دہرا معیار!

جمعہ 11 دسمبر 2015

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

معروف آئرش دانشور ، پلے رائٹ، ناول نگار اور شاعر آسکر وائلڈ نے کیا خوب کہا ہے"میں اتنا چالاک اور ہوشیار ہوں بعض اوقات میں جو بات کر رہا ہوتا ہوں مجھے اُس میں سے ایک لفظ کا بھی ادراک نہیں ہوتا" اُن کا یہ قول بالکل ہمارے اوپر فٹ آتا ہے۔ ہم بھی خود کو بہت ہوشیار، ذہین، مشاہدہ کرنے والا اور زیرک سمجھتے ہیں لیکن ایسا سوچنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔

بعض اوقات ہم چالاکی میں اتنا آگے بڑھتے ہیں کہ ہم اللہ کو بھی دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ وہ ہماری خودفریبی اور دھرا معیار ہے۔
میں کچھ روز قبل یک عوامی جگہ پر بیٹھا کسی کا انتظار کررہا تھا۔ میرے سامنے ایک خاتون اور اُسکی بیٹی تشریف فرما تھیں۔ عام زبان میں دونوں ماشااللہ Faishonableاور ماڈرن تھیں۔

(جاری ہے)

مغرب کی اذان ہونے لگی تو ماں صاحبہ نے پرتپاک طریقے سے اپنے کندھوں سے دوپٹہ اُٹھا کر سر پر رکھ دیا، صرف اذان سن کر ہی سر کو ڈھانپنا ایک دھرا معیار ہے کیونکہ خدا ہر وقت دیکھ رہا ہوتا ہے اور ہم ماشااللہ مسلمان بھی ہر وقت ہوتے ہیں صرف اذان کے وقت ہی نہیں، تاہم پھر بھی ماں کے اقدام کو میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

لیکن بیٹی نے جو کام کیا وہ میرے لئے باعث حیرت تھا کیونکہ اُس نے دوپٹہ سر پر رکھنے کی زحمت کرنے کے بجائے اپنا دائیاں ہاتھ اُٹھاکر سر پر رکھ دیا۔اذان ختم ہوتے ہی اپنے سمارٹ فون کے ساتھ پھر مشغول ہوگئی۔
ہمارا معاشرہ ہی دھرے معیار سے مغلوب ہے۔ سوشل میڈیا پر دیکھا جائے تو ہم لوگوں کی غیبت بھی کرتے ہیں، بہتان بھی لگاتے ہیں،حتیٰ کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اگر کسی کی برائی کی جائے بیشک اُس آدمی میں وہ برائی موجود ہو تو وہ غیبت ہے اور اگر اُس میں وہ برائی نہیں ہے تو وہ بہتان ہے جو غیبت سے بڑا گناہ ہے۔

لیکن ہم اس کام میں مشغول ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ہم یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دوسرے خراب ہیں اور ہم خود دودھ کے دھلے ہیں۔ویسے بھی پاکستان میں 13فیصد لوگ اردو اخبار پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، 3فیصد لوگ انگریزی اخبار پڑھ سکتے ہیں، یہ ہے ہماری تعلیم کا حال، اس لئے یہاں لوگوں کے پاس سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کیلئے ہوتا ہی کیا ہے۔

اگر ہم غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم سوشل میڈیا پر یا تو لوگوں کی برائیاں کرتے ہیں، یا ویب سائٹس سے ہی چیزیں اُٹھا کر اپ لوڈ کرتے ہیں، خود سے ایک لائن بھی سیدھی لکھنی نہیں آتی ہے۔ آپ کوشائد ہی کوئی پوسٹ نظر آئے گی جس میں کوئی کسی فلسفی کیQuotationیا کوئی کہاوت یا کوئی اور سبق آموز چیز خود سے تحریر کی ہو، سب بونگیاں ہی مارتے ہیں۔
اب تو بات یہاں تک پہنچی ہے کہ لوگ زیادہ لائیکنگس کیلئے کوئی پوسٹ شیئر کرتے ہیں اور کیپشن اِس قسم کے دیتے ہیں:"فحش ویڈیو دیکھئے، لڑکی نے کیسے خود کو ننگا کیا، لڑکی کی نازیبا حرکات دیکھئے"وغیرہ وغیرہ اور لوگوں کی ذہنی حالت بھی ایسی ہے کہ وہ بے قراری سے ویڈیوکو دیکھنے کیلئے اس پر کلک کرتے ہیں۔

ہم تو قرآنی آیات، احادیث مبارکہ اور اقوال ذریں بھی اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں لیکن اَپ لوڈ کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے ہیں کہ ہم خود اِن اقوال پر کتنا عمل کرتے ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم کیوں ایسی باتیں کرتے ہو جن پر خود عمل نہیں کرتے۔
ہم پورا دن لوگوں کی غلطیاں نوٹ کرتے ہوئے اُن پر کومنٹس دیتے ہیں، دوسروں کوObserveکرتے ہوئے انہیں کوستے ہیں اور اپنے اوبزرور ہونے پر فخر کرتے ہیں لیکن کیا ہم خود کو Observeکرتے ہیں ہم خود کیا ہیں، کتنے گناہگار ہیں، کتنے سچے ہیں، کتنے اچھے ہیں؟ نہیں کبھی نہیں۔

ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں لیکن اسلام کے بتائے ہوئے راستے پر نہیں چلتے۔ اللہ اور اللہ کے رسول پر بحث کرتے ہیں لیکن ان کے بتائے ہوئے راستے پر نہیں چلتے، جو ہمارا دہرا معیار ہے اورہم سب اِس دہرے معیار کا شکار ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :