آزاد کشمیر کی موجودہ سیاسی صورتحال

جمعہ 18 دسمبر 2015

Usman Suleman Raja

راجہ محمد عثمان سلیمان

آزاد کشمیر میں عام انتخابات کا بگل بجنے میں اب بہت ہی کم وقت باقی ہے ،نئی نئی پیش بندیان اور صف بندیاں عروج پر ہیں۔آئے روز اتحاد بنے اور ٹوٹنے کی خبرین تاتر سے اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔تقربیاًتمام حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں انتخابی مہم کا غیر اعلانیہ آغاز کر چکی ہیں۔تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابات میں کامیابی کے دعوے سامنے آرہے ہیں۔

حکومتی جماعت پیپلز پارٹی جس پر کرپشن ،اقربا پروری اور کمیشن خوری کے الزامات زبان زد عام پر ہیں،بھی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر آئند ہ انتخابات میں کامیابی کے لیے پر عزم ہے۔وزراء مشیران اور حکومتی ممبران کی طرف سے سیاسی تقرری تبادلوں اورسیاسی رشوت کے طور پر سکیموں کا اجراء بھی جاری ہے۔اور حکومت کی طرف سے وفاقی فنڈ کی بندش کے نام پر احتجاج ،استعفوں کی دھمکیوں کے زریعے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

(جاری ہے)

لیکن بحثیت مجموعی پیپلزپارٹی کے لیے آئندہ انتخابات میں کامیابی ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔اور یقینی طور پر اس چیلنج کا سامنہ کرنے کے لیے پارٹی قائدین کسی حکمت عملی پر کام کر رہے ہوں گے۔اور اسکے لیے پارٹی صدرات کی تبدیلی سمیت کئی ایک آپشن پر غور کیا جا رہا ہے۔اس سلسلے میں ورکر کنونشن اور جلسے جلوسوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ پارٹی کے اندر گروپنگ بھی نظر آرہی ہے۔

جبکہ کچھ اخباری اور دیگر پارٹیوں کے قائدین کا دعوہ ہیکہ موجود وزراء کی بڑی تعداد پی ٹی آئی ،پی ایم این ایل اور دیگر جماعتوں میں شامل ہونے کا فیصلہ کر چکے اور مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ایسی صورتحال پیپلز پارٹی کو 2002والی پوزیشن میں لے جا سکتی ہے۔ایسے میں ایک جامع حکمت عملی پیپلز ارٹی کو اس صورتحال سے نکال سکتی ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی ان انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے۔

حکومتی کرپشن اور بیڈ گورئنس کاجواز بناکر انتخابی مہم کا غیر اعلانیہ آغاز ہوچکا ہے۔مسلم لیگ ن کے صدر راجہ فاروق حیدر خان اس وقت جماعت کی مضبوطی اور الیکشن میں کامیابی کی حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے مرکزی قائدین اور مقامی قائدین اورپارٹی عہدیدارن کے ساتھ ملاقاتوں میں مصروف ہیں۔کبھی مظفرآباد اور کبھی اسلام آباد میں پارٹی کے رہنماؤں سے صلاح و مشورے کرتے نظر آرہے ہیں ۔

کئی غیر فعال رہنماء بھی مکمل فعال ہوچکے اور پارٹی ٹکٹوں کے حصول کے لیے سرگرم ہیں۔کئی دیگر جماعتوں سے کئی اہم رہنماء مسلم لیگ ن کا حصہ بن چکے جن میں سے باغ سے مسلم کانفرنس کے ممبر اسمبلی سابق وزیر حکومت سردار میر اکبر خان بھی مسلم لیگ میں شامل ہوچکے اس کے علاوہ بھی کچھ رہنما بھی پارٹی میں شمولیت کرنے والے ہیں۔کچھ اخباری اطلاعات کے مطابق کچھ لوگوں کو اوپر سے پارٹی قیادت پر مسلط کیا جاسکتا ہے ایسا کوئی بھی فیصلہ مسلم لیگ کے زہر قاتل ثابت ہوسکتا ہے۔

گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں صدر جماعت راجہ فاروق حیدر خان نے مسلم لیگ ن کو جسطرح مضبوط کیا اور اپوزیش کا کردرا ادا کیا اس سے مستقبل میں کامیابی کے امکانات بڑھ رہے ہیں ۔کچھ میڈیا ادارے مسلم لیگ ن کے اندر بھی اختلافات اور گروپنگ کی خبریں تسلسل سے شائع کر رہے ہیں جنکی پارٹی کے قیادت تردید آچکی ،لیکن اس طرح کے اختلافات مسلم لیگ ن کو منزل سے دور کر سکتے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے قائدین کے لیے سب سے بڑا چیلنج ٹکٹوں کی تقسیم ہے ،اس حوالے سے کارکنوں ااور پارٹی عہدیداروں کی مشاورت کے بغیرکوئی بھی فیصلہ پارٹی کے لیے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔اس لیے پارٹی قائدین کو فوری طور پر پارلیمانی بورڈ تشکیل دے کرٹکٹوں کا فیصلہ کرنا چاہیے اور ناراض رہنماؤں کی ایڈجسٹمنٹ کرکے مضبوط انداز میں الیکشن مہم کا آغاز کر نا ہوگا۔

مسلم لیگ ن اور مسلم کانفرنس کا باب بظاہر بند ہوچکا کیوں کے پی ایم ایل کے قائدین تنہاء الیکشن لڑنے کے لیے بضد ہیں،لیکن سیاست میں کچھ حرف آخر نہیں ہوتا۔
دیگر جماعتیں جن میں مسلم کانفرنس جو ریاستی تشخص اور ملٹری ڈیموکریسی کے نعرے کے ساتھ میدان میں موجود رہنے کاتاثر دے رہی ہے،مظفر آباد کنونش کے باوجود بھی ناراض نظریاتی ساتھیوں کو بچانے میں ناکام نظرآرہی ہے کچھ ساتھیوں نے ساتھ چھوڑ دیا اور کچھ پر تول رہے ہیں ،اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مسلم کانفرنس آزاد کشمیر کی ق لیگ بن جائے گی جس کی سیاست ایک خاندان تک محدود ہے۔

سردار عتیق احمد کو فوری طور پر اس بات کا نوٹس لینا ہوگا،اور محض اپنی سیٹ کے زعم پورے کشمیر سے نظریں چرانا کرنا دانشمندانہ عمل ہوگا ۔ پی ٹی آئی جو آزاد کشمیر میں نو واردر ہے لیکن اسکی بھاگ دوڑ نظریاتی کارکنوں کے بجائے بیرسٹر سلطان جیسے سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر کھلاڑی کے پاس ہے جوماضی میں کئی پارٹیوں کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے چکے اپنے اس تجربے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہیں۔

حالیہ پارٹی تنظیموں کے اعلان کے بعدنظریاتی کارکنوں میں غم وغصہ میں اضافہ ہوا ہے۔ میر ی ناقص رائے میں پی ٹی آئی کو ایک مکمل سیاسی قوت بننے کے لیے سالوں پر محیط محنت درکار ہے ۔جموں کشمیر پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی جو گذشتہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کی اتحادی تھیں تذبذ کا شکار ہیں۔ایک طرف انکی طرف سے مسلم لیگ ن پر تنقید کی جارہی ہے اور دوسری طرف وہ اتحاد پر بھی بات کرنے کو تیار ہیں۔

جماعت اسلامی کے مرکزمیں کیے جانے والے فیصلوں کے اثرات آزاد کشمیر میں بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ جوجماعت کے لیے سود مند نہ ہوں گے۔
ان تمام حالات کے تناظر میں آزاد کشمیر کے آنے والے عام انتخابات میں گمسان کا رن پڑنے کا امکان ہے اور کامیابی اسی کی ہوگی جو ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے جامع حکمت عملی اور اتفاق سے میدان میں اترے گا۔(اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :