ڈھاکہ کیوں پھِسلا۔ہر پہلو پر غور کریں

منگل 15 دسمبر 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

معذرت خوا ہی اچھی عادت ہے۔ خود احتسابی اس سے بھی اچھی عادت ہے۔ غلطیوں پر نادم ہوکر ان سے سیکھنا انسانوں کے لئے بھی اچھا ہے اور قوموں کے لئے بھی بہترین ہے۔لیکن ، معذرت خواہی ، غلطیوں پر ندامت اور خود احتسابی ہاتھوں میں موم بتی پکڑے کِسی نئے فیشن کا حِصّہ نہیں ہونا چاہئے۔سقوطِ ڈھاکہ کے بعد سے دھول تو بہت اُڑائی گئی مگر اتنے بڑے المیے پر سنجیدگی سے غور کم ہی ہُوا۔

یہ شاید حالات کا جبر تھا کہ ملک میں عمومی فضاء ایسی بنادی گئی کہ معاملے کے ہر پہلو پر غور نہیں کِیا گیا۔اگر اِس معاملے پر ملک میں پائی جانے والی عمومی سوچ اور لِکھاریوں اور دانشوروں کی کاوشوں پر نظر ڈالی جائے تو تصویر یہ ابھر کر سامنے آتی ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تمام تر ذمہ داری مغربی پاکستان کے سیاستدانوں، فوجی حکمرانوں اور افسر شاہی پر عائد ہوتی ہے، یا اگر نقطے کو مزید فوکس کِیا جائے تو بات پنجابی سیاستدانوں، پنجابی فوج اورپنجابی افسر شاہی کی ہو رہی ہوتی ہے، کہ اِس ٹرائیکا نے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے تمام تر حقوق سلب کرکے بنگالی بھائیوں کو علیحدگی کی راہ دکھائی اور فوجی آپریشن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بنا۔

(جاری ہے)


یہ تصویر کا صرف ایک پہلوہے۔ بات اتنی بھی سادہ نہیں۔ دانشوروں کو مغربی پاکستان کے اُس وقت کے سیاستدانوں ، فوجی اور سول حکمرانوں اور افسر شاہوں کی کو تاہیو ں پر غور کرتے ہوئے سوچ کا دائرہ ذرا وسیع کر نا چاہئے ۔ اِس بات پر بھی غور کر نا چاہئے کہ تحریکِ پاکستان کے رہنماوں اور ابتدائی گیارہ سالوں تک حکمرانی کر نے والے قائدِاعظم، لیاقت علی خان، اور بنگالی سیاستدانوں خواجہ ناظم الدین، اسکندر مرزا، محمد علی بوگرا، حسین شہید سہروردی اور نورالامین جو گورنر جنرل بھی رہے، صدر بھی ، وزیرِ اعظم بھی اور نائب صدر بھی نے کِیا کو تاہیاں کیں اور وہ مشرقی پاکستان کے عوام کی توقعات پر کیوں پورا نہ اُتر سکے اوربعد کے سالوں میں جنرل ایوب خان نے مشرقی پاکستان میں کونسے مظالم کئے اور جنرل اعظم خان کا کردار کیا رہا، جِس کے باعث مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی سوچ پروان چڑھی۔

دانشور اس پر بھی غور کریں کہ کہ تاجِ برطانیہ سے آزادی کے وقت مشرقی پاکستان کے حِصے میں تقریباً ایک سو بیس فیکٹریاں آئی تھیں مگر جنرل ایوب خان کے دور میں مشرقی پاکستان میں کارخانوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے بھی بڑھ چُکی تھی اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے لوگوں کی معاشی صورتحال میں بھی کوئی قابلِ ذکر فرق نہیں تھا، دونوں ہی حِصوں کے لوگ غربت کا شِکار تھے۔

اردو جو پاکستان کے کِسی بھی حِصے کے لوگوں کی مادری زبان نہیں تھی کو قومی زبان بنانے سے بنگالی بھائی ہی کیوں اتنا ناراض ہوگئے، یہ اعلان تو خود قائدِ اعظم نے کِیا تھا۔اِس بات پر بھی غور ہونا چاہئے کہ کیا بنگالی لیڈروں میں یہ رائے نہیں پائی جاتی تھی کہ ۱۹۴۰ کی قرارداد لاہور میں مسلمانوں کے دو ممالک کے قیام کی بات کی گئی تھی۔ دانشوروں کی طرف سے ایک تاثر یہ بھی دِیا جاتا ہے کہ علیحدگی کی وجہ فوجی آپریشن تھا۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نقاط ۱۹۶۶ میں وجود میں آچُکے تھے۔ کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ مجیب الرحمٰن ، علیحدگی کی اسکیم اگر تلہ سازش کیس کا اہم کردار تھے اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ مجیب الرحمٰن نے ۵ دسمبر ۱۹۶۹ کو مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کا نام دینے کا اعلان کر دِیا تھا۔ جنرل یحییٰ خان کے رچائے ہوئے عام انتخابات سات دسمبر ۱۹۷۰ کو ہوئے۔

فوجی آپریشن سرچ لائٹ ۲۵ اور ۲۶مارچ ۱۹۷۱ کی درمیانی شب کو شروع ہُوا۔اور اگلے ہی دِن میجر (بعد میں جنرل اور بنگلہ دیش کے صدر) ضیاء الرحمٰن کی قیادت میں منحرف بنگالی فوجی اور نیم فوجی دستوں نے ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ کو اعلانِ آزادی کر دِیا۔ اِس کے چند دِن بعد ۱۷ اپریل ۱۹۷۱ کو کلکتہ میں بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا تھا۔

یہاں سوال یہ بھی ہے کہ مُکتی باہنی کے لاکھوں افراد پر مشتمل تربیت یافتہ جتھوں کا قیام کیا چند ہفتوں میں عمل میں آگیا تھا ۔ کیا اِس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ علیحدگی کی کچھڑی فوجی آپریشن سے پہلے ہی تیار ہو چکی تھی۔ جہاں ہمارے دانشور یہ فرماتے رہتے ہیں کہ مغربی پاکستان نے بنگالیوں کو حقوق نہیں دِیے ، ان کو کمتر سمجھا اور اپنا حِصّہ تسلیم نہیں کِیا وہیں دانشوروں کو اِس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ بنگالیوں نے بھی شاید اپنے علیحدہ وطن کا خواب دیکھا تھا اور ان کو بھی جغرافیائی طور پر کٹے ہوئے سیکڑوں میل دور مغربی پاکستان کے ساتھ رہنا منظور نہ تھا۔


دانشوروں سے یہ بھی گذارش ہے کہ ” پنجابی فوج“ اور ” پنجابی سیاستدانوں“ پر بھی خوب طعنہ زنی کر تے رہیں ، مگر کبھی کبھار یہ بھی بتانے کی کوشش کر تے رہیں کہ اس سارے عرصے میں صرف دو سالوں کے لئے دو ”ظالم پنجابی“ جنکے نام چوہدری محمد علی اور فیروز خان نون تھے، وزیرِ اعظم بنے۔یہ دونوں ”ظالم پنجابی“ ایک ” معصوم بنگالی “ میجر جنرل اسکندر مرزا کی گورنر جنرلی اور صدارت کے دوران اپنے عہدوں پر فائز رہے ۔

ایک اور ”سامراجی پنجابی“ ککے زئی ملک غلام محمد تقریباً چار سال گورنر جنرل رہے ۔ آپکی گورنر جنرلی کے دوران دو ” معصوم بنگالی “ خواجہ ناظم الدین اور محمد علی بوگرا وزیرِ اعظم رہے۔ دانشور حضرات، پنجابیوں کو لتاڑتے ہوئے اِس بات کا بھی دھیان رکھا کریں کہ جنرل ایوب خان پر بھی پنجابی ہونے کی تہمت نہیں اور نہ ہی متحدہ پاکستان کے آخری دِنوں کے اہم کردار صدر جنرل یحییٰ خان اور انکے بنگالی نائب صدر نورالامین اور نہ ہی اُس دور کے سیاسی عبقری ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمٰن ” ظالم اور سامراجی پنجابی “ تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :