دہشت گردوں پھر آنا ۔۔ابھی ہم مصروف ہیں

ہفتہ 30 جنوری 2016

Ammar Masood

عمار مسعود

امن کے لئے فرصت درکار ہوتی ہے۔ اس خواہش کی طرف توجہ دینی پڑتی ہے۔ کوشش کرنی پڑتی ہے۔ حوصلہ دکھانا پڑتا ہے۔ آواز اٹھانی پڑتی ہے۔ قوت کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ متحد ہونا پڑتا ہے۔ یک جان ، یک آواز ہونا پڑتا ہے۔ ہجوم سے قوم بننا پڑتا ہے اور اس سب کے لیئے ہمارے پاس وقت ہی کہاں ہے؟ اتنی فرصت ہی کسے میسر ہے؟
ہم تعزیتیں کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہونے والے لوگ ۔

ہم ماتم کر کے غم میں شریک ہونے والے لوگ ۔ سمجھے بغیردعائیں پڑھ کر بخشنے والے لوگ ۔ کھجور کی گٹھلیوں کے سہارے ثواب کا کاروبار کرنے والے لوگ۔ نہ سوچنے کا دماغ ہمیں میسر ہے، نہ عمل کی فرصت ہمیں دستیاب ۔ ہمارے کام دھندے اور ہیں ہم مشغول اور مِگن لوگ ہیں۔ ابھی ہمارے پاس فرصت نہیں
ابھی ہم نے درباروں پر، مزاروں پر زرق برق ریشمی چادریں چڑھانی ہیں۔

(جاری ہے)

عرس پر بجتے ڈھول پر دھمالیں ڈالنی ہے۔ تعویذ گنڈوں سے دشمن کو زیر کرنا ہے۔ نامعلوم پلاٹوں پر راتوں رات بنی مسجدوں کو چندہ دینا ہے۔ ایصال ثواب کے لئے حرام کی کمائی سے ایک اور عمرہ کرنا ہے۔ مبارک مقامات پر سیلفیاں لے کر ثواب دارین حاصل کرنا ہے ۔سارا ہفتہ جھوٹ بولنے میں، ملاوٹ کرنے میں اور ٹیکس چوری میں گزارنے کے بعد جمعرات کی دیگیں چڑھانی ہیں۔

عین سوئم اور قل کے وقت پر فرقوں کی جنگ شروع کرنی ہے۔ ابھی تو قوالیوں پر مخمور اور نم ناک آنکھوں سے قوال پارٹی پر نوٹ نچھاور کرنے ہیں۔ ابھی تو پردے کے مسائل اور حجاب کے طوالت کے مسائل زیر بحث لانے ہیں۔جینز پہننے والی عورتوں کے خلاف جہاد کرنا ہے۔ کم عمربچیوں کی شادی کے حق میں فتوی دینا ہے ۔ ابھی تو ہم نے ملنگوں کے ڈیروں سے اور ثواب کشید کرنا ہے۔

پیروں فقیروں سے موذی امراض کا علاج کروانا ہے۔ابھی تو ہم نے گندے اور میل میں سندے ہوئے فقیر کے ہاتھوں بیعت کرنی ہے۔ پھٹے کپڑوں میں ملبوس ،گاڑی کے شیشے کو توڑتے بابے سے، روشن مستقبل کی دعائیں حاصل کرنی ہیں۔ ابھی تو ناجائز خواہشات کی تکمیل کے لئے سرعام دیگیں چڑھانی ہیں۔ ابھی تو مسجد کے لاوڈ سپیکر کی آواز نے اور بلند ہو کر دشمن پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔

ابھی تو ہم نے فرقوں کی جنگ میں ایک دوسرے کو زیر کرنا ہے۔ غیر مسلکوں کو کافر ثابت کرنا ہے۔ موسیقی کے حلال اور حرام ہونے پر فتوی لگنا ابھی باقی ہے۔ ابھی تو ہم نے دوکانوں پر رکھی عمل صالح کی تلقین کرنے والی صندوقچیوں میں سو ،سو کے نوٹ ڈالنا ہے۔ سرعام خیرات کر کے اپنی نیکو کاری کاہر شخص پر رعب ڈالنا ہے۔ ابھی تو دیگوں کے چاولوں سے مرنے والے کی آخرت کا اندازہ لگانا ہے۔

چوری شدہ ٹیکس کی کمائی سے دینی مدرسوں میں احیائے علم کی شمع روشن کرنی ہے اور مدرسوں میں حربی تعلیم دے کر صالح الدین ایوبی پیدا کرنے ہیں۔ ابھی تو سبزیوں پر لکھے مبارک ناموں سے مذہب کی جامعیت کا اظہار ہونا ہے۔مسجدوں کے نوعمر بچوں سے ثواب دارین کے لئے ختم پڑھوانے ہیں۔ صدقے کے کالے بکرے اور کالے مرغے سے جادو کا اثر توڑنا ہے۔۔ابھی تو فیس بک پر لائک سے نیکیوں کا شمار ہونا ہے۔

ابھی تو حوروں اور غلمان کی تعداد اور حصول پر بحث ہونی ہے۔ ابھی تو ہم نے جلسے جلوس کر کے یو ٹیوب پر پھر پابندی لگوانی ہے۔ ابھی تو جنت کی بشارت کا کسی اشتہاری عامل کا دروازہ کھٹکٹھانا ہے۔ابھی ہمارے پاس امن کی فرصت کہاں ہے۔ دہشت گردو تم پھر آنا ۔ ابھی ہم مصروف ہیں۔
ہم سب کسی نہ کسی سطح پر اپنے اپنے عمل سے شریک جرم ہیں اور المیہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے مجرم ہونیکا احساس تک نہیں۔

فرقوں میں بٹے ، جہالتوں میں دھنسے اور بدعتوں میں پھنسے لوگ دشمن کا مقابلہ نہیں کرتے۔ تعزیتیں کرتے ہیں ماتم کناں رہتے ہیں تاسف سے ہاتھ ملتے ہیں۔قناعت کا درس دیتے ہیں ، سر جھکا کر چلتے ہیں۔ افلاس کو نیکی کی دلیل سمجھتے ہیں۔ناکامی پر مزید نیک عمل کی تلقین کرتے ہیں۔ اپنے ناکردہ گناہوں پر شرمسار رہتے ہیں۔ ثواب اور گناہ کا کیلولیٹر پرشمار ہی کرتے رہتے ہیں۔

اپنی اصلاح کے بجائے دوسرے کے عمل کا حساب کرتے رہتے ہیں۔
چونکہ ہم سوچنے سے عاری لوگ ، اس لئے اس بات سے بے خبر رہتے ہیں کہ جن دشمنوں کا ہم رونا روتے ہیں انکی پرورش ہم خودکرتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس پر غور کرنے کی فرصت کہاں ہم بہت مصروف ہیں۔ نیکیاں کمانے میں۔ جنت بچانے میں۔دوزخ کی آگ بجھانے میں۔ مذہب کے نام کو بٹّہ لگانے میں۔ گناہ و ثواب کے گنوانے میں۔


ہم مذہب کے نام پر آپس میں لڑتے تو ہیں پر اسے سمجھتے نہیں۔نہ ہم نے اخلاق کے سبق کو پڑھا نہ عفو و درگزر کو سیکھا، نہ علم کی عظمت کو جانا نہ تحقیق کے اسلوب کو مانا، نہ تشکیک کو اپنایا نہ محبت کی کتاب کو پڑھا، نہ دانش سے کام لیا نہ رصلہ رحمی سے کام لیا ، نہ اجتہاد کے تصور کو سمجھا ،نہ ترقی کی نئی راہیں تلاش کی نہ جہالت کے اندھیرے کو دور کیا، نہ دل کا دروازہ کھولانہ ہی ذہنوں کو وسعت دی۔


مانیں نہ مانیں ہم میں سے ایک دو نہیں لاکھوں ایسے ہیں جو ان دہشت گردوں کی ذہنیت سے اتفاق کرتے ہیں۔ اداروں ، سیاسی جماعتوں ، عدالتوں اور عوام میں سے بہت سے ہیں جو اس جہالت اور ظلم کی فکری سطح پر دل ہی دل میں تائید کرتے ہیں۔ انکے ہاتھوں بہیمانہ طور پر مارے جانے والو ں کی تعزیت تو کرتے ہیں مگر ظالم کے ہاتھ کو ہم بڑھ کر روکتے نہیں۔ مرنے والوں پر روتے ہیں مگر مارنے والوں کے لیئے بددعا نہیں کرتے۔

اس لیئے کہ ایک دور تاریک میں ہماری ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی کہ جس نے داڑھی رکھی ہے بس وہی مسلمان ہے ، جس نے ٹخنوں سے اوپر شلوار پہنی ہے بس وہی بہتر انسان ہے ، جس نے دوسرے مسلک کے ماننے والوں کو تہہ و تیغ کیا بس وہی راسخ العقیدہ ہے۔ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہم نے افغانستان کو اپنا صوبہ بنانا ہے۔ ہمیں سکھایا گیا تھا کہ ہر مختلف سوچ اور مسلک کے خلاف جہاد ہی واحد حربہ ہے۔

قوت کا استعمال ہی واحد حل ہے۔ نیست و نابود کر دینا ہے ایک مسلمان کی کامیابی ہے۔
یقین مانئیے ۔ دنیا کی طاقتوں کو الزام دینا مسئلے کا بہت سہل حل ہے ۔ حکومتوں، فوج اور اپوزیشن کو مورد الزام ٹھرانا آسان ہے۔ ہم نے دیکھا فوج نے بھی کامیاب اپریشن کیا، حکومت نے بھی ہر سطح پر اتفاق رائے سے کام لیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے بھی ان فیصلوں میں ہاتھ بٹایا ۔

اب مرحلہ مشترکہ عوامی رد عمل کا ہے۔ اجتماعی سوچ کو بدلنا بہت دشوار کام ہے۔جس لمحے ان ظالموں کے خلاف اجتماعی عوامی نفرت کا طوفان برپا ہو گا اور جس وقت ہمیں احساس ہو گیا کہ ہم نے مذہب کے نام پر ہر کسی کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننا، چھوٹے ،چھوٹے مسئلوں پر تقسیم نہیں ہونا تو یہ پوری قوم بدل جائے گی۔ اسکی تقدیر بدل جائے گی۔ لوگوں کا انداز فکر تبدیل ہو جائے گا۔

ہمارا مذہب انسانوں کی تعظیم کا حکم دیتا ہے۔ عفو درگزر سکھاتا ہے۔ علم کے حصول کی ترغیب دیتا ہے۔ اس دین کی اصل روح کو سمجھیں۔بدعتوں، جہلاتوں اور اختلافات سے بچیں ۔۔ اس ظلم کی جنگ میں خود کو بھی تبدیل کریں۔ورنہ یہ ظالم ہمارے بچوں کو قتل کرتے رہیں گے ، ہر درسگاہ کو بارود سے بھسم کرتے رہیں گے اور ہم ذہنی مصلحتوں میں ڈوبے بس یہی کہ سکیں گے ۔ دہشت گردو ں تم پھر آنا ۔ ابھی ہم اپنی جہالتوں میں مصروف ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :