یہ” مخصوص نشستوں “ والے!!

بدھ 9 دسمبر 2015

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کے پہلے، دوسرے اور تیسرے مرحلے میں جہاں ”آزاد گروپ“ نے ووٹ حاصل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا وہیں”مخصوص نشستوں“ پر بھی ایسے افراد کو آگے لایا جائے گا جو اس سے پہلے عملی سیاست کا حصہ نہیں رہے ۔ یوتھ کونسلر کی زیادہ سے زیادہ عمر کی حد 35سال رکھی گئی ہے جبکہ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی طرف گریجوایٹ نوجوانوں کو ”یوتھ کونسلری“ ملنے کا امکان ہے جہاں تک کسان ، مزدور کی بات ہے وہ سیٹ بھی ”گاوٴں کے وڈیرے چاچا“ کے حصہ میں آئے گی۔

اقلیتی سیٹ کیلئے خواہش مندوں کی تعداد انتہائی زیادہ ہے یہاں پارٹیز کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا یا یوں کہہ لیجئے” مصلحت“ انتہائی ضروری ہوگی۔ ہم اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے بلدیاتی الیکشن کے مراحل کی تکمیل کے بعد مخصوص نشستوں پر فی یونین کونسل 5,5 کونسلرز کا انتخاب عمل میں لانے کا عمل بھی پندرہ دسمبر سے پہلے پہلے مکمل کر لیا جائے گا۔

(جاری ہے)

پنجاب کے بلدیاتی الیکشن کا تیسرا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد 4015 یونین کونسلز، 229 میونسپل کمیٹیوں،35 ضلع کونسلز‘ 11 میونسپل کارپوریشنز اور میٹروپولیٹن کارپوریشن کے انتخابات کیلئے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ صوبے بھر میں خواتین کی تمام مخصوص نشستوں کی تعداد 9286،غیر مسلم نشستوں کی تعداد 4411 یوتھ کی تعداد 4245 مزدور، کسان کی تعداد 4356 اور ٹیکنو کریٹس کی تعداد 59 ہوگی جو جو براہ راست منتخب ہونے والوں کا بازو بنیں گے۔

جہاں تک پی ٹی آئی کی سیاست ہے پاکستان تحریک انصاف نے صوبہ پنجاب میں عام الیکشن اور ضمنی انتخابات کے بعد میڈیا پر حکومت کے خلاف بیان بازی کی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے ”دھاندلی“ کی جگہ” فراڈ“ کا لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی مرکز ی قیادت کی طرف سے مقامی نمائندوں اور تحصیل و اضلاع کی قیادت کو ’لفظ”دھاندلی“ کہنے سے روک دیا ہے تاہم اس کی جگہ پر ”فراڈ“ کا لفظ استعمال کرنے کی اشارہ دیا ہے۔

اب بات کرتے ہیں” تخت لاہور کیلئے لارڈ میئر کی“لاہور میں کامیاب ہونے والے 278 چیئرمین یونین کونسلز اپنے خصوصی نشستوں پر بالواسطہ منتخب ہونے والے ساتھی ممبران میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ساتھ جہاں” تخت لاہور “کے نئے لارڈ میئر کا انتخاب کریں گے۔ وہیں پنجاب کے تمام اضلاع بلدیاتی انتخابات کے تینوں مراحل مکمل ہونے کے بعدنئے بلدیاتی ادارے مکمل طور پر 2016ء میں قائم ہوں گے اور انکے سربراہوں کا چناوٴہوگا۔

لارڈ میئر کا عہدہ 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل مشرف کے فوجی انقلاب میں بلدیاتی اداروں کے ساتھ ہی ختم ہوگیا تھا۔ جنرل مشرف نے 2001ء میں جو نیا نظام بنایا اس میں لاہور سمیت تمام پنجاب میں ضلعی حکومتوں کے سربراہوں کو ضلع ناظم کا نام دیا گیا تھا۔ 2013ء کا نیا بلدیاتی ایکٹ منظور ہونے سے ماضی کا لارڈ میئر کا عہدہ اور میٹروپولیٹن کارپوریشن بھی بحال ہوگئی۔

پنجاب میں الیکشن کے پہلے مرحلے میں ن لیگ کی کامیابی کے بعد ہی بلدیاتی الیکشن کے رخ کا تعین ہو گیا تھا تاہم ”مخصوص نشستوں “والے بھی پارٹی کے اشاروں پر پہلے ہی ”منہ ہاتھ“ دھو کر بیٹھے ہوئے ہیں۔پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا نیوز ایجنسی میڈیا ڈورکی تازہ رپورٹ کے مطابق بلدیاتی الیکشن،2 خواتین ایک اقلیتی ، ایک یوتھ اور ایک مزدور”جیت“ کی خوشیاں منانے لگے۔

نومنتخب چیئرمین، وائس چیئرمین اور 6 جنرل کونسلرز مل کر اپنے پانچ ساتھیوں کو چناوٴ کریں گے، الیکشن میں بہترین کارکردگی والوں کا انتخاب یقینی ہے۔ماضی میں یونین کونسلوں کی بجائے میٹروپولیٹن کارپوریشن کے 150 وارڈ تھے اور ہر وارڈ کا ایک ہی کونسلر تھا۔ مگر نئے نظام میں چیئرمین، وائس چیئرمین، 6 جنرل کونسلر، 2 خواتین کونسلر، ایک اقلیتی کونسلر، ایک یوتھ کونسلر اور ایک مزدور پاکستان ممبر پر مشتمل یونین کونسل ہوگی جس کا سربراہ چیئرمین یونین کونسل بلحاظ عہدہ میٹروپولیٹن کارپوریشن کا ممبر ہوگا۔

تاہم بلدیاتی الیکشن میں افسوس ناک امر یہ رہا کہ الیکشن کمیشن نے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ نہ کرنے کی روایت برقرار رکھی ۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے جدید تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کرے۔ الیکشن کمیشن کے بڑے بوڑھے ”اپنی دنیا“ سے نکل کر جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کریں۔ بائیومیٹرک سسٹم سے بہت سی خرابیاں دور ہو سکتی ہیں ووٹر لسٹوں میں بے ضابطگیاں دور ہو سکتی ہیں۔

الیکشن کمیشن سٹیک ہولڈرز کی معاونت سے درست کرنے کی روایت ڈالے تو سیاستدان انتخابی نتائج تسلیم کرنے شروع کر دیں گے۔بلدیاتی الیکشن نے پنجاب اور سندھ میں کئی دلچسپ ریکارڈ بنائے،لاہور میں کامیاب ہونے والے 278 چیئرمین یونین کونسلز اپنے خصوصی نشستوں پر بالواسطہ منتخب ہونے والے ساتھی ممبران میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ساتھ جہاں” تخت لاہور “کے نئے لارڈ میئر کا انتخاب کریں گے۔

وہیں پنجاب کے تمام اضلاع بلدیاتی انتخابات کے تینوں مراحل مکمل ہونے کے بعدنئے بلدیاتی ادارے مکمل طور پر 2016ء میں قائم ہوں گے اور انکے سربراہوں کا چناوٴہوگا۔ وزیراعظم نوازشریف کے ووٹ کو ”ن لیگ“ بلاول بھٹو زرداری کے ”پہلے ووٹ“کو پی پی کیلئے نیک شگون کہا جاتا رہا جبکہ ن لیگ اورآزاد گروپ نے تحریک انصاف کو بلدیاتی دنگل میں چاروں شانے چت کرادیا۔

جماعت اسلامی اور عوامی تحریک کا اللہ ہی حافظ رہا۔پاکستان مسلم لیگ کے ناراض ”کارکن“ آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے،سپیکر صوبائی اسمبلی رانا محمد اقبال کے دو بھانجے اور حقیقی بیٹا ”بھاری اکثریت“ سے ہارے۔حکمران جماعت کے ایم این اے یوسف کسیلہ کے 3 بھائی بھی الیکشن ہار گئے۔ تحریک انصاف کے رہنما اشرف سوہنا کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر ”رنگے“گرفتار ہوئے۔

ہیجڑوں نے ووٹ کے ساتھ ساتھ پولنگ سٹیشن پر امیدواروں کو ”سپورٹ“ کیا۔۔لاہور کا ایک لاڈلا ووٹر بیلٹ پیپر پر ” ووٹ“کی بجائے نصیحت لکھ کر چلا آیا۔لاہور کی یونین کونسل 129 محمد دین کالونی الاسلام پبلک سکول میں ووٹر نے ووٹ بھی نہ دیا”مہر“ بھی ساتھ لے گیا۔نئے بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے یہ امر انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ لارڈ میئر کا عہدہ 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل مشرف کے فوجی انقلاب میں بلدیاتی اداروں کے ساتھ ہی ختم ہوگیا تھا۔

جنرل مشرف نے 2001ء میں جو نیا نظام بنایا اس میں لاہور سمیت تمام پنجاب میں ضلعی حکومتوں کے سربراہوں کو ضلع ناظم کا نام دیا گیا تھا۔ 2013ء کا نیا بلدیاتی ایکٹ منظور ہونے سے ماضی کا لارڈ میئر کا عہدہ اور میٹروپولیٹن کارپوریشن بھی بحال ہوگئی۔ماضی میں یونین کونسلوں کی بجائے میٹروپولیٹن کارپوریشن کے 150 وارڈ تھے اور ہر وارڈ کا ایک ہی کونسلر تھا۔ مگر نئے نظام میں چیئرمین، وائس چیئرمین، 6 جنرل کونسلر، 2 خواتین کونسلر، ایک اقلیتی کونسلر، ایک یوتھ کونسلر اور ایک مزدور پاکستان ممبر پر مشتمل یونین کونسل ہوگی جس کا سربراہ چیئرمین یونین کونسل بلحاظ عہدہ میٹروپولیٹن کارپوریشن کا ممبر ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :