انقلابی لوگوں تک

جمعرات 17 دسمبر 2015

Aamir Khan

عامر خان

وزیر اعظم کی جھنگ آمد ہوئی کسانوں میں امدادی چیک تقسیم کیے جا رہے تھے کہ ایک طرف سے آواز آئی؛ جھنگ کو ڈویژن بناؤ؛ وزیراعظم صاحب کو غصہ آیا اور بولے ڈویژن بنانے کی بات کہا ں سے آگی چیک تقسیم ہو گے وزیراعظم چلے گے جھنگ کے سیا ست دان اس دوران خاموش رہے ۔ لوکل اخباروں میں اس بات کو خاصی اہمیت دی گی ۔یہ نعرہ جھنگ کے چند انقلابی لوگوں کی طرف سے لگایا گیا اور بعد میں اخبارت میں سے اس خبر کو کاٹ کر سوشل میڈیا پر لگا کر ان انقلابی لوگوں نے خوب داد وصول کی۔

اور اب پاک چین راہدرای کو جھنگ سے گزارا جائے کا مطا لبہ سوشل میڈیا پر دیکھا تو مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے منہ پر ذور دار تھپڑ مارا ہو ۔مجھے ایسا کیوں لگا اس کی کے لیے یہ چند سطریں ان انقلابی لوگوں کے نام کرنا چاہتا ہوں ۔

(جاری ہے)


لاہور سے موٹروے پر سفر کر کے بہت اچھا لگتا ہے اچھی صاف ستھری ون وے سٹرکیں سب بہت اچھا ہوتاموٹروے کو وسیع کرنے کے لیے کام جاری رہتا فراٹے مارتی گاڑیاں گزر رہی ہوتی ہیں رہنمائی کے لیے جگہ جگہ سائن بورڈ ہوتے ہیں لاہور سے آتے ہوئے ا پنے شہر جھنگ سے تیس کلومیٹر پہلے ہی موٹروے ختم ہو جاتی ہے۔

اب اس قصے کو روک دیتے ہیں دوسری طرف جھنگ میں چھ سال کی بچی اپنے والدین کے ساتھ موٹر رکشہ پر سوار نواحی علاقے کی طرف جا رہے تھے کہ سامنے سے آنے والی بس نے رکشہ کو ٹکر ماری جس سے چھ سالہ عمارہ اور اس کے والد موقعہ پر جان سے گے اور عمارہ کی والدہ شدید زخمی حالت میں ہیں ہسپتال منتقل کر دی گی اس سے پہلے جھنگ میں سات بچے جو اپنے گھر میں بے خبر سو رہے تھے اُن پر ایک ٹرک قیامت بن کے گر گیا اور سات بچے اپنے خالق سے جا ملے یہ خاندان رنگ روڑ کے ساتھ ڈھلان میں اس طرح آباد ہے کہ سڑک اُن کے گھروں کے اُپر سے گزرتی ہے ٹریک کا ایکسل ٹوٹا اور حفاظتی دیوار یا جنگلہ نہ ہونے کی وجہ سے ٹرک اُن پہ گر گیا ۔

سات بچوں پر ٹرک گر جائے یا چھ سالہ عمارہ بس کے سامنے مر جائے ہمارے جھنگ کے لوگوں افسوس کے علاوہ کچھ نہیں آتا جھنگ کے انقلابی لوگوں ایک اور افسوس کے لیے تیار رہو جھنگ ہیڈتیریموں پل جو انگریزوں نے بنایا تھاجس پر سے روزانہ ہزاروں گاڑیاں گزرتی ہیں درجنو ں دیہاتوں کا واحد راستہ ہے سب سے بڑی بات نئے پاور پلانٹ جس کا افتتاح بھی وزیر اعظم صاحب نے خود کیا تھا اس پلانٹ کی بھارمشنری بھی اس پل سے گزر کر جانی ہے جس کی معیاد کئی برس پہلے ختم ہو گی ہے اور ہر جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اس کے گرنے کا انتظار کرو ااس سا نحہ کے بعد واویلا کرکے شوشل میڈیا پر بہت شہرت ملے گی ۔

پورے جھنگ میں کوئی ون وے روڑنہیں لوگ روز مرتے ہیں جھنگ پاکستان بنے سے پہلے کا آباد ہے لیکن اس سے سلوک سو تیلی ما ں سے بھی برا کیا جا رہا ہے ۔جھنگ کا میڈتا تو ویسے کوٹھی والوں کی اجازت کے بغیر نیوز نہیں چلا سکتا نہیں تو برسوں سے جھنگ کے مین مرکز میں غیر قانونی بس اڈے قائم نہ ہوتے لاری اڈا سنسان نہ ہوتا اگر میڈیا یرغمال نہ ہوتا تو لاہور سے ملتان تک نئی بنے والی موٹر وے گوجرہ کی بجائے جھنگ سے گزرتی لاکھوں کا خرچ اور آجاتا پر جھنگ سے دشمنی کے چکر میں موٹر وے کوجھنگ سے دور جنگل نما بستی سے انٹر چینج نہ دیا جاتا ۔

ادھر لاہو ر میں میٹرو بس سروس پر اربوں کھربوں لگا کر بھی دل نہیں بھرا اورنج میٹرو ٹرین کا منصوبہ پر بھی غور کیا جا رہا ہے پر پاکستان کے ایک اس شہر میں کو ئی سنگل روڑ بھی سفر کے قابل نہیں ۔ہرشہر میں عید کے موقع پر بازاروں میں رش ہوتا تو سٹرکوں پر بھی پہلے سے زیادہ ٹریفک ہوتی ہے ٹریفک کنڑول کر نے کے لیے اخدامات بھی کیے جاتے ہیں پر جھنگ میں اس موقع پر ٹریفک کیسے کنٹرول کی جاتی ہے زرا یہ بھی سن لیں بازا ر کو جاتی واحد سنگل سٹرک پرچند پولیس اہلکار کھڑے کر دئیے جا تے جو رکشے والوں کو وہاں سے گزرنے نہیں دیتے ا پنی نظروں کے سامنے پولیس کو رکشہ والوں کو تھپڑ مار تے دیکھا ہے جب تک رکشہ والا وہاں سے چلا نہیں جاتا اُس پر تھپڑوں کی بارش جاری رہتی ہے ۔

یہ کیسا انصاف ہے سارا سال وہ لوگ بازروں کے اندر سے سواری لے جاتے ہیں اس کا کوئی نہیں کوئی نہیں پوچھتا لیکن اچانک جب انتظامیہ کو ہوش آتا تو وہ لوگوں کی عزت نفس مجروع کر دیتے ہیں ۔وزیراعلی صاحب لاہور سے باہر بھی دنیا ہے ہم انسان ہیں لوگ تو پالتو جانوروں کا بھی خیال رکھتے ہیں عمارہ کی والدہ اگر بچ گی تو وہ بیٹی کو روئے گی یا شوہر کو سا ت بچوں کی ما ں کا کیا حال ہو گا ۔

وہ رکشے والہ کیسا ہوگا جو چاند رات کو بھی بچوں کے لیے روزی کمانے نکلا تھپڑ کھا کر گھر گیا ہو گا وہ کیسے اپنے بیوی بچوں سے نظر ملتا ہو گا ۔وہ گھرجاتے تک کبھی رکشہ روکتا ہو گا روتا ہو گا پھر چلاتا ہو گا اس جنگل کے قانون کے بارے میں سوچھتا اپنے گال پر ہاتھ لگاتا ہو گا ۔انقلابی لوگوں پہلے اپنی حالت تو بدل لوبس سٹاپ کیا ہو گا رکشہ سٹینڈ بھی ہے پورے شہر میں کیا کوئی ون وے روڑ ہے مجھے تو ڈر ہے کسی روز یہ لوگ ان ون وے روڑپر ٹریفک اشارے کا مطالبہ نہ کر دیں۔

۔۔
روالپنڈی میں میٹروبس کے پل سے پتھر گرا جس ایک شخص مر گیا اس کی ہلاکت پر سارے میڈیا میں بھونچال آجانا وزیراعلی صاحب کا اُسی وقت نوٹس لینا مرحوم کے ورثا کے لیے امداد کا اعلان بھی کر دیا جاتا پر جھنگ میں سات بچوں پر پورا ٹرک گر جاتا لیکن مکمل خاموشی ہم اس ملک کے باسی نہیں ہماری لاشوں پر افسوس توایک طرف آپ ہماری لاشوں پر سیاست کرنے بھی نہیں آتے ۔میں یہ پوری زمہ داری سے کہے رہا ہوں کے میٹروابس کے منصوبے کو چھوڑ دیں اس کے افتتاح پر جتنا خرچہ آیا اگر صر ف وہی جھنگ کی سڑکوں پر لگا دیا جاتا توپورے جھنگ کے ون وے کارپٹ روڈ بن سکتے تھے ۔۔۔۔۔
ہمارے ذ ہن پر چھائے نہیں ہیں حرص کے سائے
جوہم محسوس کرتے ہیں وہی تحریر کرتے ہیں(جالب)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :