مفتی کی محبوبہ کیا کرے؟

جمعہ 22 جنوری 2016

Sareer Khalid

صریر خالد

ایک چالاک،شاطر ،مظبوط اور ہوشیار سیاستدان کی پہچان رکھنے والے مفتی سعید چھ دہائیوں سے ریاست کی سیاسی شطرنج پر شہ اور مات کا کھیل کھیلتے اور دیکھتے رہنے کے بعد گذشتہ دنوں مختصر علالت کے بعد انتقال کیا کر گئے گویا ریاست کی زمامِ اقتدار کو کوئی تھامنے والا ہی نہ رہا۔سابق وزیرِ اعلیٰ کے انتقال کا دوسرا ہفتہ جاری ہے لیکن حکومت سازی کے معاملے پر اُنکی پارٹی پی ڈی پی باالعموم اور اُنکی سیاسی وارث بیٹی محبوبہ مفتی با الخصوص کوئی فیصلہ ہی نہیں لے پارہی ہیں جسکی وجہ سے ریاست میں عارضی طور گورنر راج نافذ ہوگیا ہے جسکے طول پکڑنے کے امکانات کو یکسر مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔

مفتی سعید کے دم توڑدینے کے بعد ریاست کی سیاسی صورتحال جس حد تک متاثر ہوگئی ہے وہ اپنے آپ میں مفتی سعید کی اہمیت و حیثیت کو اُجاگر کرتا ہے کہ جنہوں نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے گویا ایک انگارے کو ہتھیلی پر رکھا تھا جو کہ اُنکی بیٹی کے لئے مشکل بلکہ کسی حد تک ناممکن بھی معلوم ہوتا ہے۔

(جاری ہے)


حالانکہ چند ماہ قبل ہی محبوبہ مفتی نے اپنے آبائی قصبہ بجبہاڑہ کے مضافات میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرنے کے دوران انتہائی جذباتی انداز میں یہ عقد کھولا تھا کہ مفتی صاحب کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔

اُنہوں نے کارکنوں سے اپنے والد ،پارٹی کے سرپرست اور ریاست کے وزیرِ اعلیٰ مفتی سعید کے لئے دعا کی درخواست کی۔محبوبہ مفتی نے مفتی کی ناسازیٴ طبیعت کا راز ان حالات میں کھولا کہ جب مفتی سعید اچانک ہی بیرون ریاست چلے گئے تھے اور کہیں اپنا علاج کروارہے تھے۔چناچہ اس انکشاف کے ساتھ ہی یہ افواہیں گشت میں آگئیں کہ محبوبہ مفتی زمام اقتدار سنبھالنے والی ہیں جبکہ مفتی سعید آرام کرنے کا فیصلہ لے چکے ہیں۔

تاہم چند دنوں کے وقفہ کے بعد مفتی سعید واپس ڈیوٹی پر آئے اور یوں جوش کے ساتھ حکومت سنبھالنے لگے کہ اُنکی ناسازیٴ طبیعت کی خبریں ٹھنڈی ہوکر بے تعلق سی ہوکر رہ گئیں۔البتہ محبوبہ مفتی کے وزیرِ اعلیٰ بننے کی افواہیں نہ تھمیں بلکہ ایک تقریب پر جب خود مفتی سعید نے کہا کہ اُنکی بیٹی وزارتِ اعلیٰ سنبھالنے کے اہل ہیں تو معاملہ تقریباََ صاف ہوگیا یہاں تک کہ حکومت میں پی ڈی پی کی شریک بی جے پی نے بعض اعتراضات اُٹھائے اور معاملہ کچھ موخر سا ہو گیا ۔


شدت کی ٹھنڈ کے باوجود مفتی سعید نے 24/دسمبر کو سرینگر شہر کا چھ گھنٹوں پر محیط طویل دورہ کیا اور کئی ایک تعمیراتی کاموں اور دیگر سرگرمیوں کا مشاہدہ کیا۔شام کو ہی اُنکی طبیعت بگڑ گئی اور اُنہیں دلی کے آل انڈیا انسٹیچیوٹ آف میڈیکل سائینسز منتقل کیا گیا جہاں اُنہوں نے 7/جنوری کو دم توڑ دیا۔ڈاکٹروں کے مطابق اُنہیں بخار کی حالت میں بھرتی کیا گیا تھا لیکن دن گذرنے کے ساتھ ساتھ اُنکے کئی اعضاء میں انفکشن ہوگیا اور وہ جانبر نہیں ہو سکے۔

مفتی سعید کے انتقال کی صورت میں یہ ایک طویل سیاسی باب کا اختتام ہوگیا ۔
مفتی سعید 12/جنوری1936ء کوجنوبی کشمیر کے مشہور قصبہ بجبہاڑہ کے بابا محلہ میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کرنے کے بعد اُنہوں نے سرینگر کے تاریخی سری پرتاپ(ایس پی) کالج سے گریجویشن کی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے علاوہ عربی تاریخ میں ماسٹرس کیا،واپس لوٹے اور مختصر عرصہ کے لئے وکالت کا پیشہ اپنایا۔

1950ء کی دہائی میں نیشنل کانفرنس کے ساتھ وابستہ ہوکر اُنہوں نے سیاسی دنیا میں داخلہ لیا تاہم اُنہوں نے جلد ہی نیشنل کانفرنس چھوڑ کر کانگریس میں شمولیت اختیارکی۔وہ اُن چند لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ریاست میں نیشنل کانفرنس کے خلاف کانگریس کو ایک قوت کے طور متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیاہے۔1962ء میں و ہ بجبہاڑہ حلقہ انتخاب سے ریاستی اسمبلی کیلئے منتخب ہوئے جبکہ1975ء میں اُنہیں کانگریس لیجسلیچر پارٹی کا لیڈر منتخب کرنے کے علاوہ ریاستی کانگریس کا صدربنایا گیا۔

1971ء میں کانگریس کی حکومت میں وزیرِ مملکت بنے تاہم اس کے بعد مسلسل چناوٴ ہارتے چلے گئے اوراُن کے سیاسی کیرئر میں ٹھہراوٴآیاتاہم اُنہوں نے ہمت نہیں ہاری اور انتخاب جیتے بغیر بھی سیاسی داوٴ پیچ کھیلتے رہے۔
1984ء میں نیشنل کانفرنس کی حکومت کا تختہ پلٹ ہونے میں مفتی سعید کا کلیدی کردار مانا جاتا رہا ہے جبکہ اُنہیں اس واقعہ کے” ضمنات“ کے لئے بھی ذمہ دار مانا جاتا ہے۔

1986ء میں اُنہیں راجیو گاندھی کی حکومت میں سیاحت کے محکمہ کا وزیر بنایا گیاتاہم اس کے بعد ان کی کانگریس کے ساتھ وابستگی برقرار نہ رہ سکی اور اُنہوں نے کانگریس سے علیٰحدگی اختیار کرکے1987میں وی پی سنگھ کی سربراہی والے جن مورچہ میں شرکت کی جس کے بعد2/دسمبر1989ء کو وہ ہندوستان کے پہلے مُسلم وزیرِ داخلہ بن گئے اور10/نومبر1990ء تک اس عہدے پر فائض رہے تاہم بعد میں پی وی نرسمہاراوٴ کے دور میں کانگریس میں شامل ہوکر ”گھر واپسی“ کی ۔


اِس دوران اُنہوں نے اپنی بیٹی محبوبہ مفتی کو سیاست میں متعارف کرایا جو ممبرِ اسمبلی اور اسمبلی میں کانگریس لیجسلیچر پارٹی کی لیڈر ہوگئی تھیں۔1998ء میں مفتی سعید نے،اپنی بیٹی سمیت، ایک بار پھر کانگریس سے الگ ہونے کا اعلان کیا اور اب کی بار اپنی علیٰحدہ پارٹی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یا پی ڈی پی کی بنیاد ڈالی۔ایک عرصہ سے اسمبلی ممبر بننے کا خواب پورا نہ کر پانے والے مفتی سعید کی اس پارٹی کے بننے پر شائد کسی کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ محض تین سال کے بعد یہ پارٹی جموں کشمیر میں برسرِ اقتدار آئے گی لیکن سیاست کی دنیا میں مفتی سعید نے یہ ”چمتکار“کر ہی دکھایا اور ریاست کے اقتدار کو اپنی جاگیر کی طرح لینے والی نیشنل کانفرنس کے سامنے ایک چلینج کھڑا کیا۔


سال2002کے اسمبلی انتخابات میں پی ڈی پی کو 16 /نشستیں حاصل ہوئیں اور اس نے کانگریس کے ساتھ مل کر ریاست میں مخلوط سرکار کا قیام عمل میں لایا ۔دونوں پارٹیوں کے مابین ایک معاہدے کے تحت مفتی سعید اس مخلوط سرکار کے پہلے تین سال کے لئے 2 نومبر 2002 ء سے 2/ نومبر 2005ء تک وزیرِ اعلیٰ بنے۔بعدازاں غلام نبی آزاد نے مخلوط سرکار کی کمان سنبھالی تو ریاست میں امرناتھ شرائن بورڈ کو زمین فروخت کئے جانے پر ہنگامہ ہوا اور پی ڈی پی نے کشمیریوں کے جذبات کے تیز بہاوٴ میں اپنی ناوٴ پار لگانے کی غرض سے اچانک ہی کانگریس کی حمایت واپس لیکرریاست میں گورنر راج کی مجبوری پیدا کی۔

2008ء کے اواخر میں انتخابات ہوئے تو پارٹی کو پانچ سیٹوں کا فائدہ تو ہوا لیکن کانگریس نے اسے سبق سکھانے کے لئے اسکی بجائے نیشنل کانفرنس کے ساتھ اتحاد کیا اور مفتی سعید چھ سال تک اقتدار سے دور ہو گئے۔مفتی نے تاہم اپوزیشن میں رہتے ہوئے اپنی پارٹی کو یوں متعلق بنائے رکھا کہ 2014ء میں 87/نشستوں والی اسمبلی میں پی ڈی پی28/کے ہندسہ کے ساتھ اول رہی۔

یہ الگ بات ہے کہ اور باتوں کے علاوہ انتخابی مہم کے دوران مفتی نے کشمیریوں میں بھاجپا کے ریاست پر ”میلی نظر“رکھنے کا ڈر بٹھاکر بھاجپا مخالف ووٹ لینے کے باوجود اسی فرقہ پرست پارٹی سے ہاتھ ملاکر کشمیریوں کو جھٹکا دیا لیکن یکم مارچ کو پورے چھ سال کے لئے ریاست کے 12/ویں وزیرِ اعلیٰ کے بطور حلف اُٹھایا۔
اپنے سیاسی کیرئر کے اختتام کے قریب بی جے پی جیسی پارٹی کے ساتھ ناطہ جوڑ کر مفتی سعید در اصل ایک ایسا جوا کھیلنے کا فیصہ کر چکے تھے کہ جس میں اُنکا سب کچھ بلکہ اُنکی بیٹی اور اُنکی پارٹی کا مستقبل تک داوٴ پر تھالیکن جیسا کہ اُنکے بارے میں کہا جاتا ہے وہ سیاست کو” ممکنات کا ہنر “ماننے والے شخص تھے۔

اُنہوں نے بھاجپا کے ساتھ اتحاد کو جائز ٹھہرانے بلکہ وقت کی ضرورت بتانے کے لئے ”جمہوریت کے معجزہ“اور ”قطبِ شمالی و قطبِ جنوبی کا ملاپ“جیسی اصطلاحات گھڑیں اور ”اعتماد“کے ساتھ آگے بڑھنے لگے۔مفتی نے اپنے حساب سے اس نا قابلِ سمجھ رشتے کو نبھانے کی پوری کوشش کرتے ہوئے اس میں اپنی پوری طاقت جھونک دی لیکن شریکِ ثانی سے وہ خلوص نہ بن پایا یہاں تک کہ اس جوے میں مفتی سعید ہارتے دکھائی دئے اگرچہ مرتے دم تک اُنہوں نے اس بات پر کوئی ملال ظاہر کیا اور نہ ہی ایسا کوئی بیان دیا۔


یہ بی جے پی کے عدم تعاون کا ہی نتیجہ ہے کہ جو مفتی سعید ایک انتہائی زیرک،چالاک اور نڈر سیاستدان سمجھے جاتے تھے اور کانگریس کے ساتھ سرکار بناکر جنہوں نے ،بہر حال،نئی اُمیدوں کو جنم دیا تھا وہ انتہائی کمزور بلکہ بے بس صورت میں دیکھے جانے لگے اور اُنہیں عمر بھر کی بنائی ہوئی پہچان کھوتے محسوس کیا گیا۔
مفتی سعید کی موت کے بعد اگرچہ بعض لوگ محبوبہ مفتی کے فوری طور وزارتِ اعلیٰ کا حلف لینے کا قیاس کر رہے تھے تاہم ایسا نہ ہوا یہاں تک کہ ریاست میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔

پہلے مذہبی روایات کے مطابق مفتی کے چار روزہ ماتم کے بعد اور پھر سرکاری طور اعلان کردہ سات روزہ سوگ کے بعد حلف برداری کے امکانات بھی غلط ثابت ہوگئے۔محبوبہ مفتی مفتی سعید کی مطلقہ بیٹی ہیں جو اپنے والد کو والد سے زیادہ دوست،ساتھی،سیاسی گرو اور اس سے بھی بڑھکر سمجھتی آئی ہیں،اُنکا ماتم میں ہونا فطری بات ہے۔چناچہ اُنہوں نے ابھی تک سیاسی معاملات پر لب کُشائی نہیں کی ہے بلکہ کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد، کانگریس صدر سونیا گاندھی،نیشنل کانفرنس کے عمر عبداللہ، اور بی جے پی کے رام مادھو اور نتن گڑکری کی اُنکے گھر حاضری میں تلاشی جاچکی سیاسی وجوہات کے حوالے سے ذرائع ابلاغ نے بہت کچھ کہا اور لکھا لیکن محبوبہ مفتی نے کسی بات کو صحیح ٹھہرایا اور نہ ہی جھٹلایا۔

جیسا کہ پی ڈی پی میں ایک سینئر لیڈر کا کہنا ہے کہ محبوبہ جی اس حد تک مغموم ہیں کہ اُنکے ساتھ سیاست کی بات کرنے کی کسی کو جُرأت بھی نہیں ہو پارہی ہے۔اُنکے ماتم میں رہنے میں کوئی سیاست تلاشی بھی نہیں جانی چاہیئے کہ وہ کچھ بھی ہونے سے قبل ایک بیٹی ہیں جس کے لئے اُسکے والد یقیناََ ہر چیز سے بڑھکر ہوں تو تعجب نہیں کیا جاسکتا ہے۔لیکن ہاں اپنے والد کی موت نے اُنہیں ایک ایسا فطری موقع ضرور دیا ہے کہ جسے استعمال کرتے ہوئے وہ اُس نقصان کی تلافی کرنا چاہیں گی کہ جو بھاجپا کے ساتھ جاکر اُن کے والد سے سرزد ہوئی ہے۔

حالانکہ اُنکے لئے اُس اتحاد کو آسانی سے توڑ دینا آسان بھی نہیں ہے کہ جو دو مہینوں پر محیط مغز ماری کے بعد اُنکے والد نے کیا تھا۔پھر ایسا کرنے کا ایک مطلب یہ بھی لیا جائے گا کہ مفتی سعید دوراندیش نہیں تھے بلکہ وہ ایک ایسے خاطی سیاستدان تھے کہ جنکے جاتے ہی اُنکی بیٹی کو اُنکی غلطیاں سدھارنے پر مجبور ہونا پڑا۔لیکن محبوبہ مفتی جو کشمیریوں کی جذباتیت اور اُنکی سادگی کی مٹی میں اپنے آنسو ملا کر تیار گارے سے پی ڈی پی کی بنیاد ڈال چکی ہیں انہی لوگوں کی اُس نفرت سے بھی آنکھیں نہیں چرا سکتی ہیں کہ جو بھاجپا کے ساتھ جانے والی پی ڈی پی کے حصے آئی ہے۔

واضح رہے کہ محبوبہ مفتی نے اپنی سیاست کا آغاذ سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں مارے جانے والے جنگجووٴں کے ماتم میں آنسو بہانے سے کیا ہے اور باپ بیٹی نے لوگوں کے ساتھ عزت و وقار کی بحالی اور انکے جذبات کی آبیاری کا وعدہ کیا تھا جبکہ بی جے پی کو ریاست سے دور رکھنے کے نام پر ووٹ لینے کے بعد اسی پارٹی کے ساتھ سرکار بناکر لوگوں کو گویا جھٹکہ دیکر بد دل کر دیا گیا۔

اس بد دلی کا اظہار مفتی سعید کے مرنے پر یوں ہوا کہ اُنکے مرنے کی خبر آنے پر اُنکے آبائی قصبہ میں نہ کوئی ماتمی ہڑتال ہوئی اور نہ ہی لوگوں کا کوئی سیلاب اُمڈ آیا۔زائد از 60/سال سے سیاست کرتے آئے 80/سال کے مفتی کے جنازے میں فقط تین یا چار ہزار لوگ شامل پائے گئے جبکہ اس سے دو ایک ماہ قبل اُنکے پڑوس میں رہنے والے ایک نچلی ذات کے جنگجو نوجوان ،جو فوج کے ساتھ ہوئی ایک جھڑپ میں مارے گئے تھے،کے مارے جانے پر نہ صرف قصبہ میں رضاکارانہ طور ماتمی ہڑتال ہوئی بلکہ اُنکے جنازے میں زائد از دس ہزار لوگوں نے شرکت کی۔


سیاسی وجوہات کو لیکر وہ شائد ہی کبھی یہ کہنے کو تیار ہو بھی جائیں کہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے اُنکے والد نے دراصل اپنی زندگی کی ایک بہت بڑی غلطی کی تھی لیکن اُنہیں اس بات کا اھساس ضرور ہوگا۔پھر مفتی سعید کے مرنے کے بعد جس حد تک پی ڈی پی اور بھاجپا کے اتحاد پر سر نو باتیں ہوئیں اور ایک بار پھر پی ڈی پی سے بھاجپا کے ساتھ اتحاد توڑدینے کے مطالبات ہوئے اُن سے محبوبہ مفتی یقیناََ مزید مشکل میں پھنس گئی ہیں۔

چناچہ اُنسے آگے جاکر ضرور سوال ہوسکتا ہے کہ اگر مفتی کی موت کی شکل میں فطرت نے اُنہیں غلطی کے سدھار کا موقعہ دیا تھا تو اُنہوں نے گنوا کیوں دیا۔
کشمیری عوام کا بھاجپا کو ریاست کی سرداری کا موقعہ دئے جانے پر ناراض ہونا اپنی جگہ خود پی ڈی پی کے ساتھ جو کچھ بھاجپا نے کیا ہے اُسے دیکھتے ہوئے بھی محبوبہ مفتی بھاجپا کا ساتھ جاری رکھنے کا فیصہ لینے سے قبل کئی بار سوچیں گی۔

مفتی سعید نے کئی طرف کی تنقید کے باوجود بھاجپا کے ساتھ شائد اسلئے بھی اتحاد کیا تھا کہ وہ اس پارٹی سے مسئلہ کشمیر سے لیکر جموں کشمیر کی تعمیروترقی تک انتہائی جُرأت مندانہ اقدامات کی توقع کرتے تھے جن کا شورو غوغامگر مفتی کی چشمِ بینا کو میسر نہ آیا۔چناچہ وزیرِ اعظم مودی نے سرینگر میں اپنی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ،یہ کہکر کہ اُنہیں کشمیر پر کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں ہے ،مفتی کو اوقات دکھائی جبکہ تمام تر توقعات کے برعکس کشمیر کے سیلاب زدگان کی امداد نہ کرکے گویا مفتی کو بے بس کر دیا گیا۔

اتنا ہی نہیں بلکہ مفتی سعید بحٰثیتِ وزیرِ اعلیٰ کے ایمز میں دو ہفتے تک زیرِ علاج رہے لیکن وزیرِ اعظم تو کجا اُنکے کسی ایلچی کو بھی اتنی فرصت اور توفیق نہ ملی کہ وہ ہندوستان کے لئے اپنی قوم کے ساتھ دغا کر چکے مفتی کی عیادت کو آتے۔
مفتی سعید کے جسدِ خاکی کو سرینگر لایا جارہا تھا کہ وزیرِ اعظم نے پالم ائر پورٹ جاکر اس پر پھول رکھکر اپنی ذمہ داری تمام سمجھی جبکہ اسکے برعکس کانگریس کے کئی لیڈر جنازے کے ساتھ ہو لئے اور پھر سونیا گاندھی از خود سرینگر آکر محبوبہ مفتی و دیگراں کو پُرسہ دے آئیں۔

گویا مفتی کے مرنے کے بعد بھی مودی اینڈ کمپنی نے اُنہیں وہ اہمیت و عزت نہیں دی کہ جسکی خود مفتی اور پھر محبوبہ مفتی کو توقع ہو سکتی تھی۔محبوبہ مفتی بھلے ہی ابھی حکومت سازی کے بارے میں ،جسکے لئے بھاجپا ظاہر وجوہات کے لئے اوتاولی ہورہی ہے اور محبوبہ مفتی کو جلد از جلد حلف لینے کے لئے ایک طرح سے مجبور کر رہی ہے،نہ سوچتی ہوں لیکن جب سوچنے کا وقت نکالیں گی تو مذکورہ بالا باتوں پر ضرور سوچیں گی۔


مفتی سعید کے بھاجپا کے ساتھ حکومت بنانے کے موقعہ پر عالمی سہارا کے لئے اپنی تجزیاتی رپورٹ کا آغاذ اس نمائندے نے ان الفاظ سے کیا تھا”دو ماہ سے بھی زیادہ وقت تک لگاتارلے دے کرتے رہنے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی اور پی ڈی پی نے ”جمہوریت کے معجزہ“کے نام پر ”قطبین“کو ملانے کا کام کر ہی دیا ہے اور جموں و کشمیر میں دو مختلف الخیال اِن پارٹیوں کی مشترکہ سرکار اب ایک حقیقت ہے۔

تاہم دونوں پارٹیوں کے نام نہاد نظریات کو دیکھتے ہوئے اِنکا اِتحاد سمجھ میں نہ آنے والا ہے اور سرکار کے ٹھیک پہلے دن سے شروع ہوچکے تنازعات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ بظاہر چھ سال کے لئے بننے والی سرکار فی الواقع کتنے دن،ماہ یا سال چل پائے گی۔یہ بات البتہ طے ہے کہ جموں و کشمیر کی یہ سرکار نہ صرف مقامی طور خبروں میں رہے گی بلکہ عیاں وجوہات کے لئے یہ سرکار نئی دلی بلکہ ہندوستان بھر میں برابر اپنے وجود کے آخری دن تک موضوعِ بحث بنی رہے گی“۔


ایک سال سے بھی کم مدت میں اس سرکار کا پورا منظر نامہ بدل گیا ہے اور ابھی واضح نہیں ہے کہ یہ سرکار آگے بڑھے گی یا اسکا بس ہوگیا ہے البتہ دونوں صورتوں میں یہ بحث جاری رہے گی بلکہ اس سب سے جموں کشمیر کی آئیندہ کی سیاست بہت حد تک متاثر ہوتی رہے گی…!!!(بشکریہ عالمی سہارا)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :