دنیا تبدیلوں کی زد میں

بدھ 9 دسمبر 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

ماحولیاتی تبدیلیوں نے انسانی زندگی کے ساتھ معاشروں اور ملکوں کو پریشان کر رکھا ہے یہ سارا کیا دھرا بھی تو خود انسان کا ہے جس نے اپنے زاتی فائدئے کے لئے قدرتی ماحول کو ڈسٹرب کر کے رکھ دیا ہے اور اب سے نجات کی راہیں ڈھونڈی جارہی ہیں لیکن اپنی روش کو بدلنے کے لئے تیار نہیں، ابھی حال ہی میں موسمیاتی تبدیلیوں کے موضوع پر فرانس میں جاری اجلاس میں مذاکرات کاروں نے اہم منصوبے کا مسودہ پیش کیا ، جسے معاہدے کی صورت میں حتمی شکل دیے جانے سے موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے بچا سکتا ہے۔


فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے شمالی مضافاتی علاقے میں واقع لے بوڑے کے مقام پر 195 ملکوں کے مذاکرات کار وں نے جمع کرائے جانے والے مسودے کو حتمی شکل دے چکے ہیں۔ آئندہ چار برس کے منصوبوں اور اہداف پر مبنی یہ مسودہ موسمیاتی تبدیلیوں کے موضوع پر اب تک کے سب سے پیچیدہ معاہدے کے طور پر سامنے آ سکتا ہے جس پر عمل در آمد عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے بچنے میں موثر کردار ادا کر سکے گا۔

(جاری ہے)


سائنسدان خبردار کرتے آئے ہیں کہ دنیا کے درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ انسانوں کے لیے مشکلات بڑھتی جائیں گی۔ سطح سمندر میں اضافے سے دنیا کے کئی حصوں میں نہ صرف جزائر بلکہ آبادی والے ساحلی علاقے بھی زیر آب آسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ طوفانوں اور قحط جیسی قدرتی آفات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم زمینی درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بننے والی ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے توانائی کے حصول کے لیے تیل، کوئلے اور گیس پر انحصار میں کمی اور کاربن اسٹورنگ جنگلات کے خاتمے کو روکنا لازمی عوامل ہیں۔

طاقتور صنعتیں اور کاروباری ادارے اپنے مفادات کی خاطر ایسے عوامل کی روک تھام میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔
مذاکرات کو تقویت بخشنے کے لیے پانچ دسمبر کے دن دنیا کے مختلف حصوں سے قریب پچاس معروف شخصیات بھی فرانس میں موجود تھیں۔ امریکی اداکار سین پین کے علاوہ، امریکی عرب پتی مائیکل بلومبرگ اور چینی انٹرنیٹ ٹائیکون جیک ماء جیسی شخصیات مسودے پر اتفاق کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

مذاکرات کاروں نے مختلف اور کافی متضاد مشوروں اور تجاویز پر غور کے بعد ایک حتمی مسودہ تشکیل دیا۔ مذاکرات کار اس مسودے کو 11 دسمبر تک یعنی اس سمٹ کے اختتام تک ایک حتمی معاہدے کی شکل دینے کی کوشش کریں گے۔
شرکاء پْر امید ہیں کہ ڈینش دارالحکومت کوپن ہیگن میں 2009ء میں کسی معاہدے تک پہنچنے کی ناکام کوشش کے بعد اس بار نتیجہ مختلف ہو گا۔

یہ امر اہم ہے کہ وہ مذاکرات 2012 کے بعد کے لیے ایک ڈیل پر ہوئے تھے اور ان کی ناکامی کی وجہ امیر اور غریب ممالک کے مابین اختلافات تھے۔ بعد ازاں دو برس بعد ڈربن میں مذاکرات کاروں نے دوبارہ کسی عالمی سطح کے معاہدے کے حصول کی کوششیں شروع کیں۔
عالمی طاقتوں کے مابین اب بھی زہریلی کاربن گیسوں کے اخراج میں کٹوتی کی شرح، ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے لاکھوں ڈالر امداد اور اس کی ترسیل سمیت عالمی درجہ حرارت میں کمی کی مقدار کے حوالے سے شدید اختلافات موجود ہیں۔


فرانس میں اکٹھے ہونے ولے ایک سو پچانوئے ممالک اب بھی کوئی پائیدار حل نہ نکال سکے تو انہیں یاد رکھنا ہوگا کہ مستقبل بھیانک ہوسکتا ہے جس میں ترقی پزیر اور ترقی یافتہ ممالک کا سکون غارت ہو سکتا ہے ۔ایک تازہ تحقیق میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث مچھروں کے ذریعے پھیلنے والی بیماری ملیریا میں خاطر خواہ اضافے کا امکان موجود ہے۔

عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ملیریا کے حامل مچھر اونچے علاقوں کا رْخ کریں گے، جِس کے نتیجے میں اْن علاقوں میں مقیم لاکھوں افراد مچھروں کی پہنچ سے زیادہ دْور نہیں ہوں گے۔ یہ انکشافات موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیش آنے والے طبی خطرات کے موضوع پر ہونے والے ایک تازہ تحقیقی مطالعے کے نتائج پر مبنی رپورٹ میں کیے گئے ہیں، جو ایک امریکی سائنسی جریدے میں ابھی حال ہی میں شائع ہوئے۔


2012 میں عالمی سطح پر چھ لاکھ بیس ہزار کے قریب افراد کی موت کا سبب بننے والی بیماری ملیریا کا شمار اْن بیماریوں میں کیا جا رہا ہے، جو گلوبل وارمنگ سے پھیلیں گی۔ تحقیق کے مطابق افریقہ اور ایشیا کے علاوہ وسطی و جنوبی امریکا کے ’ٹروپیکل‘ کہلانے والے یعنی گرم مرطوب علاقوں کو اِس ممکنہ پیش رفت سے سب سے زیادہ خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

’لندن اسکول آف ہائیجین‘ سے منسلک مِینو بْوما نے اِس کی وضاحت کرتے ہوئے افریقی ملک ایتھوپیا کی مثال دی، ”درجہ حرارت میں ایک سینٹی گریڈ کے اضافے سے وہ مخصوص علاقہ جہاں ملیریا پنپ سکتا ہے، ڈیڑھ سو میٹر تک بلند ہو سکتا ہے۔ اِس سطح پر چھ تا نو ملین افراد زندگی بسر کرتے ہیں۔“
بْوما اور اْن کی ٹیم نے کولمبیا میں 1990ء تا 2005ء اور ایتھوپیا میں 1993ء تا 2005ء اونچے خطوں میں ملیریا کے ریکارڈز کا تفصیلی جائزہ لیا اور اْن کی تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ زیادہ سرد سالوں کی نسبت گرم سالوں کے دوران اونچے علاقوں میں رہنے والوں میں ملیریا انفکشن کے زیادہ کیسز رپورٹ کیے گئے۔


’یونیورسٹی آف میشیگن‘ سے تعلق رکھنے والے ماہر ماحولیات مرسڈیز پاسکوال کا اِس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ موسمیاتی تبدیلیوں کا نا قابل تردید ثبوت ہے۔ اْن کے بقول درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ اضافی افراد کو گرم اور مرطوب علاقوں میں ملیریا سے رسک لاحق ہوگا۔ وہ افراد بالخصوص زیادہ حساس ثابت ہوں گے، جو قدرے اونچے علاقوں میں رہتے ہیں اور ملیریا کے خلاف اْن کی قوت مدافعت کمزور ہے۔


جبکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق گلوبل وارمنگ کے سبب رونما ہونے والے طبی خطرات میں ملیریا وہ واحد بیماری نہیں ہے، جو پنپ سکتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، ”ڈائریا، اسہال، ملیریا اور ڈینگی بخار جیسی جان لیوا بیماریوں کے پھیلاوٴ کا امکان موجود ہے۔“
ایک اور تازہ رپورٹ کے مطابق اگر عالمی سطح پر اسی رفتار سے کوئلہ، تیل اور گیس جلتا رہا تو سن 2030 تک جنوبی ایشیا اور افریقہ کے کئی حصوں میں گرمی کی شدت میں اضافے سمیت پانی و خوراک کی کمی جیسے مسائل کے رونما ہونے کا امکان ہے۔


ماحولیات کے موضوع پر ورلڈ بینک کی طرف سے کمیشن کردہ یہ تازہ رپورٹ رواں ہفتے جاری کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر عالمی سطح پر گرمی کو کم نہیں کیا گیا، تو اس کے انتہائی منفی اثرات بہت جلد ہی دیکھنے میں آ سکتے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق اگر دنیا کے اوسط درجہ حرارت میں دو ڈگری کا اضافہ ہوا، تو اس کے نتیجے میں افریقہ میں زراعت کے لیے استعمال میں لائی جانے والی چالیس تا اسی فیصد زمین کے ضائع ہو جانے کا امکان موجود ہے۔

اس کے علاوہ اس ممکنہ پیش رفت سے جنوبی ایشیا کے کئی ساحلی شہر زیر آب آ سکتے ہیں۔ماہرین کے مطابق اس رپورٹ میں جن ممکنہ حالات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے کئی کو مناسب حکمت عملی اور ماحولیات میں بہتری کے لیے سرمایہ کاری کے ذریعے روکا جا سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :