سیاسی فنکار

ہفتہ 2 جنوری 2016

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

ارضِ وطن فنکاروں کے معاملے میں بڑی زرخیز ۔ہم نے اداکاری ،گلوکاری اورموسیقاری کے میدان میں ایسے فنکارپیدا کیے جنہیں ہمیشہ یادرکھا جائے گا۔پھر جب فلم انڈسٹری کوزوال آیااور سٹیج ڈراموں سے بیزاری کااظہار ہواتو سٹیج فنکاروں نے الیکٹرانک میڈیاکا رُخ کیا ۔آجکل تونیوز چینلزپر بھی ایسے پروگراموں کی بھرمارہے جنہیں دیکھ کریوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے کسی گھٹیاسے تھیٹرمیں بیٹھے کوئی سٹیج ڈرامہ دیکھ رہے ہوں۔

وہی ذومعنی جملے، وہی پھکڑپَن وہی جگت بازی اوروہی بازاری زبان ۔اِن پروگراموں میں سرِعام دوسروں کی پگڑیاں اچھال کرمزاح پیداکرنے کی کوشش کی جاتی ہے جوکسی بھی زاویے سے لائقِ تحسین نہیں۔ لیکن معاملہ چونکہ ریٹنگ کاہے اِس لیے سب چلتاہے ۔اب توماشاء اللہ ہمارے ”سیاسی فنکار“ بھی اپنی ریٹنگ بڑھانے کے شوق میں بڑھکیں مارتے اورغیرپارلیمانی زبان استعمال کرتے نظرآتے ہیں ۔

(جاری ہے)

پہلے توصرف محترم الطاف حسین ”اوئے جاگیردارا“ ٹائپ ”بڑھکوں“ پرانحصار کیاکرتے تھے لیکن اب توجابجاایسے ہی ”سیاسی فنکاروں“ سے پالاپڑتا رہتاہے ۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ میدانِ سیاست میں جوجتنا بڑا فنکار، اُتناہی کامیاب ۔ہمارے خادمِ اعلیٰ کبھی موٹرسائیکل کے پیچھے بیٹھ کراور کبھی ”گوڈے گوڈے“ پانی میں اُترکر سیاسی فنکاری کے جوہردکھاتے رہتے ہیں ۔

اپنے پچھلے پانچ سالہ دَورِحکومت میں وہ ”نام بدلنے“ اور”سڑکوں پر گھسیٹنے “جیسے دعوے اکثرکرتے رہتے تھے ۔مینارِپاکستان پراپنے ہاتھ سے پنکھاجھلتے خادمِ اعلیٰ توآج بھی سبھی کویاد ہوں گے ۔یہ یادیں تواُس وقت ”تازہ بہ تازہ“ ہوجاتی ہیں جب گھرمیں ”مَرجانی“ بجلی ہوتی ہے نہ”ٹُٹ پَینی“ گیس ۔کبھی چھ ماہ اورکبھی دوسال کے دعوے تو ہَوا ہوگئے اب شنیدہے کہ دسمبر 2017ء تک لوڈشیڈنگ کاہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے گالیکن
تیرے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مَر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
خادمِ اعلیٰ توایسے ”ڈرامے“ اکثرکرتے ہی رہتے ہیں لیکن میاں نواز شریف صاحب کوہم نے 29 دسمبرکوپہلی بار اُس وقت سیاسی فنکاری کے جوہردکھاتے دیکھاجب اُنہوں نے جی پی او مری کی سیڑھیوں پر بیٹھ کرمری کے باسیوں سے خطاب کیا ۔

لوگ حیران اورہم پریشان کہ وزیرِاعظم صاحب بغیرکسی پروٹوکول اورحفاظتی حصارکے جی پی اوکی سیڑھیوں پرآلتی پالتی مارکر بیٹھے خطاب کررہے تھے ۔یہ کوئی امیرالمومنین حضرت عمر کادَورتو ہے نہیں کہ وہ جب کام کرتے کرتے تھک جاتے تومسجدِ نبوی کے فرش پرہی سوجاتے، کوئی حفاظتی حصار نہ پروٹوکول ۔یہ تواکیسویں صدی ہے جس میں کراچی کے ہسپتال میں”شہزادہ بلاول“کی آمدپر 10 ماہ کی بچی”بِسمہ“ نے محض اِس لیے دَم توڑدیا کہ ہسپتال کے سارے دروازے اُس شہزادے کی حفاظت کومدِنظر رکھتے ہوئے بندکر دیئے گئے ۔

بسمہ کاباپ اپنی بچی کو ایمرجنسی تک پہنچانے کے لیے ہسپتال کے بیرونی گیٹ کوٹکریں مارتارہالیکن اُسے ہسپتال میں داخل ہی نہیں ہونے دیاگیا ۔بچی کی ہلاکت پرسندھ کے وزیرِصحت نے فرمایاکہ موت کاوقت مقررہے اورہسپتالوں میں توایسا ہوتاہی رہتاہے ۔دوسرے وزیربا تدبیرنثارکھوڑو کاجواب تھاکہ اُنہیں بلاول کی جان عزیزہے اِس لیے حفاظتی حصارتو ہوگا ۔

سوال یہ ہے کہ جب موت نے سات پردوں میں چھپے شخص کوبھی آ گھیرناہے توپھر شاہوں، شہنشاہوں ،شہزادوں، شہزادیوں اور مصاحبوں کے لیے حفاظتی حصاراور پروٹوکول کیوں ؟۔ مجھے اُس باپ کی بے بسی اوربے کسی پرسب سے زیادہ تَرس اُس وقت آیاجب کہنہ سال سیاسی فنکارسیّدقائم علی شاہ لیاری میں بِسمہ کے گھرگئے اوراُن کی واپسی پروہی باپ جوہسپتال کے گیٹ پردھاڑیں مار مارکر روتے ہوئے فریادکر رہاتھا کہ پروٹوکول نے اُس کی بچی کی جان لے لی ،اُسی نے قائم علی شاہ کی موجودگی میں تھرتھراتے ہونٹوں سے کہا کہ یہ اللہ کی مرضی تھی ،اِس میں حکمرانوں کا کوئی قصورنہیں۔

بعد میں نوجوان سیاسی فنکاربلاول زرداری بھی بے بَس باپ کے گھرپہنچے لیکن چونکہ وہ نَووارد ونَو آموز تھے اِس لیے اپناوہ تاثرقائم نہ کرسکے جوسیاسی فنکاروں کا خاصہ ہے ۔ویسے بھی وہ گاہے گاہے ہی نظرآتے ہیں، پیپلزپارٹی کی باگ ڈورتو اب بھی دبئی میں بیٹھے آصف زرداری صاحب کے ہاتھ میں ہے جن سے بڑاسیاسی فنکار پاکستان کی سیاسی تاریخ نے دیکھانہ سُنا۔


الیکٹرانک میڈیاپرشیرخوار بِسمہ کی ہلاکت کاشوراُٹھنے کے بعدکپتان صاحب نے بھی اپنا حصّہ ڈالناضروری سمجھا ۔اُنہوں نے یکلخت ”کھڑاک“ کردیا کہ خیبرپختونخوا میں وی آئی پی پروٹوکول ہوگا نہ وی وی آئی پی۔اُنہوں نے یہ بھی فرمایاکہ وزیرِاعظم کی آمدپر بھی روٹ لگے گانہ سڑکیں بند ہوں گی ۔جب چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا نے 26دسمبر کوصوبے میں وی آئی پی پروٹوکول پرپابندی کانوٹیفیکیشن جاری کیاتو ہم بڑے خوش ہوئے کہ کے پی کے میں اِس پابندی کے بعد دوسرے صوبے بھی اِس کی پیروی پرمجبور ہوجائیں گے اوریوں اِس ”ناہنجار“ پروٹوکول سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات مِل جائے گی لیکن”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ،جو سُنا افسانہ تھا“۔

صوبے کے وزیرِاعلیٰ ہمارے ”تیلی پہلوان“ نوٹیفیکیشن کی ”ایسی تیسی“ کرتے ہوئے آج بھی پروٹوکول کی 11 گاڑیوں کے ساتھ دندناتے پھرتے ہیں۔پشاور میں شوکت خانم کینسرہسپتال کی افتتاحی تقریب کے موقعے پرکپتان صاحب کے لیے پروٹوکول کایہ عالم کہ ہسپتال جانے والی ہرسڑک کوبند کردیا گیا ۔دراصل پروٹوکول توویسے کاویسا ہی ہے ،ہوا صرف یہ کہ پروٹوکول کانیا نام ”سکیورٹی تفصیلات“ رکھ دیاگیا ہے۔

صوبے کے افسران کہتے ہیں کہ وہ ”بلیوبُک“ پرعمل کرنے کے پابندہیں ،خاں صاحب کے احکامات پرنہیں ۔کیایہ سیاسی فنکاروں کی فنکاری کابہترین نمونہ نہیں کہ پورے پاکستان میں پروٹوکول جاری وساری اوررہبرانِ قوم آج بھی یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ وہ توپروٹوکول کے سخت مخالف ہیں۔ سچی بات تویہی کہ ہمارا اِن سیاسی فنکاروں کی اِس پختہ اورمنجھی ہوئی اداکاری پرعش عش کرنے کوجی چاہتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :