عرب و عجم
پیر 18 جنوری 2016
(جاری ہے)
گزشتہ ستر برس کی تاریخ میں عربوں نے فلسطینیوں کے لئے کیا قربانی دی ؟اس سوال پر تاریخ خاموش ہے ، تو اب اس جھگڑے کا فائدہ کس کو ہے ؟خطے میں ایران یا سعودی عرب یا پھر دوسری عرب ریاستوں کا خطرہ کس سے ہے؟ظاہر ہے اسرائیل سے ،امریکہ جس کا مربی و سرپرست ہے ،اور اگر ایران اور عرب ریاستیں اس قدر کمزور ہو گئیں کہ اسرائیل کے سامنے ان کی کوئی حیثیت نہ رہے تو یہ خطرہ کس طرف منتقل ہو گا؟کسی اور طرف نہیں ،صرف پاکستان کی طرف ۔ کیونکہ اسرائیل پاکستانی شہبازوں کی دی گئی چوٹوں کا بدلہ اتارنے کے لئے ویسے ہی بے چین ہے جیسے عرب کے صحرا کا اونٹ ۔ریاض اور اسلام آباد کے درمیان خصوصی پروازوں کی شٹل سروس کے مہمانوں کو شائستہ طریقے سے یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کو آپ کے اندرونی معاملات سے کوئی سروکار نہیں لیکن یمن کے تنازعے کی طرح پاکستان اس لڑائی میں کودنے کا بھی متحمل نہیں ہوسکتا ۔ مشورہ ان کو یہ بھی دینا چاہیے کہ خود وہ بھی ایران کے ساتھ تعلقات کو ایک حد سے زیادہ نہ بگڑنے دیں ۔ باتیں کرنا یا بیانات داغنا اور بات ہے لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ دونوں میں سے کس کی فوج کو لڑنے کا ایک طویل تجربہ ہے اور کون ہے جسے ڈھنگ کے چند سپاہی بھی میسر نہیں ۔ سو حالات کو اتنا ہی بگاڑیں جتنا سنبھالاجا سکے ۔
تہران کو بھی ایک بات اب ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ پراکسی وار کا زمانہ اب گزرتا جارہا ہے ۔لڑائی صرف توپوں اور گولہ بارود سے نہیں لڑی جاتی ،اچھی معیشت اور مسلسل منافع کمائے بغیر ایک دن کا بارود بھی میسر نہیں آسکتا ۔ دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن ایران اپنی ہی معدنیات کو بیچ کر منافع اس لئے نہیں کما سکا کہ قوموں کی برادری میں اس کو ایک قابل قبول حیثیت میسر نہیں ہے،اور وجہ اس کی وہی ہے جومیں بیان کر چکا ہوں کہ ایران میں انسانی حقوق کی صورتحال سے کرہ ارض کا کوئی ملک بھی مطمئن نہیں ۔انقلاب کو دائیں بائیں برآمد کرنے کے خواب سے باہر نکلیں کہ دنیا اب پتھر کے دور میں نہیں بستی ،اپنے خیالات اور قوانین کو اپنی سرحدوں میں نافذ کیجئے اس لئے کہ ہمسائے کے گھر میں آپ اس وقت تک نہیں گھس سکتے جب تک وہ آپ کو اجازت نہ دے اور اچھا ہمسایہ وہی ہے جو میزبان کی طر ف سے دی گئی عزت کا بھرم رکھے اور جواب میں اس کو بھی تکریم بخشے ۔قدرت نے جس طرح انسانوں اور دوسری مخلوقات کو ایک دوسرے پر انحصار کی زنجیر میں جکڑا ہے اسی طرح اس دنیا میں کوئی بھی ملک الگ تھلگ رہ کر گزار ا نہیں کرسکتا بھلے وہ امریکہ جیسی سپر پاور ہی کیوں نہ ہو کہیں نہ کہیں اسے دوسری ریاستوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ انحصار کہ یہ زنجیر دو انسانوں یا دو ملکوں کو یہ سکھاتی ہے کہ وہ باہم احترام اور تعاون کے ساتھ وقت گزاریں ۔میں نے پہلے بھی ایک کالم میں لکھا تھا کہ دلی ،اسلام آباد،ماسکو ،بیجنگ اور تہران اگر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر باہم تعاون سے کام کریں تو نہ صرف خطے میں ان کی دھاک بیٹھ جائے گی بلکہ دنیا کے فیصلے بھی یہی کئے جائیں گے ورنہ قانون قدرت یہ ہے کہ ”اگر تم نے کائناتی نظام سے منہ موڑلیا تو یہ زمین کسی ا ور کے قبضے میں دے دی جائے گی“ اور زمین قبضے میں لینے والے تیار بیٹھے ہیں کیونکہ اس زمین کے نیچے تیل بھی وافر ہے ،گیس بھی ،سونا اور جواہرات بھی اور جو سبز سونا یہ زمین اگلتی ہے اس کا کوئی بدل دنیا میں نہیں ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خواجہ محمد کلیم کے کالمز
-
صحت کے دشمن تعلیمی ادارے
جمعرات 10 جنوری 2019
-
سو دن، کرتار پورہ اور سشمادیدی کا ندیدہ پن
منگل 4 دسمبر 2018
-
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ دو دن
منگل 20 نومبر 2018
-
بابائے قوم محمد علی جناح کے نام ایک مکتوب
جمعرات 16 اگست 2018
-
لبیک ، لبیک ، لبیک یار سول اللہ ﷺ
پیر 30 جولائی 2018
-
دہشتگردی، سیاست اور قوم کا مستقبل
پیر 16 جولائی 2018
-
سیاسی کارکنوں کا احتجاج،اِشاریہ مثبت یا منفی ؟
ہفتہ 16 جون 2018
-
ماں جائی
بدھ 6 جون 2018
خواجہ محمد کلیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.