بات کرنے کا کیافائدہ؟؟؟

بدھ 10 فروری 2016

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

ہم جیسے بے بس لوگ (یا بے بسی کی تختی زبردستی گلے میں ڈالے ہوئے)کو باتیں کرناخوب آتا ہے اور کرتے بھی ہیں لیکن انت کہاں ہوتا ہے؟ یہی کہ بات کرنے کاکیافائدہ ‘ جب سنی مانی ہی نہیں جائیگی۔گویا کہ بات کربھی لی ‘دل کی بھڑاس نکال لی مگر یہ بھی خوب پتہ ہے کہ سنی اورمانی نہیں جائیگی۔ خوب است کہ دل کی بھڑاس تونکل گئی۔ سو آج ہم بھی اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں یہ سوچے بنا کہ ان پر کسی نے سوچنا یا عمل کرنا ہے یانہیں؟حکومتوں سے توقع رکھنا تو ویسے بھی عبث ہے کہ حکمرانوں کے گرداگرد ”مالشیوں“ اور ”چاپلوسوں“ کا ایسا گھیراہوتا ہے کہ جنہیں توڑنا یااپنی آواز پہچانا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہوتی ہاں ہم جیسے کاغذ قلم کے مزدور بھی دل کے پھپھولے کاغذ پر بکھیر کر وقتی طورپر خوش ہوجاتے ہیں کہ ہماری سن لی جائے گی مگر․․․․․․․․․․․․․․ہوتا کچھ نہیں ۔

(جاری ہے)

چلئے خوش فہمیوں کے جہاں کو آباد رکھتے ہوئے آج دل کی بھڑاس ہی نکال لیتے ہیں۔
باتیں وہی ہیں جو ہم روز پڑھتے ‘سنتے ہیں‘ چینلز کی بہتات ہے ‘اخبارات کی بھرمار ہے ‘ہرچینل‘ ہراخبار تقریباً ایسی ہی خبریں چھاپ یانشر کرکے اپنافرض پورا کرلیتے ہیں‘رہے لوگ تو ان کے منہ سے غلیظ گالیاں اوربددعائیں نکلتی ہیں مگر اثر ․․․․․․․․․ابھی تک تو شاید اثرات سامنے نہیں آرہے۔

خیر بات شرو ع کرتے ہیں ملک کے ہونہار وفاقی وزیر اسحاق ڈار کے پاسپورٹ کی ‘ جو قومی خزانے کو بیس ہزار میں پڑا‘ موصوف اپناپاسپورٹ لاہور ائرپورٹ پر بھول گئے اور پھر حکم شاہی نازل ہوتا ہے کہ علی الصبح پاسپورٹ انہیں اسلام آباد چاہئے‘خساروں‘ قرضوں اور بحرانوں میں ڈوبتی ابھرتی قومی ائرلائن پی آئی اے کے کارپردان بیس ہزار کرائے پر خصوصی ٹیکسی کے ذریعے وہ پاسپورٹ موصوف تک پہنچادیتے ہیں۔

حالانکہ وزیراعظم سے لیکر چھوٹکڑے وزیروں تک سبھی یہی رونا روہے ہیں کہ پی آئی اے کو سیاسی ‘ذاتی مفادات کیلئے استعمال کیاجاتا رہا‘ خیر اب تو معاملات اتنی حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ کئی لوگ قتل کردئیے گئے‘ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد ایک اور خونی واردات ‘ خون کے دھبے وفاقی‘ صوبائی حکومت کے دامن پر ہیں مگر سیاسی مالشیوں‘ چاپلوسوں نے فی الوقت حاکمین کی آنکھو ں پر پٹی باندھ رکھی ہے‘ سو مزید کیا کہیں کہ ”بات کرنے کا کیافائدہ“
#میٹروبس کے بعد ان دنوں اورنج ٹرین کی کہانی عام ہے‘ صوبائی دارالحکومت کی سڑکوں کے بیچوں بیچ شروع کئے جانیوالے اس ”سادھرن منصوبے “ پر انہی سیاسی مالشیوں اور چاپلوسوں کی طرف واہ واہ جاری ہے‘ جبکہ دوسری جانب صوبہ بھر کے ڈی سی اوز‘ ایکسائز آفسز‘ محکمہ ہیلتھ سمیت دیگرمحکمہ جات کو احکامات موصول ہوچکے ہیں کہ چھوٹے موٹے قصاب سے لیکر ‘عام موٹرسائیکل سوار تک (جو موٹرسائیکل تو خرید لیتے ہیں مگر بوجوہ رجسٹریشن نہیں کراپاتے ) اورپھر چھوٹے موٹے ہوٹل مالک سے لیکرملکیتی اراضی رکھنے والے تک ‘سبھی سے دوچار سو روپے سے لیکر ہزاروں تک‘ وصولی کرکے لاہور بھیجی جائے آخر اورنج ٹرین کو لاہور کی سڑکوں پر دوڑانا ہے ۔

یقینا منصوبہ اچھا ہوگا لیکن وصولی قصابوں‘ ہوٹل مالکان‘ موٹرسائیکل سواروں سے کرنا اورپھر چھتیس اضلاع کی وصولی محض ایک منصوبے پر لگانا جس کا فائدہ بھی ان چھتیس اضلاع کے لوگوں کو نہیں ہونا؟؟ چہ معنی دارد․․․․․․․․ مزید بات کرنے کیافائدہ کہ کسی نے سننا ‘مانناتو ہے نہیں
# اسمبلیوں میں بیٹھے لوگوں کی طرف سے آئے روز استحقاق پر مبنی تحاریک جمع کرائی جاتی ہیں‘ یقین کریں کہ اگر کوئی بھی ذی شعور ان تحاریک کا مطالعہ کرے تو خواہ مخواہ اپنی بے بسی پر رونا آجاتاہے‘ پچھلے دنوں ایک صاحب نے صوبائی اسمبلی میں تحریک استحقاق جمع کرائی وہ عجیب سی تھی کہ ایک یونیورسٹی کے سب کیمپس کے انچارج وائس چانسلر نے ان سے بات کرنا گوارہ نہیں کیا کیونکہ موصوف سیاستدانوں سے میل جول کو اچھا نہیں سمجھتے۔

بس جی ممبر اسمبلی کو ادراک ہونے لگا کہ اس رویہ سے ان کا ہی نہیں پورے ایوان کا ”استحقاق مجروح “ ہوا ہے‘ مان لیا کہ ایوان کا استحقاق مجروح ہوا ‘لیکن ذرا دل پر ہاتھ کر یہ بتائیے کہ جو ممبر اسمبلی ہزاروں لاکھوں لوگوں کے ووٹ سے اسمبلی پہنچ جائے اورپھر عوام کی خبر تک نہ لے ؟ کیا کہیں گے ممبران اسمبلی ‘آئینی قانونی ماہرین بیچ اس مسئلہ کے‘ کہ کیا اس روئیے سے لاکھوں‘ ہزاروں لوگوں کا استحقاق مجروح نہیں ہوتا؟مزید بات کرنے کیافائدہ؟؟ سو ”چپ کرجا ‘نہ کرشور ․․․․․․․․․․
#ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک بات بڑے ہی شد ومد سے دہرائی جارہی ہے بلکہ بڑے ہی دلچسپ انداز میں تبصرے بھی جاری ہیں۔

کہاجارہا ہے کہ حکمران پی آئی اے سمیت دیگراداروں کو ”خساروں “ کی وجہ سے نجکاری کی بھینٹ چڑھاناچاہتے ہیں کہ یہ سراسر خسارے میں جارہے ہیں‘ دل جلوں کاکہنا ہے کہ اگر اسی کو ہی بنیاد بنالیاجائے تو پھرقوم پر بوجھ بننے والے ان اداروں کے بارے کیا خیال ہے جن میں ہم نے وی آئی پیز کو پالا ہوا ہے‘ ان اداروں کی سالانہ کارکردگی رپورٹ بھی کم ازکم شائع کی جانی چاہئے تاکہ پتہ چلے کہ قوم کو کروڑوں اربوں کے بدلے کیا ملا؟ دلچسپ امر تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان ایوانوں میں ہونیوالے اجلاسوں میں شرکا کی تعداد بھی اگر سامنے لائی جائے نیز یہ بھی قوم پر منکشف کیاجائے کہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ نے کتنے اجلاسوں میں شرکت کی یا پھر کتنی بار اسمبلیوں کارخ کرنے پر مجبور کئے گئے یا مجبورہوئے؟؟ یقینا سودوزیاں کے اس دھندے میں سبھی شامل ہیں؟ سو ان اداروں کی ”نجکاری “ کا بھی سوچاجاناچاہئے ‘ لیکن بات کرنے کاکیافائدہ کہ کوئی سنتا ہی نہیں ۔

سب کی آنکھوں پر مالشیوں اورچاپلوسوں نے پٹیاں باندھ رکھی ہیں اوردلوں پر ویسے ہی کالے سیاہ دھبوں کاراج ہے ۔سو آنکھ دیکھتی نہیں دل قوم کے درد یا کسی پھپھولے کو ماننے کاروادار نہیں․․․․سو خاموشی ہی بھلی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :