لاپتہ لاہور نیویارک سے برآمد

پیر 7 دسمبر 2015

Muhammad Nawaz Tahir

محمد نواز طاہر

لاہور شہر نہیں ایک تہذیب کا نام ہے جہاں کے باسی ہی نہیں بلکہ یہاں کا پانی پینے والے بھی اس تہذیب میں ڈھلتے دیکھے ہیں لیکن وقت نے لاہور کو عالمی منظر کی طرح بہت بدل دیا ہے ۔ لاہور کی شناخت اور تہذیب باہر سے آنے والوں کو رنگ ،نسل ، اورمذہب کی تمیز کے بغیر خندہ پیشانی سے قبول کرنا ہے ، اسی وجہ سے لاہور کو زندہ دلوں کا شہر قراردیا جاتا ہے ۔

یہاں کے بوڑھے اور بچے پورے احترام اور وقار کے ساتھ ایک ساتھ زندگی کو ہم عمری کی طرح انجوائے کیا کرتے تھے ،جو بچے ساتھ ستر بہاریں دیکھ چکے ہوتے تھے وہ اپنے جیسے بچوں کے ساتھ ساتھ بارہ چودہ سال کے بوڑھوں کے ساتھ خوش رہتے تھے اور یہ دس بارہ سال والے ان سے عشروں کا تجربہ پا لیتے تھے ۔
اب لاہور کی شناخت باغوں ، ادبی سماجی اور سیاسی تحریکوں سے نہیں رہی ، چوبرجی ،رائل پارک اور لکشمی چوک کا نام لیتے ہی جس لاہور کا نام سامنے آ جاتا تھا ، اب یہی لاہور فوڈ سٹریٹ کے نام سے شناخت رکھنے لگا ہے ، اگر لاہور کی کوئی چیز بحال ہوئی ہے تو وہ صرف پاک ٹی ہاؤس ہے ۔

(جاری ہے)

یہی ادبی لاہور تھا ، اللہ ان سب کا بھلہ کرے جنہوں نے پاک ٹی ہاؤس کو بحال کرنے میں کردار ادا کیا ورنہ لاہور سے باہر جب کوئی پاک ٹی ہاؤس کی بات کرتا تھا تو اسے یہ بتانے میں شرمندگی ہوتی تھی کہ پا ک ٹی ہاؤس کی بلڈنگ میں شاعر کی جگہ ٹائر ہی نظر آتے ہیں تھے ۔
لاہوریئے اپنے شہر کا کلچر جہاں بھی ہو، ڈھونڈ نکالتے ہیں ، نہ ملے تو خود پیدا کرلیتے ہیں ، انڈونیشیا میں ایک ماہ کے قیام کے دوران میں نے لاہور کو جکارتہ کے’ پسر بارو‘ میں تلاش کرلیا ، وہاں کے گوردوارے میں مجھے لاہور ملا ۔


ایک لاہوریئے نے امریکہ کے شہر نیویارک میں بھی لاہور بنار کھا ہے ۔ اسے بھی نیو یارک کا ’پاک ٹی ہاؤس ‘قراردیا جاسکتا ہے ۔ آ غا محمد صالح نے ’سکھی نیویارک ‘کے نام سے سماجی تنطیم بنارکھی ہے اور نیویارک کا یہ ’لاہور‘انہوں نے ’ڈائیورسٹی پلازہ ‘ کو بنایا ہے جہاں اسی طرح لوگوں کا خیر مقدم کیا جاتا ہے جیسے باہر سے آنے والوں کو لاہور شہربانہیں پھیلا کر ویلکم کیا کرتا تھا ۔

پچھلے دنوں آغا صالح لاہور آئے تو کچھ گپ شپ رہی لیکن سیر حاصل گفتگو نہ ہوسکی ، انہیں پرانے دوستوں کی بڑی تاہنگ تھی ،کچھ تمام تر کوششوں کے باوجود نہیں مل سکتے تھے، انہیں بھی لاہور کی پرانی تہذیب کی طرح منوں مٹی نے عزیز کررکھا ہے اور ایم اے نیازی سمیت کچھ سے ملاقات ہوگئی ۔ روشن خیال شہر لاہور کے آغا صالح ترقی پسند نوجوان تھے ، روشن خیال پارٹی کے پلیٹ فارم سے لاہور سے الیکشن بھی لڑا ، پیپلز پارٹی کے متوسط خاندانوں کے لوگ کم ہی الیکشن میں کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ پاکستان کی سیاست میں نظریے پرپیسہ غالب آچکا ہے نظریاتی سکول مال و زر اور مفادات کے پہاڑروں تلے دفن ہوچک ہیں ، یہ پہاڑ جنرل ضیاء الحق نے غیرجماعتی الیکشن میں کھڑے کیے تھے ۔


کچھ گھنٹوں کی دو چار مختصر ملاقاتوں میں آغا صالح لاہور کی بدلتی حالت اور گم ہوتے آثار قدیمہ پر افسردہ ہی نظر آئے ، البتہ وہ اس بات پر بہت خوش تھے کہ ان کا نیو یارک کا’ لاہور‘ آباد ہے ۔ ان کی ہر بات میں لاہور ، امریکی ترقی ، سوچ اور ان کا’ امریکی لاہور‘ غالب تھا ۔وہ بتا رہے تھے کہ انہوں نے’ جیکسن ہائٹس ‘ میں کس طرح’ لاہور‘ آباد کیا ہے ۔

اس ڈائیورسٹی پلازے میں معمرافرادکو خاص طور پر ویلکم کیا
جاتا ہے ، یہاں پرانے ’ نوجوان‘ اور ان کے ساتھ نئی تہذیب کے’ بوڑھے ‘ کس طرح اپنی زندگی کی یادیں تازہ کرتے ہیں اور فرحت پاتے ہیں ،ان کے مطابق اگرچہ جدو جہد تو ان تھک کرنا پڑی لیکن مقامی حکام کے تعاون نے یہ جدو جہد ضائع نہیں ہونے دی جس کا نتیجہ یہ نکلاہے کہ ’ڈائیورسٹی پلازے‘ میں اب امریکہ میں بسنے والی تمام تہذیبیں اکٹھی ہوتی ہیں ، یہاں مذہب ، رنگ نسل اور سوچ کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور دوسری تہذیبوں کو بھی ویلکم کیا جاتا ہے ، یہ گھر سے باہر ایک سکھی گھر کا ماحول فرہم کرتاہے ۔

یہ آزادی اظہارِ کا ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں دنیا ن بھر میں آفات کی صورت میں انسانی دل دھڑکنے شروع ہوجاتے ہیں ور پھر یہ دل مل جاتے ہیں اور امدادی عملی کام شروع کردیتے ہیں جس سے فلاحِ انسانیت ہوتی ہے ، مختلف مواقع پر ’سکھی نیو یارک‘ اور اس’ ڈائیورسٹی پلازے ‘ میں بیرونی دنیا میں آفات پر دل دھڑکا اور تنظیم نے منظم ہوکر فنڈنگ کی ۔


میرے استفسار پر آغا صالح نے بتایا کہ امریکی ترقی کا راز بنیادی طور پر سماجی اور معاشی انصاف کیلئے تگ دو کرنے اور اپنے شہریوں کو اظہار کی آزادی فراہمی اور ملکی قوانین پر بلا تفریق عملدرآمد ہے ۔ امریکی قانون امیر اور غریب کیلئے مختلف بھی نہیں اور اس کا استعمال پیسے کے زور پر بھی نہیں ہے ۔ انسان کی تکریم ہوتی ہے اور غیر انسانی رویوں کی نفی کی جاتی ہے ۔

جب میں نے ’ڈائیورسٹی پلازے ‘ اور یہاں پرانے لوگوں کو ایک جگہ پر اکٹھے کرنے کیلئے جدو جہد شروع کی تو کسی نے اس بنیاد پر مخالفت نہیں کی کہ بوڑھے لوگ تو اب متروک ہوگئے ، ان کومل بیٹھنے کے مواقع فراہم کرنے کی کیا ضرورٹ ہے اور کیوں نہ یہاں کمرشل عمارت تعمیر کی جائے ؟بلکہ اسے اس طرح دیکھا گیا کہ اس سے فائدہ ان لوگوں کو ہوگا جو پرانی یادوں میں رہتے ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ امریکی لوگ اس قسم کے اکٹھ کو سیکیورٹی رسک نہیں سمجھتے بلکہ اس کی پذیرائی کرتے ہیں اور خوشی بھی محسوس کرتے ہیں ۔
ہمارے یہاں کے عمومی خیال کے مطابق جو امریکہ دنیا بھر میں جنگ کی مارکیٹیں ڈھونڈتا ہے ، وہاں اس قسم کی تنظیم اور پراجیکٹ کو سپورٹ کرنا اور قبروں کی طرف تکتے لوگوں کو خوشی و فرحت کے مواقع فراہم کرکے مسرت محسوس کرنا عجیب بھی لگتا ہے اور دماغ کی چولیں بھی ہلا دیتا ہے کہ جنہیں ہم کافر قراردیتے ہیں وہ ہمیں بزرگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی دینی تعلیمات پر عملدرآمد میں کتنا پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔

۔۔ ؟
ہم لاہوریئے صرف لاہور کے پرانے نام اور تہذیب پر ہی فخر کرتے ہیں اور اس کی اصل تہذیب کو بھی بھلا بیٹھے ہیں ، صرف یہی نہیں ترقی کے نام پر لاہور کی شناخت بھی تیزی سے گم کررہے ہیں ، اگلی بار آغا صالح سے ملاقات ہوئی تو سوال کریں گے کہ کس طرح مل کر اصل لاہور بحال کیا جاسکتا ہے اور کیسے بوڑھے ، لاچار اور مذہبی قیدوں سے خائف لاگوں کو ا یک جگہ بٹھا کرصرف انسانی فلاح اور خوشی کی بات کی جاسکتی ہے ۔۔۔۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :