نریندر مودی کا سرعا م ’ خفیہ ‘ دورہ

جمعرات 7 جنوری 2016

Ammar Masood

عمار مسعود

مبصرین کرام بھی کمال کرتے ہیں۔ اڑتی چڑیا کے ایسے، ایسے پر گن لیتے ہیں جن سے چڑیا بھی بے خبر ہوتی ہے۔ دور کی ایسی کوڑی لاتے ہیں کہ موضوع بحث ہی کوڑا کرکٹ ہو جاتا ہے۔ ایسے اندازے ، تخمینے، اندیشے اور امکانات کی طرف روشنی ڈالتے ہیں کہ چاروں اور اندھیرا ہو جاتا ہے۔ ایسے خواب دیکھتے ہیں ہیں کہ منظر چاہے کتنا ہی خوش کن کیوں نہ ہو ، تعبیر بھیانک ہی نکلتی ہے۔

خبر کو خواہش بناتے ہیں اور پھر اس خواہش کو ذہنوں پر مسلط کرتے ہیں اور طرفہ یہ کہ پھر مطلوبہ نتائج نہ حاصل ہونے پر ایک نئی خواہش کا اظہار کر دیتے ہیں ، ایک نئے بھیانک خواب کی لذت میں کھو جاتے ہیں۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ پاکستان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلوک کیا گیا۔ کسی نے اسے دو وزراء اعظم کے درمیان ذاتی تعلقات کی تجدید قرار دیا تو کسی نے اسے اتفاق گروپ کے کاروبار سے متعلق ایک دورہ تعبیر کیا۔

(جاری ہے)

کسی نے اسے نریند ر مودی کا پچھتاوا بتایا اور کسی نے اسے پاکستان کی اندورنی صورت حال پر گہری زک قرار دیا۔ کوئی اس تاویل پہ مصر ہو گیا کہ بھارت اس اچانک دورے کے ذریعے وسط ایشیاء کے تمام خزانوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور کوئی اسے جماعت اسلامی کی خلاف دونوں ملکوں کا الحاق قرار دینے لگا۔ایک صاحب دور کی یہ کوڑی لائے کہ ملاقات کے موقعے پر وزیر اعظم کے صا حب زادوں کی موجودگی دراصل سٹیل کے کاروبار کے ایک ٹھیکے کی وجہ سے تھی اور اسی وجہ سے بھارتی جانب سے بھی سٹیل کے کچھ بین القوامی تاجر ملاقات میں موجود تھے ۔

ایک صاحب نے تو اسے وزیر اعظم پاکستان کی خوش خوارکی اور مہمان نوازی کا شاخسانہ تک قرار دے دیا۔نواز شریف کی نواسی کی شادی پر قیمتی تحائف کا تبادلہ ہی کچھ لوگوں کو اس دورے کامقصد نظر آیا اور کچھ سیکورٹی کے لیئے اس دورے کو ایک بڑا خطرہ بتا کر ہی شتاب ہو گئے۔ ایک صاحب نے تو نریندر مودی کی بغیر ویزے کے پاکستان میں آمد کی پاداش میں ساری خارجہ پالیسی کو ہی توم ڈالا۔

کچھ اسے وزیر اعظم نواز شریف کی سالگرہ پر بھارتی وزیر اعظم کا ذاتی مراسم کی بنیاد پر نجی دورہ قرار دینے لگے اور چند افراد کو بابائے قوم قائد اعظم کے یوم ولادت پر اس دورے میں پاکستان کی نظریاتی اساس خطرے میں نظر آنے لگی اور چند احباب نے اسے بھارت کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی صریحاخلاف ورزی قرار دے دیا۔ کچھ نے لاہور میں اس ملاقات کے ہونے کو عسکری اداروں کے خلاف ایک سازش قرار دیا اور چند مبصرین نے اسے اداروں کو بے خبر رکھنے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ بنا کر پیش کیا۔


بدقسمتی سے ہم خارجہ امور پر اسطرح بحث کرتے ہیں جس طرح محلے کی خواتین گلی محلے کے پیچدہ سیاسی مسائل پر بحث کرتی ہیں۔ فلاں نے فلاں وقت پر مجھے یہ کیوں کہا تھا؟ زیادتی انکے بچوں کی تھی؟نمک مرچ مانگننے پر کیوں نہیں دیا تھا؟ وہ ہمارے ہاں فوتگی پر کیوں نہیں آئے تھے؟ انکی خوشی کی تقریب میں ہم کیوں جائیں؟انکے گھر کی ملازمہ ہمارے گھر کیوں نہیں کام کرتی؟ انکے گھر نیا ٹی وی آیا ہے تو ہمارے بچوں کو کیوں دیکھنے نہیں دیتے؟سردیوں میں انکے گھر کا پیڑ ہمارے آنگن کی دھوپ کیوں روک لیتا ہے؟ہم نے تو انکے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کیا اب انکو ہی شرم کرنی چاہیے؟ پچھلی لڑائی کا پہلے بدلہ چکائیں تو آگے بات ہو گی؟ہم سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگیں تو سوچیں گے؟سارے مسئلے پر آج ہی بات ہو گی؟ آج ہی فیصلہ ہو گا؟ آج ہی نتیجہ نکلے گا؟
عزیزان من، ملکوں کے مابین خارجہ امور اس طرح کی گفتگو سے کہیں سنجیدہ معاملات ہوتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملات کی یہ سنجیدگی دیرینہ رقابتوں کی وجہ سے کہیں زیادہ کٹھن ہو گئی ہے۔ دونوں ممالک کی عوام کا ایک طبقہ ایک دوسرے کو دیرینہ دشمن قرار دیتا ہے۔بات چیت، گفتگو اور مذاکرات کو شکست سے تعبیر کرتا ہے۔ ایک دوسرے کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا چاہتا ہے۔فتح اور شکست کے درمیان انکو کچھ نہیں سوجھتا۔نفرت کا بیج اتنا زرخیز ہے کہ اب اس پر محبت کے پھول نہیں کھل سکتے۔

دونوں ممالک میں ایک دوسرے کی پذیرائی کی نہ کوئی روایت ہے نہ ہی اسکا امکان دکھائی دیتا ہے۔دونوں جانب سے انتہا پسند طبقہ امن کی کسی بھی کاوش کے خلاف ہیں۔ گولہ باردود کی گھن گرج میں لوگوں کو مریضانہ لذت ملتی ہے۔ اختلاف در اختلاف کا لطف آتا تھا۔آزادی کے وقت ہونے والا خون اب بھی لوگوں کے ذہنوں پر سوار ہے۔
ہمارے پڑوسی ملک کی آبادی ایک ارب سے زیادہ ہے۔

نریندر مودی ان ایک ارب سے زائد لوگوں کے وزیر اعظم ہیں۔ پاکستان بھی خطے کا ایک اہم ملک ہے۔ ہماری آبادی بیس کڑوڑ افراد سے زیادہ ہے۔ دونوں ممالک اپنے اندرونی مسائل سے برسر پیکار ہیں۔ دونوں ہی ممالک دنیا کی نیوکلئیر طاقتوں میں سے ایک ہیں۔ جمہوری طور پر فی الوقت پاکستان کی حکومت ، بھارتی حکومت کی نسبت زیادہ بہتر پوزیشن میں ہے۔ پاکستان میں اپوزیشن کی جماعتیں اپنے اپنے کرتوتوں کا خمیازہ بھگتنے میں لگی ہوئی ہیں۔

حکومت وقت کو جمہوری طور پر کسی بڑے چیلنج کا بظاہر سامنا نہیں ہے۔ بھارتی حکومت کی صورت حال اس بر عکس ہے ۔ وہاں مودی حکومت کا سحر ختم ہوتا نظر آتا ہے۔ اپوزیشن مظبوط ہوتی جارہی ہے اور عوامی احتجاج بڑھتا جا رہا ہے۔ایسے میں نریندر مودی کا یہ دورہ حکومت پاکستان کے لیئے تو خوش آئند بتا یا جا سکتا ہے مگر بھارتی اپوزیشن کو رویہ اس پر جارحانہ ہے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس اچانک دورے کا سیاسی نقصان مودی حکومت کو پہنچ سکتا ہے نواز شریف حکومت کو نہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہر سیاسی جماعت کی جانب سے اس دورے خوش آئند قرا ر دیا گیا ہے۔عسکری اور سیاسی قیادت ایک پیج پر نظر آئی ہیں۔ہر جانب سے اس دورے کا خیر مقدم ہی کیا گیا ہے۔ابھی تک اعتراض اور اختلاف کی کوئی صورت حال نظر نہیں آئی۔

اس دورے سے متعلق چند بنیادی باتوں کو مدنظر رکھنا از حدضروری ہے۔یہ دورہ بیک ڈور ڈپلومیسی کی بہترین مثال ہے۔ مذاکرات کی بساط ابھی سنجیدگی سے سجی ہے ، پہلی چال پر ہی مات یا فتح نہیں ہو سکتی۔دنیا بھر میں ایسے گھمبیر مسلوں پر بات چیت کے آغاز کے لیئے بااثر کاروباری شخصیات کی مدد لی جاتی ہے، کیونکہ اس دور میں معاشیات اور سیاسیات الگ الگ مضمون نہیں بلکہ یہ زمانہ پولیٹیکل اکانومی کا ہے۔

پاکستان کی سیکیورٹی اداروں کی مرضی ، منشاء اور تائید کے بغیر اس دورے کا ہونا ممکن نہیں تھا۔ خارجہ سیکریٹریوں کی جنوری میں ہونے والی ملاقات میں سب معاملات پر بات ہوگی اور ان سب معاملات میں کشمیر کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ اس سار ی کاوش میں چین اور امریکہ کی تائید بھی شامل ہے۔ یہ صرف ایک ابتداء ہے اور اچھی ابتداء ہے اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔


ہم جس دورے ابتلاء سے گزر رہے ہیں وہاں تیسر ی جنگ عظیم کا خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ دہشت گردی ایک افریت بن کر دنیا کو چاٹ رہی ہے۔ بربریت کے آثار فرانس تک پہنچ گئے ہیں۔ ملکوں کے درمیان جنگیں پھوٹ رہی ہیں۔ انسان پر ظلم بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ایسے ماحول میں پاکستان ، افغانستان اور بھارت دنیا کی نظروں کا محور بنے ہوئے ہیں۔ان تینوں ممالک کی صورت حال ازحد نازک ہے ۔

ذرا سے غلطی کے نتائج بہت بھیانک ہو سکتے ہیں۔
امن انسان کی عالمی خواہش ہے اور اس خواہش کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اسکے لیئے ہر حد سے گزر جانا مستحسن ہے۔نریندر مودی کے دورہ پاکستان کی اس موقع پر پذیرائی نہ کرنا زیادتی ہوگا۔ ابتداء انہوں نے کر دی ہے اب ایک قدم ہم کو بڑھانا ہو گا۔ مسائل کو سلجھانا ہو گا۔اثبات کو اپنانا ہو گا۔ ممکنہ روکاوٹوں کو عبور کرنا ہوگا۔

جوشیلے خطیبوں ا ور اختلافی گروہوں کو روکنا ہوگا۔ خطے میں امن کو سوچنا ہو گا۔
رہی بات سٹیل کے کاروبار کی تو ایک ارب آبادی والے ملک کے وزیر اعظم کو بیس کڑوڑ آبادی والے ملک کے وزیر اعظم سے اگر کوئی ایسا معاملہ کرنا ہوتا تو کسی ایک ہرکارے کو ہلکا سے اشارہ کر دینا ہی کافی ہوتا اس کے لیئے ایک ارب آبادی والے ملک کے وزیر اعظم کو اپنے جہاز کا رخ نہ تبدیل کرنا پڑتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :