میاں ۔ مودی اور منہاس

ہفتہ 6 فروری 2016

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

جنرل ضیا الحق (مرحوم) نے غیر جماعتی انتخابات کروائے اور حروں کے مذہبی پیشوا جنا ب پیر صاحب پگاڑا کے مرید خاص جناب محمد خان جونیجو کو وزرات عظمیٰ کا قلمبندان سونپ دیا ۔ جس طرح جناب ذوالفقار علی بھٹو جنرل ضیا الحق کی سادگی ،متانت اور مذہبی رحجان سے دھوکہ کھا گئے بلکل ویسے ہی جناب ضیاء الحق ، محمد خان جونیجو کو نہ سمجھ سکے ۔ جونیجو صاحب نے وزیراعظم بنتے ہی گردن زند استادرا کا فارمولہ آزمایا اور سب سے پہلے اپنے پیرو مرشد سے تقریباً کنارہ کشی کر لی ۔

پیر صاحب نے اس گستاخانہ حرکت پر دومختصر مگر معنی خیز بیان دیے مگر جناب جونیجو پیر کی بات نہ سمجھ پائے۔ پیر صاحب نے کہا میں بغیر وردی جرنیل اور جی ایچ کیو کا بند ہ ہو۔ جونیجو صاحب نے توجہ نہ دی تو پھر فرمایا کہ مجھے بھاری بوٹو کی آواز سنائی دے رہی ہے اور بلی چوہے کا کھیل ختم ہو نے والا ہے۔

(جاری ہے)


جونیجو صاحب نے انتظامی اکھاڑبچھاڑ کے علاوہ زین نوارنی اور دیگر کی ایما پر جنیو ا معاہدہ کر ڈالا جس نے افغانوں کی روس کے خلاف جیتی ہوئی جنگ کو نہ صرف شکست میں بدل دیا بلکہ افغانستان اور پاکستان کو مستقل بد امنی اور انتشار سے بھی دو چار کر دیا۔

روسیوں کی موجودگی میں افغانستان میں انتخابات ہوتے اور روس ایک نئی اور منتخب حکومت کو افغانستان کے حوالے کر کے جاتے تو آج افغانستان کا منظر مختلف ہوتا ۔ جنرل ضیاء الحق کے فارمولے کے مطابق یہی طے پایا تھا کہ سب سے پہلے ہر دو جانب سے سیز فائر ہوگا۔ مسلم ممالک کی امن فوج اقوام متحد کی زیر نگرانی افغانستان کے تمام صوبوں کا کنٹرول سنبھالے گی اور افغانستان کے علاوہ پاکستان ، ایران اور دنیا بھر میں پھیلے افغان مہاجر اور تارکین وطن ان انتخابات میں حصہ لینگے ۔

جنرل ضیاالحق کی کاوشوں کے نتیجہ میں دس سے زیاد ہ افغان شعیہ گروپو ں نے علامہ آصف محسنی کی قیادت میں اتحاد کیاا ور محسنی ربانی ہم آہنگی کے نتیجہ میں محسنی ربانی گروپ کی شکل میں ایک دس جماعتی اتحاد وجود میں آگیا ۔
علامہ آصف محسنی اور علامہ خلیل حسینی ایران سے پاکستان شفٹ ہو گئے اور پشاور کے علاوہ کوئٹہ اور اسلام آباد میں بھی دفاتر قائم کر لیے ہمارے دانشور اور فنکار اینکروں اور صحافیوں کو شائد پتہ نہیں کہ شمالی افغانستان کے صوبہ بد خشان ، کنٹر ، قندوز ، نور ستان اور وادی پنچ شیر میں ابتدا سے ہی روس نے دو ڈویژن کثیر الحر کتی فوج کے علاوہ ایک ڈویژن کے قریب سپٹناز یعنی سپیشل حرکتی فوج جس کے پاس ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں پر مشتمل دستے کمانڈوز کے علاوہ ٹینکوں ، توپوں اور بکتر بند گاڑیوں کی قلیل وقت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ شفٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کو تعینات کیا۔

روس نے ان علاقوں میں خوراک کے بڑے ذخائر کے علاوہ حرکتی ہسپتال ، ڈسپنسریاں اور گولہ بارود کے بڑے ذخائر بھی جمع کیے تاکہ شدید موسموں میں بھی فوج کی کارکرد گی متاثر نہ ہو سکے ۔ روس نے بظاہر ایک چھوٹے اور محدود علاقہ میں اتنی بڑی فوج کیوں تعینات کی ؟ اسپر کبھی کسی ائیر مارشل یاریٹا ئرڈجرنیل نے بات نہیں کی۔ ہمارے ریٹائرڈ جرنیلوں ، چُلبلے اور چمکیلے اینکروں اور دو عدد ایئر مارشلوں کو پتہ ہوگا کہ روس کی اس ڈیپلائیمنٹ سے پہلے فرانس کی کسی گمنام یونیورسٹی سے انجینئرنگ کا طالب علم احمد شاہ مسعود پاکستان کے راستے سے افغانستان کے صوبہ نورستان میں داخل ہوا تو اس کے ہمراہ فرانسیسی ، جرمن اور اطالوی صحافیوں کا ایک دستہ بھی تھا۔

نوجوان احمد شاہ مسعود کے گلے میں ایک گٹار تھی اور زبان پر آزادی کا کوئی نغمہ تھا ۔ وہ گٹار بچاتا اور ناچتا ہوا اپنے ملک میں داخل ہوا اور فارسی زبان شیر یں میں گا رہا تھا کہ میں دور کے دیسوں سے وطن کی مٹی کی پکار پر آگیا ہوں ۔ اب میرے وطن پنج شیر میں کوئی خارجی باقی نہ رہے گا۔ ہم ناچیں گئے ۔ گائینگے اور اپنی دھرتی پر امن اور سکون سے رہیں گے۔

احمد شاہ مسعود کی یہ ویڈیو بھی فرانسیسی ٹیلیویژن نے دکھائی اور افغانستان کی سرزمین پر ایک لمبے بالوں اور جدید جذبوں والا ہیرو دنیا سے متعارف کروایا ۔
جسطرح میرپور آزادکشمیر کے کسی دیہات میں تعینات ایک سکول ٹیچر راجہ حبیب الرحمن نے جنگ آزادی سے متعلق من گھڑت خبروں اور رومانویں داستانوں کے بیان سے روزنامہ جنگ کراچی کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالی اس طرح فرانسیسی ، جرمن اور اطالوی صحافیوں نے وادی پنچ شیر میں ایک دھاڑتا اور مارتا ہوا شیرا ایجاد کیا جو ہر دن روسی ٹینکوں ، گاڑیوں، ہیلی کاپٹروں اور فوجیوں کا شکار کرتا تھا۔

وادی پنچ شیر جسکا کل رقبہ وادی سوات سے بھی کم ہے میں احمد شاہ مسعود سے منسوب ایسے ایسے کارنامے کشید کیے گئے کہ رہے نام اللہ کا، مغربی میڈیا کے بعد بھارتی میڈیا نے بھی اپنا حصہ ڈالا تو پاکستان کے خفیہ ایوانوں میں خطرے کی گھنٹی بج گئی ۔
اب ذرا اتنی بڑی فوج کی ایک محدود علاقہ میں تعیناتی پر نظر ڈالتے ہیں تا کہ روسی فوج کے مشن اور مقصد کی وجہ عیاں ہو سکے ۔

ہمارے چھیل چھبیلے اینکروں کو شائد پتہ ہی ہوگا کہ جس دور میں روس نے ایک بڑی فوج شمالی افغانستان میں تعینات کی اس دور میں بھارت نے سیاچن گلیشئر پر قبضہ کیا اور اس کی سپیشل فورسز کے دستے در یائے نوبرا اور شیوک کے ساتھ ساتھ سکردو کے شمال مشرقی دیہاتوں تک آتے رہے اور دیہاتوں کو تشدد اور لالچ کے ذریعے ترغیب دیتے رہے کہ وہ پاک فوج کو اس بات کی اطلاع نہ کریں مگر دیہاتیوں نے حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے بھارتی دباؤ مسترد کیا اور سکردو میں سوئی ہوئی انتظامیہ کو بھارتیوں کی آمد کی اطلاع دی۔

انتظامیہ نے اس پر کوئی حرکت نہ کی اور دوسرے سال بھارتی فوج پھر آگی اور گرمیوں میں اس علاقہ پر قابض رہی۔ اگلے سال موسم گرما کی آمد سے پہلے ہی لوگوں نے پاک فوج کواطلاع دی تاکہ بھارتی بھیڑیوں کی آمد سے پہلے ہی پاکستانی شیر انکا استقبال کرنے کے لیے تیار ہو جائیں ۔ اگلے سال جو بھارتی ان علاقوں میں پکنک منانے آئے تھے وہ خوشی سے واپس نہ گئے ۔

جو بچ نکلے اُن کے کندھوں پر رائفلوں کی جگہ اُن کے دوستوں کی لاشیں تھیں اور پاکستانی مجاہداُن کے تعاقب میں تھے۔
روسی فوج کی واخان کو ریڈ ور اور بد خشاں میں تعیناتی اور بھارتی افواج کا سیا چین پر قبضہ اور پھر سکردو کی طرف بڑھنا روس و انڈیا مشن کا حصہ تھا جسکا مقصد دونوں جانب سے پیش قدمی کرتے ہوئے شارع ابریشم پر قبضہ کرنا اور پاکستان کو چین سے الگ کرنا تھا ۔

اینکر برادری کو شائد پتہ نہیں ہوگا کہ یہ علاقہ ہمیشہ سے ہی گریٹ گیم کا میدان رہا ہے اور اب بھی ہے۔ اگر کسی سیاستدان ، صحافی اور دانشور کو سیاسی چالبازیوں اور ڈالر گر ل کی چالاکیوں اور چستیوں پر تبصرے سے وقت ملے تو وہ تاریخ کشمیر کے علاوہ ینگ ہا سبنڈ اور کرنل ڈیورنڈ کی مہمات پر ایک نظر ضرور ڈالیں ۔
یہ علاقہ نہ تو غیر معلوم ہے اور نہ ہی نا قابل عبور ہے اسی راستے سے والی کشمیر امیرکبیر، شاہ ہمدان ، حضرت بُلبل شاہ  اوردیگر مبلغین وادی کشمیر میں داخل ہوئے اور کشمیر کے اندھیروں میں نور حق کی شمعیں روشن کیں۔

اسی راستے پر مہاراجہ رنبیر سنگھ کا ایلچی موتی لال مدن چلکر ماسکو پہنچا اور مہاراجہ کشمیر کا روسی بادشاہ کو پیغام پہنچایا ۔ یہ راستے بنی نوح انسان کیلے کبھی بھی اجنبی نہ تھے۔ گھش ، ناگ ، درد اور بدھ تہذیبوں کے مبلغ اور جرنیل انہی راستوں پر چلتے رہے اور دنیاکے نقشے پر اپنے اپنے آثار چھوڑتے گئے ۔ اسی واخان میں چٹی بوئی گلیشیر کے دامن میں انگریز مہم جو کیپٹن ینگ ہا سبنڈ اور روسی مہم جو کیپٹن گروسکی آمنے سامنے ہوئے اور اپنی اپنی حدود پر جھنڈے گاڑ ھ کر واپس چلے گئے ۔

اسی مقام سے میجر ڈیورنڈنے ہندوستان او رافغانستان کے درمیان ایک سرحد کا تعین کیا اور پامیر سے ہلمند تک اس مقام پر جا ٹھہرا جہاں افغانستان ، بلوچستان اور ایرانی صوبہ سیستان کی سرحدیں باہمی ملتی ہیں۔
میاں اور مودی کا پیار ۔ ینگ ہا سبنڈ اور گرو سکی کا ملا پ نہیں البتہ اس ملاقات اور محبت میں کسی نہ کسی کا کوئی پیغام ضروری پہنان ہے۔

میاں اور مودی کے کچھ سہولت کار بھی ہیں جن میں ایک کا نام جندال ہے۔ میاں ، مودی اورایک نووارد مہناس گریٹ گیم کے نئے مہرے ہیں جن کی چال ماسکو ، لند ن اور واشگٹن میں بیٹھے لمبے ہاتھ چلنے والے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم نئے کھیل اور کھلاڑیوں پرایک نظر ڈالیں ، ضروری ہے کہ جنرل ضیا ء الحق کی علقمندانہ عسکری اور سفارتی چال پر کچھ کہہ لیں ۔ جنرل ضیا ء الحق کو روسو انڈ یا منصوبے کا پتہ چلا تو مرحوم جنرل کے ساتھیوں نے اس منصوبے کے توڑ کے لیے حکمت عملی تیار کی جو وقت اور حالات کے مطابق سب سے بہتر اور قابل عمل چال تھی ۔

جنرل ضیاء الحق نے سکردو اور گلگت کے علاوہ اور ملحقہ آزادکشمیر میں موجود فوجی دستوں کی تعدادمیں اضافہ کیا۔ لائین آف کنٹرول اور سیاہ چین سیکٹر کو بھی مضبوط کیا مگر ڈیونڈ لائن پر سوائے اطلاع دینے والی چوکیوں کے علاوہ فوجی نقل و حرکت میں کوئی اضافہ نہ کیا۔ اسطرح کا اقدام ڈیورنڈ لائین خاصکر وا خان او رپامیر کے علاقوں میں رسیوں کے لیے ایسا جواز مہیا کرتا جس کی وجہ سے غیر ضروری ٹکراؤ یا کوئی بڑ احادثہ ہو سکتا تھا۔

جنرل ضیا الحق نے چین کو بھی اعتماد میں لیا تاکہ بوقت اشد ضرورت چین سے بھی مدد حاصل کی جا سکے۔
فوجی حکمت عملی کی ترتیب کے بعد جنرل ضیاء الحق نے احمد شاہ مسعود سے بھی تعلق بڑھایا اور اسکے بھائی احمد داؤد جو کہ اُستاد ربانی کا داماد تھا کے لیے بہت سی مراعات کا فیصلہ کیا گو کہ مغربی اور بھارتی میڈیا احمد شاہ مسعود کی بہادر ی کے قصے بیان کرتا نہیں تھکتا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ شمالی علاقوں میں روسیوں نے احمد شاہ مسعود سے نہ کوئی بڑی جنگ لڑی اور نہ ہی اُسے تنگ کیا ۔

روسیوں کی موجودگی میں یورپی اور روسی سمگلر وا خان اور پنج شیر کے علاقوں سے معدنیات نکالتے رہے اور احمد شاہ مسعود کو اسکا حصہ بھی ملتا رہا۔ احمد شاہ مسعود کی آمد سے جو مجاہدین ان علاقوں میں کارروائیاں کرتے تھے ۔وہ بھی نکال دیے گئے چونکہ احمد شاہ مسعود اور گلبدین حکمتیار کے مابین چپقلش کی وجہ سے دیگر مجاہدین کے لیے آسان نہ تھا کہ وہ احمد شاہ اور روسیوں سے ایک ہی وقت میں ٹکرا سکیں ۔

وادی پنج شیرا اور بد خشاں کے علاقوں میں جو تباہ شدہ ٹینک ،توپیں اور گاڑیاں ٹیلی ویژن پروگراموں میں دکھلائی جاتی ہیں وہ در اصل احمد شاہ کی آمد سے قبل اور شمالی اتحاد اور افغان گروپوں کے مابین ہونی والی جنگوں کا نتیجہ ہیں۔
سیا ہ چین اور کارگل سیکٹر میں بھارتی منصوبے کی ناکامی اور پاکستان کی دفاعی حکمت عملی کے نتیجے میں رسو انڈیا منصوبے کے عیاں ہوتے ہی روسیوں نے واخان ، پنج شیر اور بد خشاں کے دیگر علاقے بشمول قندوز کے خالی کر دیے ۔

روسی جاتے وقت سوائے ہیلی کاپٹروں اور ہوئی جہازوں کے اسلحہ ، ایمونیشن ، ٹینک اور توپیں مقامی تاجک کمانڈوں کے حوالے کر گئے جو کے روسیوں کی مستقبل کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا ایک پہلو تھا۔ روسیوں نے جانے سے پہلے بھارتی مشیروں کو تاجروں ، چرواہوں اور مجاہدوں کے روپ میں اس علاقے میں تعینات کیا اور یوں جاتے جاتے شمالی اتحاد اور بھارت کا تعلق جوڑ گے۔


پنج شیر کی طرح اسی علاقے میں ایک نیم خود مختار ریاست بھی تھی جسکا حکمران سید کیان تھا ۔ نورستان کے اس علاقہ میں ہنزہ کی طرح ایک ریاست ہے جس کی آبادی کا نو ے فیصد اسماعیلی فرقے کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ تعلیم یافتہ ، پرامن اور جدید طرز زندگی کے حامل ہیں۔ جنکا تعلق ساری دنیا سمیت چترال ، گلگت اور ہنزہ کے اسماعیلیوں سے ہے۔ اسماعیلی فرقہ باشعور با اخلاق ہونے کے علاوہ ایک رجسٹرڈکیمیونٹی ہے جس میں کوئی دوسرا داخل نہیں ہو سکتا ۔

تیرہ سالہ روسو افغان جنگ کے دوران سید کیان کا علاقہ بھی بلکل محفوظ رہا اور اس علاقہ میں کاروبار زندگی پر امن طریقے سے چلتا رہا ۔ روسیوں نے جانے سے پہلے اس علاقہ کے اسماعیلی پیشوا جو کہ جناب آغا خان کا متعین کردہ یا پھر پشیتن امام ہوتا ہے کو تحفے میں بہت سے ٹینک اور دیگر جنگی ساز وسامان بھی دے گئے اسی دور میں ٹائم میگزین میں سیدکیان کی ایک تصویر چھپی جس میں وہ فل ہیڈ گیر پہنے ٹینک پر سوار ہیں۔

روسیوں کی اس چال کے باوجود اسماعیلی علاقے آج تک پر امن ہیں اور کسی وار لارڈ یا پھر طالبان نے بھی انہیں تنگ نہیں کیا۔
جنرل ضیا الحق نے سیدکیان اور احمد شاہ مسعود سے بیک وقت اوربروقت رابطہ کیا اور جناب آغاخان کو روسی انخلاء اور افغانستان میں انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کا یو این او کی طرف سے چیف کوارڈینیٹر اور آپریشن سلام کا چیف ہیڈ مقرر کر او دیا ۔

احمد شاہ مسعود نے جنرل ضیا ء الحق کی زندگی میں ہی پاکستان آنے اور پاکستانی قیادت سے ملنے کی ہامی بھر لی تھی مگر احمد شاہ کا دورہ جنرل ضیاء الحق کی رحلت کے بعد ہوا ۔ روس کے پنج شیر سے انخلاء کے بعد نجیب اللہ حکومت نے بھی احمد شاہ مسعود پر کوئی حملہ نہ کیا چونکہ نجیب حکومت کا افغان آرمی چیف جنرل آصف دلاور اور چیف آف جنرل سٹاف جنرل گل آقا احمد شاہ مسعود کے قریبی دوست تھے۔

جنرل ضیا الحق کی وفات کے بعد احمد شاہ مسعود نے پاکستان کا طویل دورہ کیا اور ضیاء فارمولے کی نہ صرف حمائت کی بلکہ مستقبل کی افغان حکومت میں اہم رول ادا کرنے کا عزم بھی دہرایا ۔
جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ ضیا الحق فارمولے کے تحت طے پایا کہ د س جماعتی اتحاد میں شامل تمام سیاسی اور عسکری جماعتیں عام انتخابات میں حصہ لینگی اور یہ انتخابات روسیوں کی موجودگی میں اقوام متحد ہ کی نگرانی میں ہونگے ۔

انتخابات کے نتیجے میں جو پارٹی یا اتحاد الیکشن میں کامیاب ہوا اُسے حکومت سازی کا اختیار دیا جائے گا۔ افغان جمہوری حکومت کے قیام پر روسی افواج ملک بھر میں بچھائی گئی باردوی سرنگیں صاف کرنیگی اور ملک کا انتظام منتخب جمہوری حکومت کے حوالے کریں گی اسلام آباد میں قائم آپریشن سلام (سلامتی ) کاہیڈ کواٹر جس کے سربراہ جناب پرنس کریم آغاخان تھے افغان نمائندوں کی مدد سے کام کریگا اور سارے افغانستان میں سٹرکوں ، سکولوں ،ہسپتالوں اور گھروں کی تعمیر کریگا ۔

مگر یہ ہو نہ سکا۔ ۷
جناب محمد خان جونیجو نے جنرل ضیاء الحق کے امن پروگرام کو لفٹ نہ کرائی اور آل پاکستان پولیٹیکل پارٹیز کانفرنس بلا کا جنیوا معاہدے کی راہ ہموار کی۔ اس معائد ے کی وجہ سے جنگ بندی نہ ہوسکی اور روسی افواج افغانوں سے لڑتی ہوئی دریائے آموں کے پار چلی گئی جاتے ہوئے جگہ جگہ اسلحہ کے انبار چھوڑ گئی اور سارے ملک میں باردری سرنگوں کا جال پھیلا گئی ۔

روسیوں کے جاتے ہی دو سو وار لارڈ اور چھ سو کے قریب فیلڈ کمانڈ میدان میں آگئے اور ہر ایک کو کئی کئی سو ٹن ہتھیار اور ایمونیشن اپنے اپنے علاقے میں دستیاب ہو گیا۔
تاریخ اور حقیقت کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان اور افغانستان کا امن تباہ کرنے میں جتنے افغانی قائدین قصور وار ہیں اتنے ہی پاکستانی سیاستدان بھی ہیں۔ اگر محمد خان جونیجو جینوا معاہدے کا ڈھونگ نہ رچاتے تو افغانستان اور پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی جو آج ہے۔

جنرل ضیا ء الحق کی آمریت کا ڈھول پیٹنے والے کبھی اپنی کوتاہیوں پر بھی نظر ڈالیں تو انہیں پس دیوار بہت کچھ نظر آئیگا جس کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔
دیکھنا ہے کہ جنرل ضیا الحق کے بعد دونوں جانب کی سیاسی اور مذہبی قیادت نے کس حدتک اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور حالات کا رخ بدلنے میں کیا کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔ شائد دنیا کبھی ایسا وقت بھی دیکھے گی کہ افغانستان اور پاکستان کے قائدین اس سوچ پر متفق ہونگے کہ دونوں ملک اگرچہ الگ اور آزاد نہ حیثیت رکھتے ہیں مگر تعلق ایک ہی جسم جیسا ہے جس کی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک ہی روح کار فرما ہے۔

جیسا کہ بیان کیا ہے کہ جنرل ضیا الحق میں حالا ت کا رخ بدلنے کی صلاحیت تھی مگر اُس کے بعد سبھی حالات بھگاڑنے والے آئے اور اب حالات اپنے بھگاڑکے عروج پر ہیں۔ دہشتگردی ایک ایسے اژدھا کا نام ہے جس کے کئی خونخار منہ ہیں ۔ہتھیار بند اور باردو بردار دہشت گردوں کی معاونت اور سہولت کے مراکز ہر ملک ، پر شہر اورہر بستی میں موجود ہیں۔ بم دھماکے ،اغوا برائے تاوان ، ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ وصولی ،کرپشن ، لینڈ مافیا ، کمیشن مافیا، شوگر مافیا، پولیس مافیا، سیاسی مافیا ،مذہبی فافیا، صافی مافیا ، ثقافتی مافیا اور برادر ی مافیا سمیت سینکڑوں مافیا جات ایک ان دیکھی حکومت اور قوت بن چکے ہیں جن کے یکساں مفادات ، مقاصد اور احداف ہیں ۔

وہ ملک اور اقوام جن کی سوچ ، قوت ، دولت اور سرپرستی میں دہشت گردی کا اژدھا پل کر جوان ہوا اج ان کے پاس بھی کوئی ایسا فارمولہ نہیں جو اس جن کو قابو کر سکے یا پھر ہمیشہ لیکے نیست و نابود کر دے ۔
کیپٹلیز م کیمو نزم کی جنگ کا آخری اور فیصلہ کن معرکہ افغانستان کی سرزمیں پر لڑا گیا جس کے نتیجے میں نہ صرف کیمو نزم کو شکست ہوئی بلکہ سویٹ یونین اور وار سا پیکٹ بھی ختم ہوگیا ۔

سنٹر ایشیائی ریاستوں اور پولینڈ سمیت سارا مشرقی یورپ روسی اشر سے آزاد ہو گیا اور دیوار برلن کے انہدام نے مشرقی اور مغربی جرمنی کو پھرایک جرمن قوم اور ملک میں تبدیل کردیا۔
دیکھا جائے تو کولڈ وار دوسری گریٹ گیم کا ایندھن افغانی اور دنیا بھر کے مسلمان مجاہدین اور جہاد کی آڑ میں بنے مگر فوائد اہل یورپ نے حاصل کیے ۔ کولڈ وار گریٹ گیم کی جگہ اسلامو فوبیا اور دہشت گردی کی اصلاحات سامنے آئیں تو مغربی میڈیا کی ہمنوائی میں پاکستانی میڈیا اور میڈیا سے متعلق صحافیوں ، دانشوروں اور سیاستدانوں نے بھی پاکستان ، اسلام اور افواج پاکستان پر حملہ آور ہونے کا کوئی موقع ضائع نہ کیا۔

وہ سیاستدان اور صحافی جو فوجی حکومتوں کے تنخواہ دار ملازم تھے وہ بھی جمہوریت اور آزاد صحافت کا چوغہ پہن کر عالمی امن ، مغربی جمہوریت ، انسانی حقوق اور عوامی راج کا گیت آلا پنے لگے اس دو عملی اور دوغلے پن کی وجہ نہ جمہوریت سے محبت ، عوام سے اُنس ، امن کی چاہت اور انسانی حقوق کی پاسداری تھا اور نہ ہی وطن سے محبت اور ملکی مفاد تھا۔ ان لوگوں کا ایجنڈ ذاتی اور مفاداتی تھا اور آج بھی ہے۔


میاں برادران اور جنرل ضیاء الحق کی قربت سے کون واقف نہیں ۔ میاں خاندان کی سیاست اور کاروباری عظمت کا سہرا جنرل ضیاء الحق کے سر سجتا ہے ۔ ضیا ء الحق کی ہی مہربانیوں سے یہ خاندان سیاست میں آیا اور پھر کھوئی ہوئی کاروباری اہمیت کو بام عروج تک لے گیا ۔ میاں خاندان کے پہلے دو ادوار اور جاری حکومتی کاروبار نہ تو عوام کو کچھ دے سکا اور نہ ہی ملکی معیشت میں کوئی واضح تبدیلی آئی تھک تھگڑی اور شعبدہ بازانہ ترقی نے ملک کو ہمیشہ کنگال ہونے کے قریب کیا اور جمہوریت کے نام پر ملکی خزانہ لوٹنے والے ہر بار مزید خوشحال ہوئے ۔

موٹروے ، پیلی ٹیکس ، قرض اتارو ملک سنوارو اسکیموں کے بعد سستی روٹی ، لیب ٹاپ ، دانش سکولوں اور اب کسان پیکج ہیلتھ سکیم ، نندی پور بجلی منصوبہ ،اُ رینج ٹرین اور میٹر و بس نے میاں صاحبان ، خواجہ برادران ، مشیران اوروزیران کو توکروڑ سے ارب پتی اور ارب سے کھرب پتی بناء دیا مگر عوام کو ذلت وپستی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔
میاں صاحبان نے وہاں سے شروع کیا ہے جہاں زرداری صاحب چھوڑ کر گئے تھے۔

یعنی جو بچا تھا وہ اُٹھاتے چلے آئے اور تقریباً ڈھائی سال سے میگا پراجیکٹ کے نام پر اُٹھا رہے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ دونوں بڑی پارٹیوں کا میثاق جمہوریت پر متفق ہونا در حقیقت جمہوری ڈکٹیٹر شپ پرمتفق ہونے کے مترادف ہے۔ دونوں بڑی جماعتوں نے آئین میں ترمیم کے ذریعے ایک ایسا آئینی ماحول بھی پیدا کر دیا ہے۔ جس کی قوت کا سرچشمہ عوام نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے قائدئین ہیں۔

میونسپل کمیٹی کے ممبر سے لیکر نیشنل اسمبلی کے ممبر ، سینٹر ، وزیراعظم ، صدر اور اعلیٰ عدلیہ کے جج تک کی تعیناتی ہی نہیں بلکہ احتساب بیورو کے چیئرمین ، صوبائی ومرکزی الیکشن کمشنر ، مسلح افواج کے سربراہان اورسینٹ کے چیئرمین تک کی تعیناتی ان کی مرضی اور منشا ء سے ہی ہوتی ہے ۔ جوڈیشل کمیشن ججوں کی تعیناتی کرتا ہے اور حکمران جماعت کے ہم خیال لوگ چاہیے وہ گھر کے افراد ہی کیوں نہ ہوں مسلح افواج کے سرابراہان مقرر کرتے ہیں ۔

جنرل مشرف بڑے میاں صاحب کے پسندیدہ جرنیل تھے اور جنرل کیانی زرداری صاحب کے منظور نظر تھے۔ جنرل کاکڑ کو سیاستدان دور ا ہے پر لے آئے تو خاندانی عزت اور راوایات نے جنرل وحید کاکٹر کو حوصلہ دیا وہ باعزت ریٹائر ہو کر گھر چلے گئے ۔ ایوب خان جنرل اسکندر مرزا کی پسندید ہ شخصیت تھے اور جنرل ضیاء الحق بھٹو صاحب کی برادری کے انتہائی عاجزا ور منکسر المزاج شخصیت تھے۔


ہمارے سیاستدان روز اول سے ہی یہ بھول جاتے ہیں کہ کاشتکاری کے لیے بیل اور ٹریکٹر استعمال ہوتے ہیں نہ کہ ہاتھی اور ٹینک؟ ہاتھیوں اور ٹینکوں سے فصل نہیں اگتی بلکہ زمین ہی برباد ہو جاتی ہے ۔ وہ یہ بھی بھول رہے ہیں کہ جن بڑے منصوبوں پر وہ پیسہ پانی کی طرح بہار ہے ہیں وہ صرف چند لاکھ لوگوں کی سہولت کے لیے اور چند سالوں کے لیے ہیں جس طرح حکمران ملک کنگال کر رہے ہیں اگر یہ روش برقرار رہی تو اگلی تین دیہائیوں میں اس ملک کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔


ہمارے حکمران خاندان یورپ ، امریکہ ، بھارت اور ملالیشا میں اپنے محلوں اور جاگیروں میں عیش کرینگے اور بڑی شاہراؤں پر غیر ملکی تجارتی کمپنیاں اپنی اجارہ داری قائم کر لیگیں ۔ ریلوے کا نظام بھارت کے ہاتھ ہوگا اور زیادہ تر ٹرینیں کراچی سے چمن اور واہگہ سے کابل اور مزار شریف تک چلینگی ۔ پی آئی اے پر کسی میاں منشا یا کسی ڈار یا خواجہ صاحب کی اجارہ داری ہوگی اور سٹیل مل اگر حکومت سندھ نے واقع ہی خرید لی تو وہ زرداری صاحب کی ذاتی مل ہو گی ۔

پاکستانی مرد وزن منشاء میاں ، متل ، زرداری جندال اور کچھ غیر ملکی کمپنیوں کی ملازمت کرینگے اور جو کچھ کمائینگے ہر شام اُسکا سودا سلف لیکر اپنا اور بچوں کا پیٹ پا لینگے ۔ عوام اپنے ہی ملک میں اجنبی اور غیر ملکی کمپنیوں کے غلام ہونگے ۔
جس ملک میں مافیا حکمران ہو، اپوزیشن کا نام و نشان نہ ہوا ور آئین ایک خاص طبقے کے تحفظ کا آئینہ دار ہوتو اُسے جمہوریت نہیں کیا جا سکتا ۔

جیسا کہ عرض کیا ہے کہ قائداعظم  کی رحلت کے بعد جمہوریت اور آمریت کے کھیل میں نہ کبھی کھلاڑی بدلے اور نہ ہی ریفری اور جیوری ۔ البتہ کھیل کے قانون بدلتے رہے ۔ خود غرضی اور عوام دشمنی کے اس کھیل میں جیت صرف کھلاڑیوں کی ہوئی اور ہار عوام کی ہوئی چند روز پہلے ایک محفل میں ایک جیالہ فوج کو گالیاں دے رہا تھا بعد میں پتا چلا کہ اس کا ایک بھائی فوج میں کرنل ہے ۔

دو سال پہلے ایک صاحب اسی طرح فوج پر برس رہے تھے جنکا بڑا بھائی فوج میں لیفٹینٹ جنرل ہے۔ بی بی سی کو اسلام آباد سے با خبر رکھنے والے مظہر عباس بھی تو جنرل اطہر عباس کے بھائی ہیں۔ ایک کامران کیانی بھی ہیں جو سب کے بھائی ہیں۔
باغ آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے جناب امیر اکبر خان عباسی عالم دین اور درویش صفت شخصیت تھے۔ عباسی صاحب نے 1947ء کے جہاد کشمیر کا مشاہدہ کیا اور جن جن لوگوں نے اس جہاد سے مفادات حاصل کیے وہ اُن سے سخت نالا ں تھے۔

آزاد حکومت قائم ہوئی تو مفاداتی ٹولے کی چاندی ہوگئی ۔جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ میرپور کے کسی گاؤں کے سکول میں راجہ حبیب الرحمن نامی ایک ماسٹر تھے جنہیں کہانی نویسی کا فن آتا تھا۔ راجہ حبیب نے راولاکوٹ ، باغ ، پلندری اور مظفرآباد سے ایسے ہیرو تلاشے کہ جن سے گاؤں والے بھی واقف نہ تھے ۔ سردار عبدالقیوم خان ، سردار ابراہیم خان ، کیپٹن نتھا خان ، سردار غفار خان کو راجہ صاحب نے نپولین ، منٹگمری ، آئیزن ہارو ، چرچل ،سن ٹوژو ، رومیل اور مارشل ٹیٹو کے سامنے لا کھڑا کیا۔

بہادری ، جرات اور بیبا کی کے من گھڑت قصے اور رپورٹیں راجہ حبیب الرحمن ہر روز لکھتے اور کراچی سے شائع ہونے والے روزنامہ جنگ کو بھجواتے ۔ ان قصوں اور معرکوں کو عوام نے اس قدر جنون سے پڑھا کہ روزنامہ جنگ کا جنگ نامہ کراچی سے راولپنڈی اور پھر ساری دنیا میں پھیل گیا۔
جہاد آزادی کشمیر پونچھ شہر اور سرینگر پرقبضے کی صورت میں اپنے مقصد کے حصول پر ختم ہونا تھا مگر دونوں محاذوں پر مجاہدین کمانڈروں نے مفادات کو اولیت دی اور جہاد کو فساد اور پھر شکست میں بدل دیا۔

پونچھ کا محاصرہ کرنے والے پانچ بریگیڈ کئی ماہ تک اس انتظار میں بیٹھے رہے کہ بھارتی آکر اُن سے پونچھ کا چار سنبھالیں ۔ بارہ مولہ میں بیٹھے پٹھان قبائلی جتھے اوڑی سے لوٹے گئے تین لاکھ روپے حاصل کرنے کی خاطر مقامی مجاہدین سے لڑ پڑے اور بھارتی فوج کو سرینگر میں داخل ہونے کا موقع فراہم کر دیا۔
اس سیاسی اورعسکری تماشے کے بعد درویش صفت امیراکبر عباسی نے کپڑے الٹے پہننے شروع کر دیے۔

وہ جہاں جاتے ایک ہی فقرہ دھراتے ” نوکری ہندوستان کی تنخواہ پاکستان کی “ لو گ پوچھتے کہ اُلٹے کپڑے کیوں پہنتے ہو تو عباسی صاحب کہتے کہ جب نظام ہی اُلٹا چل رہا ہے تو الٹے کپڑے پننے میں کیا حرج ہے۔
ذرا دیکھئے اور سوچئے کہ ہم جس معاشرے اور ماحول میں جی رہے ہیں اس میں کونسی بات سیدھی ہے۔ میڈیا عوام کو حقائق بتلانے کے بجائے من گھڑت قصے سنا رہا ہے۔

دانشور اپنے آقاؤن کی خدمت میں لگے ہیں ، عدالتیں انصاف سے عاری ہیں۔آئین مفاد پرست سیاسی ٹولے کا محافظ ہے۔ وزرات خزانہ غریبوں کی جیبوں سے لیکر بینکوں میں جمع پونجی لوٹنے میں لگی ہے۔ پولیس خوف اور دہشت کا نشان ہے، دہشت گردوں کو بھارت اور معاشی دہشت گرد پال پوس رہے ہیں۔ میاں صاحبان جمہوری بادشاہ ہیں ، بھارت اور معاشی دہشت گرد وطن عزیز پر حملہ آور ہیں اور حکومت وقت کے دونوں سے گہرے دوستانہ تعلقات ہیں۔

مشتاق مہناس اور مودی سرکار میاں صاحب کے عصاب پر سوار ہیں اور ملک کا نظام اُلٹا چل رہا ہے۔ مشتاق مہناس میڈیا اور مافیا کی مدد سے آزادکشمیر کا وزیراعظم بننا چاہتا ہے۔ اور مودی واہگہ سے کابل اپنی موٹر کار پر جانا چاہتا ہے۔ میاں صاحب کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی عوام نے انہیں مودی سے دوستانہ تعلقات کا مینڈیٹ دیا ہے اور جاوید چوہدری نے لکھا کہ مشتاق مہناس کو میاں صاحب نے آزادکشمیر کا وزیراعظم بنانے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے۔

مگر یہ نہیں بتایاکہ اس کے پیچھے چھپا کیا راز ہے ۔ کیا یہ لینڈ مافیا اور مودی کا اسرار ہے یا کشمیر پر کسی کا روبار کا معاملہ ہے۔ مودی اور مشتاق مہناس سے میاں صاحبان کی محبت ،کشمیر پر سودے بازی ، آئینی ترمیم کے بعد آئین سے عوام کی دوری ، جمہوریت کی آڑ میں آمریت ، میثاق جمہوریت اور این آر او سب اُلٹے چکر ہیں ۔ جناب میرا کبر عباسی کے فقرے پر غور کریں۔

نوکری ہندوستان کی اور تنخواہ پاکستان کی، یعنی خدمت اغیار کی اور تنخواہ ، مراعات ، عیاشیاں اور مستیاں پاکستانی عوام سے لوٹی ہوئی دولت اور قومی خزانے پر ڈاکہ ڈالنے کی ۔ سوچیں اور غور کریں کہ ہمارے بے صلاحیت لیڈر ہمیں ہانک کر کہا لے جارہے ۔ ان میں تو ضیا الحق اور پرویز مشرف جیسی صلاحتیں بھی نہیں۔ اگر حالت یہی رہی تو وہ دن دور نہیں جب نوبت اُلٹے کپڑے پہننے تک آجائے گی۔

بیان کردہ حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو آج جنرل راحیل شریف اور اُن کے محب وطن ساتھیوں کو جنرل ضیا الحق سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت سیاستدانوں نے ملک لوٹنے اور کسی بھی مزاحمت کی صورت ملک توڑنے کابندوبست کر لیا ہے۔ ملکی اداروں بشمول عدلیہ کو کسی نہ کسی شکل میں اپنے دائرہ اختیار میں کر لیا ہے اور احتساب کو مذاق میں بدل دیا ہے۔

ساری سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ کسی نہ کسی طرح فوج آئی ایس آئی اور فوج کی معاونت کرونیوالے اداروں کو بھی زیر نگیں کیا جائے تاکہ بچا گچھا پاکستان بھی لوٹ کر بیرون ملک منتقل کیا جائے۔ حالیہ آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے عوام اور فوج کو پیغام دیا گیا کہ ذاتی مفاداتی سیاسی ٹولہ اندر سے ایک ہے اور کسی بھی صورت عوام کو خوشحال اورملک کو محفوظ نہیں دیکھنا چاہتے ۔

آل پارٹیز کانفرنس مرحوم جونیجو کی آل پارٹیز کانفرنس کا چربہ ہے جسکا مقصد اقتصادی راہداری کا راستہ روکنا، بھارت کو افغانستان میں مراعات دینا اور ملک کو کنگال کرنا ہے۔
جسطرح جونیجو مرحوم کی آل پارٹیز کانفرنس نے جنیوا معائدے کی راہ ہموار کی تھی۔ اس طرح حالیہ آل پارٹیر کانفرنس اور آنیوالی کانفرنسیں ، احتجاج ، رخنے ، ہڑ تالیں ، اسمبلیوں کے ہنگامہ خیز اجلاس ، ٹیلی ویژن شوز اور اینکروں کی چالبازیاں اور تبصرے آخر کار پاکستان اور چین کے تعلقات بگاڑنے کا موجب بنیگے اور بھارت بھر پور فائدہ اُٹھائے گا۔

مودی میاں محبتیں اور مشتاق مہناس کا آزادکشمیر کی سیاست میں رول گرینڈ سازش کا حصہ ہے جسکی نشاندہی سلیم صافی نے اپنے انگریزی کالم میں کی ہے۔ سلیم صافی کے مطابق میاں صاحب نے فوج اور سیاسی جماعتوں کو باہم لڑانے اور خاموش تماشائی بننے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ کرپشن ، بد امنی ، دہشت گردی کا دور چلتا رہے اور میاں صاحب اپنے ایجنڈے پر گامز ن رہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :