اپنا خوں ہم چاٹ چکے

جمعرات 14 جنوری 2016

Jahid Ahmad

جاہد احمد

تمام تر مذہبی جذباتیات اور عقیدت مندی کی گٹھڑی بنا کر کسی اونچے کھونٹے سے ٹانگنے کے بعد محض پاکستانی شہریت اور مفاداتِ ریاستِ پاکستان کے تصور کو سامنے رکھتے ہوئے سوال ہر گز یہ نہیں کہ عسکری قیادت نے کیوں سعودی وزیرِ دفاع سے سعودی سرحدوں کو لاحق کسی بھی خطرے کے پیشِ نظرپاکستان کی جانب سے بھرپور ردِ عمل کی یقین دہانی کرائی بلکہ سوال یہ ہے کہ عسکری قیادت نے کن اختیارات یا مینڈیٹ کے تحت سعودی وزیرِ دفاع سے ایسے دفاعی عہد و پیماں کیے اور ان یقین دہانیوں کی نوعیت و غایت کیا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ ریاستِ پاکستان میں منتخب جمہوری حکومت کی موجودگی کے باوجود کیوں کسی بھی غیر ملکی عہدیدار کو منتخب حکومتی نمائندوں سے پہلے عسکری قیادت سے ملاقات کی ضرورت پیش آتی ہے؟ یقینا جواب یہ ہے کہ ریاست کی بنیادیں ابھی اتنی گہری نہیں اور نہ ہی حکومت اتنی قابل اور مستعد ہے کہ ریاستی اداروں کو اپنے مکمل تابع کر سکے۔

(جاری ہے)

اختیارات کی کشمکش نو مولود ریاست کے ارتقائی عمل کا لازی عنصر ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا تا وقتکہ ریاست اور حکومت طاقت نہیں پکڑ لیتے اور ادارے اپنی حدود کو سمجھ نہیں لیتے!
اصولی طور پر مضبوط و مستحکم ریاستوں میں ریاستی ادارے اپنی اپنی جگہ پر رہ کر حکومت کی قائم کردہ حدود و قیود میں اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔قانون سازی عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے سے پارلیمان کا استحقاق ہوتی ہے ۔

اسی طرح قومی نوعیت کے اہم معاملات کو حکومت کی جانب سے پارلیمان میں بحث مباحثے کے لئے پیش کیا جاتا ہے تاکہ عوام کی نمائندہ پارلیمان کی اجتماعی دانش سے حکومتِ وقت ایسے متفقہ حل یا لائحہ عمل تک پہنچ سکے جس کی بنیاد پر کئے گئے فیصلے متفقہ قومی سوچ اور رائے کے عکاس ہوں نہ کہ کسی فردِ واحد یا مخصوص ریاستی ادارے کی بالادست سوچ کی نمائندگی کرتے دکھائی دیں۔

پاکستان کی حالیہ صورتحال اس بات کی شاہد ہے کہ ریاست کی خارجہ پالیسی فی الوقت ایک سے زائدریاستی اکائیوں کے زیرِ اثر تشکیل پا رہی ہے اور کسی بھی ایک خارجی معاملے پر ایک سے زائد بیانیے سامنے آرہے ہیں۔ سعودی وزیرِ دفاع سات گھنٹے کے دورے پر مخصوص مفادات کے حصول کے مقصد سے پاکستان آتے ہیں تو حکومت کا بیانیہ غیر جانبداری کا تاثر دیتے ہوئے یوں سامنے آتا ہے کہ سعودی ایران تنازعہ سفارتکاری کے ذریعے پر امن طور پر حل ہونا چاہیے جبکہ آئی ایس پی آر عسکری قیادت کی جانب سے سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو درپیش کسی بھی خطرے کی صورت میں عملاٌ پاکستان کے فریق بننے کا بیانیہ پیش کرتی ہے جو مذہبی تناظر میں زیادہ ولولہ انگیز ہے اور براہ راست پاکستان کا جھکاؤ سعودی عرب کی طرف ثابت کرتا ہے یوں ایک ہی وقت میں ایک ہی مسئلے پر ایک ہی ریاست کے اندر دو مختلف اور متضاد خارجہ پالیسی بیانیے دو ریاستی اکائیوں کی جانب سے سامنے آتے ہیں، جن میں سے ایک اکائی اصولی طور پر کسی صورت اس کام کو کرنے کا نہ ہی باقائدہ اختیار رکھتی ہے اور نہ ہی یہ اس اکائی کا شعبہِ مہارت ہے۔

جبکہ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ خطرہ سعودی سرحدوں کو نہیں بلکہ السعود خاندان کی بادشاہت کو ہے جو اپنی سلطنت میں اپنی بادشاہت کے خلاف اٹھنے والی کسی بھی آواز کو کوڑوں اور تلواروں کی سنسناہٹ میں دبا دیتی ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تنازعات کی ایک مکمل اور بھرپور تاریخ موجود ہے۔ مشرقِ وسطی آج بھی ان دو ممالک کی سرد جنگ میں جل رہا ہے۔

مسلک کی بنیاد پر مشرقِ وسطی میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا اور نئے نئے تنازعات جنم دینا ان دونوں استحصالی حکومتوں کا محبوب مشغلہ ہے۔ اس پس منظر کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی کیوں پاکستان کسی بھی طرح، کسی ایک فریق کی، کسی بھی نوعیت کی، کسی بھی سطح پر حمایت کر کے مسلکی تنازعہ کا حصہ بننا چاہتا ہے؟ کیوں!جبکہ پاکستان کے پاس ایسے ہی ایک تنازعہ پر فیصلہ سازی کے عمل کی حالیہ مثال موجود ہے جب محض چند ماہ پہلے سعودی یمن معاملے پر سعودی عرب کی بھر پور کوشش کے باوجود پاکستانی حکومت پارلیمان کے رستے سے پاکستانی ریاست کو سعودی یمن مسئلے سے دور رکھنے میں کامیاب بھی رہی اور اسی بدولت بہت سے اندرونی و بیرونی تنازعات سے محفوظ بھی رہی تھی۔

اب یہ صرف حکومتی نااہلی ہی گردانی جا سکتی ہے کہ اس اہم مسئلے کو بر وقت پارلیمان میں کیوں نہ لے کر جایا گیا۔
سعودی وزیرِ دفاع کے دورے کے بعد حکومت اس معاملے کو پارلیمان میں لے بھی جا رہی ہے تو یہ اس ادارے کا کڑا امتحان ثابت ہو گا کہ عسکری قیادت کی جانب سے جاری کردہ بیانیے کو کس طریقہ سے غیر جانبداری کے سانچے میں ڈھالا جاتا ہے ۔ لیکن یہ طے ہے کہ اجتماعی سوچ اور فیصلے کی کامیابی کا امکان ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے۔

سعودی ایران معاملے پر پاکستان کا ایک شیشے کی طرح صاف خارجہ پالیسی بیانیہ حکومتی سطح پر سامنے لانے کی ضرورت ہے۔پاکستان صرف اور صرف غیر جانبدار رہ کر ہی تنازعہ کے حل کے لئے اپنے آپ کو پیش کر سکتا ہے۔ پاکستانی قوم کی سعودی عرب اور ایران سے جذباتی وابستگیاں اپنی جگہ، لیکن یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ سعودی عرب ہی نے ماضی میں پیٹرو ڈالرز پاکستان میں بدترین دہشت گردی کے بیج بونے میں خرچ کئے ہیں اور وطنِ عزیز آج بھی اس عفریت سے نبرد آزما ہے۔

دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ایران پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے جہاں مطلق العنانیت کا دور دورہ ہے اور ماضی میں ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اونچ نیچ کا شکارضرور رہے ہیں مگر بہر طور اپنے ہمسائے سے بہتر تعلقات استوار کرنا بھی ازحد ضروری ہے ۔
اگر پاکستان اپنا مستقبل ایک پرامن، متحمل مزاج، جدید جمہوری ریاست کے طور پر دیکھتا ہے تو پھر پاکستان کسی صورت سعودی بادشاہت اور ایرانی آمریت کی نہ ختم ہوتی فرسودہ و بوسیدہ جنگ کا حصہ نہیں بن سکتا! پاکستان کو نہ مزید پیٹرو ڈالر چاہییں اور نہ مذہب کے نام پر لاشیں۔چاہیے تو ترقی چاہیے،برداشت چاہیے، امن چاہیے کیونکہ اپنا خوں ہم بھرپیٹ چاٹ چکے ہیں اور مزید طلب کوئی نہیں!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :