تبدیلی نہیں تبادلہ

منگل 16 فروری 2016

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

خیبرپختونخوااحتساب کمیشن کے مستعفی ڈی جی جنرل (ر) حامد خان کے تہلکہ خیز انکشافات سن کرمجھے اپنے مٹھواستاد یاداآنے لگتے ہیں،یہ کوئی پندرہ سال پہلے سن2000یا2001کی بات ہوگی،میں تعلیم کے سلسلے میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ایک پوش سیکٹر میں رہائش پذیر تھا،وہیں مٹھو استاد سے ملاقات ہوئی جوپھر دوستی میں تبدیل ہو گئی،مٹھو استاد انتہائی شریف اوراعلیٰ تعلیم کے ساتھ دیگر بھی کئی اوصاف اورصفات کے حامل تھے ،ڈرائیور ہونے کی وجہ سے لوگ اسے مٹھو استاد کے نام سے پکارتے تھے،جہاں میں مقیم تھا مٹھو استاد بھی اسی سیکٹر میں قریب ایک گھر میں گھریلو ڈرائیور کے فرائض سرانجام دے رہے تھے ،فرصت کے اکثرلمحات ہم ایک ساتھ گزارتے ،ایک دن میں نے مٹھو استاد کوبہت پریشان اورگہرے سوچوں میں گم پایا۔

(جاری ہے)

میں نے فوراًوجہ پوچھی،مٹھو استاد گویاہوئے،جوزوی صاحب، اللہ نے ایک امتحان میں ڈال دیاہے۔۔۔۔؟مجھے دودن پہلے گاڑی سے سونے کاایک ہارملا ہے،کل سے اس کامالک تلاش کررہاہوں مگرکوئی پتہ نہیں چلتا کہ کس کاہے۔۔؟میرے قریب بیٹھے میرے خالہ زاد بھائی محمدخالد نے مذاقاً کہاکہ مٹھو اس میں پریشان ہونے کی کیابات ہے ۔۔آپ کواگر اتنی فکر ہے اورکوئی مالک نہیں مل رہا توہم ہی اس کے مالک بن جاتے ہیں ۔

مٹھو نے کہا کہ اس طرح میری پریشانی ختم نہیں بلکہ اوربڑھے گی ۔بہرحال دوسرے دن مٹھو استاد کواس ہار کامالک یامالکن مل گئی،مٹھو جن کی گاڑی چلاتاتھا وہ ہار انہی کے کسی رشتہ دار کاتھا جومٹھو نے ان کوواپس کردیا۔اس واقعہ کے چارسال بعد ایک دن میں اورمٹھو ایک ہوٹل میں بیٹھ کرکھاناکھارہے تھے ،ہوٹل کامالک ان پڑھ ہونے کے ساتھ کمال درجے کاسادہ بھی تھا،کھانے پینے کی اشیاء تووہ خودمیز تک پہنچاتا لیکن لوگوں سے پیسے ان کے کہنے کے مطابق لیتا ۔

مطلب کوئی شخص اگرگوشت کھاکردال سبزی کاکہتا کہ میں نے دال یاسبزی کھائی ہے تووہ اس سے گوشت کے نہیں بلکہ دال یاسبزی کے پیسے لیتا،ہم نے فرائی مرغی کے ساتھ تقریبا چھ روٹیاں توڑیں لیکن بل دینے کیلئے جس وقت مٹھو استاد آگے ہوئے تواس وقت میری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ چارسال پہلے جومٹھو لاکھوں کا ہار اصل مالک کوواپس کرنے کیلئے پریشان اوربے تاب تھے۔

آج وہی مٹھو استاد تھوڑے سے پیسوں کیلئے سامنے کھڑے ایک اور مالک سے جھوٹ پرجھوٹ بولتے جارہے تھے۔ مٹھو استاد نے چند سوروپے بچانے کیلئے چھ روٹیوں کوچاراورفرائی مرغ کوفرائی سبزی میں تبدیل کیا۔مٹھواستاد کی طرح تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی چندسال پہلے چوروں اورلٹیروں کونشان عبرت بنانے کی سوچ رکھتے تھے لیکن خیبرپختونخوا احتساب کمیشن کے مستعفی ڈائریکٹر جنرل حامد خان کے تہلکہ خیزانکشافات اس بات کی چغلی کھار ہے ہیں کہ عمران خان بھی مٹھو استاد کی طرح چند سالوں میں کچھ نہیں بہت بدل گئے ہیں۔

جوعمران خان کل تک عوام کے غصب شدہ حقوق ان کوواپس کرنے کیلئے راہیں تلاش کرتے تھے ،آج وہی عمران خان غاصبوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔ صوبائی اسمبلی اورکابینہ کے کرپٹ وزراء اورارکان کوبچانے کیلئے کے پی کے احتساب کمیشن کے اختیارات کوترامیم کے ذریعے کم کرکے ڈی جی احتساب کمیشن کوبے اختیار کرنا کوئی ایمانداری نہیں،عمران خان اورپرویزخٹک توپہلے کہتے تھے کہ کرپشن اورلوٹ مار کے خاتمے کیلئے اگرصوبائی حکومت بھی قربان کرنی پڑے تودریغ نہیں کرینگے ،پھر چند لوگوں کوبچانے کیلئے یہ سب کچھ کیوں کیاگیا ۔

آج پرویزخٹک فرمارہے ہیں کہ جنرل (ر) حامد خان مرضی کے فیصلے کرنے لگے تھے ۔یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ جنرل حامد خان اگروزیراعلیٰ کی مرضی کے مطابق فیصلے کرتے توکیا اس طرح کرپشن کاراستہ روکاجاسکتا۔۔؟ اس ملک میں ہمیشہ یہی ہوتارہاہے کہ جب تک کوئی افسر غریب اوربے چارے ملازمین اورشریف افسران پرہاتھ ڈالتا ہے تواس وقت تک وہ انتہائی ایماندار اورامانت دار سمجھاجاتاہے لیکن جب وہی افسر کسی حکومتی وزیر،مشیر ،ایم این اے ،ایم پی اے یاحکمرانوں کے کسی چمچے پرہاتھ ڈالنے کیلئے اپنے آستین اوپرچڑھا نا شروع کرتا ہے توپھرپرویزخٹک کی طرح ہمارے ان سادہ حکمرانوں کے ہاں اس سے بڑاکرپٹ ،چوراوربدمعاش کوئی نہیں ہوتا،جنرل (ر) حامدخان کارخ بھی جب تک دوسری طرف تھا اس وقت تک پی ٹی آئی تقریبات ،پریس کانفرنسوں اوراجلاسوں میں نہ صرف کے پی کے احتساب کمیشن کے چرچے تھے بلکہ حکومتی وزیراورمشیر جنرل حامد خان کی ایمانداری اورامانت داری کے گن بھی گارہے تھے ۔

لیکن جب جنرل حامد خان کے لمبے ہاتھ اپنی طرف بڑھتے دکھائی دیئے توپھر پورے صوبے میں جنرل حامد سے بڑاسرکش اورنافرمان کوئی نظر نہیں آیا۔جنرل (ر) حامد خان نے بھی جاتے جاتے پی ٹی آئی کی تبدیلی کابھانڈا پھوڑ دیا ہے،حکومتی کاغذات ،وزیراعلیٰ ،وزیروں ،مشیروں اورتحریک انصاف کے عہدیداروں وکارکنوں کی زبانوں پرتوتبدیلی کاغلاف چڑھ چکا ہے اوران کے ہاں پورے صوبے میں تبدیلی آچکی ہے لیکن زمینی حقائق کچھ اورہیں۔

جوحالات پہلے تھے آج وہ اس سے بھی بدتر ہوگئے ہیں،نہ پولیس ٹھیک ہوئی نہ ہی پٹواریوں کی عادت بدلی ،بدلہ توکچھ نہیں لیکن غریبوں پربوجھ ضروربڑھا،جولوگ پہلے سرعام تھوڑی سی رشوت لیتے تھے وہ اب خفیہ طورپربھاری معاوضہ طلب کرتے ہیں۔ صوبے میں کرپشن توختم نہیں ہوئی لیکن ریٹ ضروربڑھ گئے ہیں۔ پولیس افسران اوراہلکار کل بھی حاکم تھے آج بھی وہ حاکموں سے کم نہیں،انصاف کل بھی بکتا تھا آج بھی اس صوبے میں کسی غریب کوبغیرپیسوں کے انصاف ملتا نہیں،پہلے بھی غریب ہی تھانے اورکچہریوں کی زینت بنتے تھے آج بھی یہ تھانے اورکچہریاں انہی غریبوں سے خالی نہیں،خیبرپختونخوا کے پولیس اہلکار،ڈاکٹرز،پٹواری،سیاستدان اورافسران توبدلے نہیں مگر عمران خان مٹھو کی طرح اتنے بدل گئے ہیں کہ اب انہیں غریبوں کی بھی کوئی فکر نہیں۔

اس لئے خیبرپختونخوامیں تبدیلی توابھی تک نہیں آئی البتہ عمران خان کاتبادلہ ضرورہواہے ،عمران خان چندسال پہلے جس مقام پرکھڑے تھے اب وہ مٹھوکی طرح وہاں سے بہت دورہوگئے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :