بلاول کی مقبولیت میں اضافے اور عوامی حمایت یقینی بنانے کیلئے اُنھیں پارٹی قیادت کے ساتھ صوبے میں وزارتِ اعلیٰ کا قلمدان سونپنا ہوگا سائیں بھٹو نے بھی وزارتِ خارجہ سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھالہذا عوام میں مقبولیت اور سیاسی میچورٹی دکھانے کے لئے ضروری ہے کہ بلاول کو صوبائی سطح پر وزارتِ اعلیٰ کی ذمہ داری سونپی جائے ۔

اِس کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر چاروں صوبوں میں پارٹی کنوینشن منقعد کئے جائیں بلاول بختاور اور آصفہ کے ذریعے نوجوانوں کوپارٹی کے نئے وژن سے متعارف کرایا جائے تاکہ پارٹی میں نوجوانوں کی دلچسپی کو بڑھایا جاسکے عام سیاسی ورکر کو بلدیاتی سطح پر متعارف کرایا جائے تاکہ ورکر کی حوصلہ افزائی ہوسکے اور وہ نظریاتی بنیادوں پر پارٹی کے ساتھ جڑکر اہم کردار ادا کرسکے۔

یاد رکھیں جب تک پارٹی کے سنیئر رہنما بلاول پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار نہیں کرتے اور یہ بات سمجھ نہیں لیتے کہ وقت تیزی سے بدل رہا ہے ملک کا نوجوان فرسودہ نظام حکومت کو مسترد کرچکا ہے وہ تبدیلی کا خواں ہے لہذ پرانی قیادت کو پیچھے ہٹتے ہوئے نئے آنے والوں کی مثبت اندازِ فکر کے ساتھ رہنمائی نہیں کی جاتی تب تک یہ کشمکش چلتی رہے گی ۔ پارٹی قیادت اور سنیئر رہنماسمجھیں تو بلاول کی قیادت میں سندھ کو نہ صرف جدید خطوط پر استوار کیا جاسکتا ہے بلکہ دیہی علاقوں میں تعمیر و ترقی کی نئی راہیں متعین کی جاسکتی ہیں ۔

فلحال دیکھنا یہ ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے تیسرے مرحلے میں جو 5 دسمبر کو ہونا ہے پیپلز پارٹی کیا پوزیشن لیتی ہے کیونکہ پی پی کی مشکلات میں مزید اضافے کے لئے ذوالفقار مرزا کراچی میں دھول جھونکنے جارہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :