پاکستان کا مستقبل !

پیر 8 فروری 2016

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

نوجوان کی آواز میں درد تھا اور اس کی آنکھوں میں مایوسی کے طویل سائے تھے ، وہ پاکستان اور پاکستان کے مستقبل کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کر رہا تھا ۔ میں جمعہ پانچ فروری کو ایکسپو سنٹر لاہور گیا تھا ، میں ایک بک اسٹال پر کھڑا تھا کہ اس نوجوان سے ملاقات ہو گئی ۔ وہ بولا ” سر ! پتا نہیں یہ ملک کب سنورے گا ، ہم کب اپنے پاوٴں پر کھڑے ہوں گے اور کب ہمیں مخلص اور سنجیدہ لیڈر شپ میسر آئے گی ۔

سر میں پاکستان کی موجودہ صورتحال پر غور کرتا ہوں تو میرا دماغ چکرا جاتا ہے ، پوری دنیا میں ہم ایک اچھوت قوم بن کر رہ گئے ہیں ، دنیا ہمیں دہشت گردی کی نرسریاں پیدا کرنے والا ملک سمجھتی ہے ، پاکستان دہشت گردی کا استعارہ بن چکا ہے ، مستقبل کا موٴرخ جب اکیسیوں صدی کی تاریخ لکھے گا تو اس کا آغاز پاکستان اور دہشت گردی سے ہو گا ۔

(جاری ہے)

سر میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سب حقیقت ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب عالمی سطح پر ہماری یہ پرسیپشن بن چکی ہے اور ہم چاہتے ہوئے بھی ا س پرسیپشن سے جان نہیں چھڑا سکتے “ میں نے نوجوان کو اپنا دکھ اور کر ب بیان کرنے کا اور موقعہ دیا ، وہ بولا ” سر دنیا کی کون سی برائے ہے جو ہم میں نہیں پائی جاتی ،ہم کرپشن میں ساری دنیا سے آگے ہیں ،بدعنوانی اور جعل سازی میں ہماری کوئی ثانی نہیں ، ہمارے سینئر وزیر اور مشیر تک بھتہ خوری میں ملوث پائے جاتے ہیں ،ہماری سیاسی جماعتوں کے باقاعدہ عسکری ونگ ہیں ، ہمارے ایم این ایز کے ڈیرے مقامی جرائم کے گڑھ ہیں ۔

ہمارا تاجر ٹیکس دینے کو تیار نہیں ، ہم رمضان سے پہلے بینکو ں سے رقم نکلوانی والی قوم ہیں اور ہمارے بعض مذہبی طبقات نے عوام کے استحصال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ صاف بات یہ ہے کہ ہم سیاست، معاشرت، مذہب اور معیشت ہر شعبے میں زوال اور انحطاط کا شکار ہیں اور دنیا ہم سے ایک سو سال آگے نکل چکی ہے ۔ “ نوجوان اپنی بات کر کے خاموش ہوا تو میں نے عرض کیا ” تمہارا کرب اور دکھ اپنی جگہ پر بجا ہے لیکن اگر تم اس ایک نکتے کو سمجھ لو تو تمہاری پریشانی کافی حد تک کم ہو سکتی ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ ہر عروج سے پہلے زوال اور ہر زوال کے بعد عروج ہوتا ہے ، یہ کائنات کاایک مسلمہ اصول ہے اور دنیا کی کسی قوم ،تہذیب اور ملک کو اس اصول سے مفر نہیں ۔

تم دیکھ لے ہمارے جدید دور کا آغاز سولہویں صدی سے برطانیہ سے ہوتا ہے ،برطانیہ یورپ کا پہلا ملک تھا جس نے ترقی کی طرف قدم بڑھائے تھے اور صرف دو صدیوں بعداسی برطانیہ کے لیے یہ جملہ ایجاد کرنا پڑا تھاکہ اس کی ریاست میں سورج غروب نہیں ہوتا ، لیکن دوست یہ تصویر کا دوسرا رخ تھا اگر تم تصویر کا پہلا رخ دیکھ لو تو تمہارا مسئلہ حل ہو جائے گا ، تصویر کے پہلے رخ کے تمام مناظر اور سین وہی ہیں جو تم آج پاکستان میں دیکھ رہے ہو ،شاید تمہارے لیے یہ مماثلت حیران کن ہو لیکن مجھے آج کے پاکستان او ر پندرھویں صدی کے برطانیہ میں تمام چیزیں مشترک دکھائی دیتی ہیں ،تم دیکھ لو پندرھویں صدی میں پورا یورپ جہالت اور تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ۔

امیر اور غریب کا فرق واضح تھا ،معاشرے میں فقیروں ،گداگروں اور دھوکے بازوں کی لمبی قطاریں ہوا کرتی تھیں ،غریب افراد کو معاشرے میں کوئی قانونی حق حاصل نہیں تھا ،سولہویں صدی میں یورپ کی 85فیصد آبادی گاوٴں اور دیہات میں رہتی تھی ،یہی دیہاتی جب غربت اور بھوک کے ہاتھوں تنگ ہوتے تو بھیک مانگنے شہروں کی طرف نکل پڑتے تھے ۔شہر گندے ہوتے تھے ، جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر تھے ،گلیاں تنگ اور دکانیں گندی ہوتی تھیں ، قصائی دکان کے سامنے ہی جانور ذبح کر کے انہیں لٹکادیتے تھے۔

رات کو روشنی کا کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا ، گلیاں اکثر تاریک ہوتی تھیں ،گھروں میں دھواں بھر جاتا تھا ،اون کا لباس پہنتے تھے جس کی وجہ سے جلد کی بیماریاں پیدا ہو جاتی تھیں ،کپڑے دھونے کا رواج بہت کم تھا ،نہانے کو عیب سمجھا جاتا تھا ۔ عوام تنگ نظراور کم ظرف تھے ، اکھڑ مزاج اور درشت،ماحول میں تشدد غالب تھا ،کوئی کسی کو برداشت کرنے کے لیئے تیار نہیں تھا ، لوگ ایک دوسرے کو آنکھیں نکالتے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ،معمولی باتوں پر لڑپڑنا اور گھتم گھتا ہوجانا معمول تھا ، تفریح کے لیئے انسانوں اور جانوروں کی لڑائیاں اور مقابلے ہوا کرتے تھے ، لوگوں کی عمریں ذیادہ نہیں ہو ا کرتی تھیں ، بیماریں عام تھیں لیکن معالج اور ڈاکٹر ڈھونڈھنے سے بھی نہیں ملتے تھے ۔

بیماریوں اور فسادات میں لوگ بڑی تعداد میں مر جاتے تھے ، اکثر عورتیں زچگی کے دوران مر جاتی تھیں ،شرح اموات ذیادہ تھی ، عام طور پر لوگوں کی عمریں ذیادہ نہیں ہوتی تھیں ،امرا 45سے 56سال تک زندہ رہتے تھی جبکہ غریب لوگوں کی عمر اس سے بھی کم ہوتی تھی ، مرد چالیس سال اور عورت تیس سال کے بعد اپنی صحت اور عمر کھو دیتے تھے ۔ عوام میں توہمات کی بھرمار تھی ، روحوں ،جنات اور شیاطین پر اعتقاد تھا، لوگ ڈاکٹروں سے ذیادہ جادو ٹونے پر یقین رکھتے تھے۔

بیماریوں کے ساتھ لوگوں کو قحط ،خشک سالی اور وباوٴں کا سامنا تھا ، غذا کی کمی تھی ، کاشتکاری کے قدیم طریقے رائج تھے ، لوگوں میں وبائیں اور بیماریاں پھیل جاتی تھیں لیکن ان کا علاج نہیں ہوتا تھا۔ جاگیر دار اپنے علاقے کا مکمل حکمران تھا ، وہ کاشتکاروں پر ظلم کرتا، چھوٹے زمینداروں سے خراج وصول کرتا او ر عوام کو مزدور بنا کر ان سے چوبیس چوبیس گھنٹے کام لیتا۔

جاگیر دار کو یہ بھی حق تھا کہ وہ اپنے ماتحت افراد کو غلام بنا لیتا ، ان کی املاک پر قبضہ کر لیتا ، کسانوں کو بیچ دیا جاتا ، روس میں دستور تھا کہ جب زمین بیچی جاتی تو مزارعین کو بھی ساتھ ہی بیچ دیا جاتا تھا ۔ جاگیر داروں کا کام صرف شکار کرنا اور سیر و تفریح کرنا تھا۔ اگر کوئی فرد کلیسا سے اختلاف کرتا تو اسے بدعتی ڈکلیئر کردیا جاتا اور بدعتی کا مطلب تھا کہ اب یہ شخص دنیا میں رہنے کے قابل نہیں ۔

بائبل کو پڑھنے اور سمجھنے کی اجازت نہیں تھی ، بائبل کا ترجمہ ممنوع تھا، پادریوں کی آمریت قائم تھی ، عورت کو معاشرے میں منحوس سمجھا جاتا تھا ، ہر علاقے کے عوام لے لیئے ضروری تھاکہ وہ کم از کم سال میں ایک بار پادری کے سامنے حاضر ہو کر اپنے گناہوں کا اقرار کرے ۔پیدائش کے بعد بپتسمہ اور شادی اور موت کے وقت پادری سے مذہبی رسومات اداکروائی جاتی تھیں ،چرچ کی گھنٹی سے سونے اور جاگنے کے اوقات کا تعین ہوتا تھا اور عوام کو ہر لمحے عیسائی ہو نے کا احساس دلا یا جاتا تھا“ میں سانس لینے کے لیے رکا اور دوبارہ عرض کیا ” اس مماثلت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہمیں بھی برطانیہ کے نقش قدم پر چل پڑنا چاہیے بلکہ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ عروج کی چنگاری ہمیشہ زوال کی راکھ سے بڑھکتی ہے اور پاکستان تو اب الحمد للہ اپنے پاوٴں پر کھڑاہو چکا ہے ، ہم نے اپنے داخلی مسائل پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے اور آنے والے دنوں میں پاکستان کا مستقبل بہت روشن ہو گا ۔

اور اگر تم برا نہ مانو تو میں یہ پیشنگوئی بھی کر سکتا ہوں آئندہ آنے والے زمانے میں عالم اسلام کی قیادت پاکستان کے حصے میں آئے گی اور پاکستان دنیا کا ایک خوشحال ملک ہو گا “نوجوان کی آنکھوں میں چمک تھی اور وہ میری اس پیشنگوئی کے محرکات اور دلائل جاننا چاہتا تھا، وہ محرکات اور دلائل کیا ہیں ان کا تذکرہ پھر کبھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :