سونامی سے جھاڑوتک

ہفتہ 5 دسمبر 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

ہمارے کپتان صاحب نے یکم دسمبر کوپشاور کی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا” تحریکِ انصاف آئندہ نسلوں کی ذمہ داری لینے والی پہلی حکومت ہے ۔خیبرپختونخوا کو ماڈل صوبہ بنائیں گے ۔پہلے پشاوراور پھرضلعی ہیڈکوارٹر میں صفائی مہم شروع کریں گے“۔ اُنہوں نے ”کلین اینڈگرین“ رضاکار فورس مہم کاافتتاح کرتے ہوئے جھاڑوہاتھ میں پکڑ کرصفائی مہم کاآغازکر دیا۔

اُنہوں نے یہ بھی فرمایا ”آج ہم نے وہ کام کیاہے جوہمیں بہت پہلے کرناچاہیے تھا“۔ جہاں تک ہمیں یاد ہے کپتان صاحب نے تیسری مرتبہ خیبرپختونخوا کی طرف رجوع کیاہے ۔ وہ جب بھی قومی سیاست سے تھوڑے مایوس ہوتے ہیں تو اُنہیں خیبرپختونخوا یادآ جاتاہے ۔اِس سے پہلے بھی وہ چھ ماہ میں اسی صوبے کی تقدیربدلنے کااعلان کرچکے ۔

(جاری ہے)

اللہ کرے اب کی باروہ واقعی ایساکرنے پرآمادہ ہوں اور ”دیرآید ،درست آید“کے مصداق شاید اُنہیں احساس ہوگیاہو کہ جوکام سب سے پہلے کرکے وہ سیاسی اُفق پرنمایاں ترین مقام حاصل کرسکتے تھے ،وہ توخیبرپختونخوا کوماڈل صوبہ بناناتھا لیکن وہ ”ایویں خوامخواہ “دھرنوں میں اُلجھے رہے۔

قصور ہمارے کپتان صاحب کابھی نہیں کہ ڈھلتی عمرکے خوف سے اُنہیں وزیرِاعظم بننے کی جلدی ہی بہت تھی۔ ویسے بھی ستّر ،بہتر سال کی عمرمیں وہ وزیرِاعظم بن بھی گئے توکیا خاک مزہ آئے گا۔ پلک جھپکتے وزیرِاعظم بننے کے شوق نے اُنہیں احتجاجی سیاست پرمجبور کردیا کیونکہ اُن کے خیال میں یہ پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ اُسے قائدِاعظم کے بعد اُن جیسالیڈر میسر آگیا۔

دراصل خاں صاحب کاخیال تھا کہ قوم بڑی باشعور ہے اِس لیے وہ سوائے اُن کے کسی اورکو اپنارہنماء مان ہی نہیں سکتی اسی لیے اُنہوں نے لندن میں اپنے بیٹوں سے ملاقات کے موقعے پرکہا کہ اب اُن سے اگلی ملاقات بطور”وزیرِاعظم پاکستان“ ہوگی ۔اُنہیں یقین تھاکہ انتخابات میں تحریکِ انصاف کی دوتہائی اکثریت ”آوے ای آوے“ لیکن ہوایہ کہ” سیاسی شعور“ سے عاری قوم نے اُن کے خوابوں کا ”دھڑن تختہ“ کرکے رکھ دیا اور وہ سینئر لکھاری جوکبھی خاں صاحب کو”قائدِاعظم ثانی“ کاخطاب دیاکرتے تھے وہ بھی کہنے لگے کہ کپتان کوتو سیاست کی الف بے بھی نہیںآ تی۔

اپنے مَن مندرمیں وزارتِ عظمیٰ کی مُورت سجائے خاں صاحب کوشیخ رشید جیسے یقین دلانے والے بہت کہ انتخابات میں اُن کے ساتھ ”ہَتھ“ ہوگیا۔ اسی لیے وہ ”دھاندلی دھاندلی“ پکارتے دیوانہ وارسڑکوں پرنکل آئے اورہر اُس شخص اورادارے کو موردِالزام ٹھہرانے لگے جس کاالیکشن سے تھوڑاسا بھی تعلق بنتاتھا ۔اُنہوں نے الیکشن کمیشن ،نگران حکومتوں ،چیف جسٹس آف پاکستان ،آراوز اورانتظامیہ ،سب کے بارے میں کہاکہ یہ سب ”بکاوٴمال“ اورخریدار نوازلیگ ۔

اڑھائی سالوں میں شایدایک دن بھی ایسانہیں گزراہو گاجب خاں صاحب نے نوازلیگ پردھاندلی کاالزام نہ لگایاہو ۔سپریم کورٹ کاتحقیقاتی کمیشن اُن کی خواہش پربنا لیکن فیصلہ اُن کے خلاف آیا۔تقریباََ تمام ضمنی انتخابات میں ہزیمت کاسامنا کرناپڑا ،بلدیاتی انتخابات کے پہلے اوردوسرے مرحلے میں پھر وہی ہزیمت لیکن آفرین ہے خاں صاحب پرکہ تاحال دھاندلی کی رَٹ جاری وساری ۔


کہاں2011ء کاوہ دَور جب خاں صاحب کی سونامی کے آگے بندباندھنا مشکل بلکہ ناممکن نظرآتا تھا۔ تب قومی اوربین الاقوامی سرویز تحریکِ انصاف کی مقبولیت 34 فیصداور نوازلیگ کی 27 فیصدبتا رہے تھے اور پیپلزپارٹی کاکہیں وجودہی نظرنہیں آتاتھااور کہاں یہ عالم کہ بلدیاتی انتخابات میں خاں صاحب کوہراُس جگہ سے ہزیمت کا سامناکرنا پڑاجہاں اُن کاذاتی گھر تھا۔

زمان پارک لاہورمیں شکست، میانوالی میں شیرمان خیل وارڈسے شکست اوربنی گالہ اسلام آبادسے بھی شکست ۔یہ تینوں وہ مقامات ہیں جہاں کپتان صاحب کے ذاتی گھرہیں۔ شاید یہ اپنے گھرسے ہزیمت کاردِعمل ہے جوہاتھ میں جھاڑو پکڑے خاں صاحب اب بددُعاوٴں پہ اُترآئے ہیں ۔اُنہوں نے پشاورمیں فرمایا” الیکشن 2018ء میں ہی ہوں گے لیکن میاں صاحب کاپتہ نہیں کب خودکُشی کرلیں“۔

خاں صاحب کے اِس ”بھونڈے“ بیان کے بعدکہا جاسکتا ہے کہ حالات سے سبق سیکھناشاید اُن کی فطرت میں ہی نہیں۔دَرجوابِ آں غزل حنیف عباسی نے یہ بیان داغنا ضروری سمجھاکہ ”عمران خاں اپنے سیاسی فیصلوں کی وجہ سے کسی بھی وقت خودکشی کرلیں گے“۔ محترمہ مریم نوازنے ٹویٹ کیا”تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خاں ایک شکست خوردہ انسان ہیں،وہ کچھ بولنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیاکریں ۔

اُن کے بھونڈے ریمارکس اُن کی ذہنی حالت کے عکاس ہیں“۔ ہم توکپتان صاحب کویہی مشورہ دیں گے کہ اب اگراُنہوں نے ”جھاڑو“ پکڑہی لیاہے توپھر سب سے پہلے تواپنی جماعت کی صفائی کی طرف دھیان دیں اورجسٹس (ر) وجیہ الدین کے فیصلے کے مطابق ”صفائی“ کااہتمام کریں کیونکہ ہمارے خیال میں یہی ایک طریقہ ہے جس سے تحریکِ انصاف کواپنی کھوئی ہوئی مقبولیت دوبارہ مِل سکتی ہے اوروہ قومی دھارے میں شامل ہوکر ملک وقوم کی بہتری کے لیے بارآور ثابت ہوسکتی ہے لیکن اگرمنفی سیاست ہی اُنہیں مرغوب رہی توپھر تحریکِ انصاف کاانجام بھی تحریکِ استقلال کی طرح اظہرمِن الشمس ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :