کرکٹ میں ہاراورجیت

جمعرات 3 مارچ 2016

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

شاہد آفریدی نے کیا بات کی۔۔۔۔؟ کہتے ہیں ازلی دشمن بھارت سے شکست کھا کر کوئی دھچکا نہیں لگا۔ ٹھیک کہا جب دل سے غیرت و حمیت کا جنازہ نکل جائے ۔۔۔۔ جب شرم اور بے شرمی میں کوئی تفریق باقی نہ رہے تو پھر دشمنوں سے شکست کھانے اور ان کے سامنے رسوا ہونے میں کیا حرج۔۔؟ اور کونسادھچکا۔۔؟ دشمن سے مار کھانے پر دھچکا تو ان لوگوں کو لگتا ہے جن کے دل میں غیرت و حمیت کا ایک ذرہ بھی باقی ہو۔

۔ دشمن سے پٹنے پر درد وتکلیف تو ان لوگوں کو ہوتی ہے جن میں تھوڑی سی بھی شرم و حیا ہو۔ جو لوگ سالوں سال دشمن سے پٹتے رہیں۔ان کے سامنے بھیکی بلی بنے رہے۔ واقعی ان کو اس طرح کے شکستوں سے کیا دھچکا لگ سکتا ہے۔۔؟ ایشیا کپ کے اہم میچ میں بھارت کے ہاتھوں بدترین شکست سے شاہد آفریدی سمیت پوری ٹیم کو یقینا کوئی دھچکا نہیں لگا کیونکہ اگرکوئی دھچکالگنے کاذرہ بھی کوئی گمان یاامکان ہوتاتووہ اس طرح کی بے حسی اوربے غیرتی کامظاہرہ کبھی نہ کرتے۔

(جاری ہے)

قومی ٹیم کی اس شکست نے پوری قوم کے ارمانوں کا جو خون کیا ہے ان کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ کرکٹ میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے اور ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ کھیل کو کھیل کی حد تک دیکھنا چاہیے لیکن ساتھ ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ کرکٹ میں صرف ہار نہیں ہوتی۔ سو میچوں میں اگر 95 میچوں میں شکست ہو تو پھر اسے ہار کا نام تو دیا جا سکتا ہے لیکن ہار جیت کا نہیں۔

شاہد آفریدی کی بات میں سوچنے اور سمجھنے والوں کیلئے ایک دونہیں کئی رازمضمر ہے۔ بھارت سے شکست کھانے پر قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو معمولی سا دھچکا بھی اگر لگتا تو کیا ہمارے یہ کھلاڑی اس طرح شکستوں پر شکست کھا کے موٹے ہوتے۔ انڈیا کے ساتھ آج تک جتنے بھی میچ ہوئے دس پندرہ نہیں اکثر میں ہمارے ان کھلاڑیوں نے بے غیرتی کی تمام حدیں کراس کیں۔

میچ ہارا بھی جاتا ہے لیکن کسی طریقے کے ساتھ۔ بیس رنز پر چار اور 80 پر پوری ٹیم آؤٹ ہو یہ کونسی جیت کی کوشش ہوئی۔ پاکستانی کھلاڑی اگر انڈیا کے خلاف کھیلتے ہی ہار کیلئے ہیں تو پھر یہ اس سادہ لوح قوم کو غم و کرب میں مبتلاء کیوں کرتے ہیں۔۔؟ جب بھی پاک بھارت میچ ہو پوری قوم اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر میچ دیکھنے لگ جاتی ہے لیکن جب ان کی یہ ٹیم بے شرمی کی انتہاء کرتے ہوئے گیدڑ کاروپ دھارتی ہے تو پھر چھوٹوں کے ساتھ بڑوں اور مردوں کے ساتھ خواتین کے دل بھی کرچی کرچی ہو جاتے ہیں۔

ایسے کتنے لوگ ہوں گے جو ایشیا کپ کے اہم میچ میں بھارت کے ہاتھوں شکست پر آنسو بہا بہا کر روئے ہوں گے۔۔؟ کتنوں نے ٹی وی توڑ کر سوگ میں اپنے سر گنجے کئے ہوں گے۔۔؟ کتنوں نے میچ ہارنے کے سوگ میں کھانا تک نہ کھایا ہوگا۔۔؟ کراچی سے گلگت اور کوئٹہ سے سوات تک بھارت سے شکست پر سوگ کا عالم رہا۔ ہر دل زخمی اور ہر آنکھ اشکبار نظر آئی لیکن قوم کرکٹ ٹیم کے بے حس اور بے ضمیر کھلاڑیوں کو ہلکا سا دھچکا بھی نہ لگا۔

شکست کھانے والوں کو ہی اگر دھچکا نہ لگے تو پھر قوم کو بھی ان کی فکر چھوڑنی چاہیے۔ سوچنے کی بات ہے آخر کب تک ہم بھارت سے شکست پر آنسو بہائیں گے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھئے جب بھی قومی ٹیم کا بھارت کے ساتھ اس طرح کا کوئی ٹاکرا ہوا شکست اس میں ہمیشہ قومی ٹیم کو ہوئی۔ کھانے پینے اورموٹاپے میں ہمارے کھلاڑی بھارتی سورماؤں سے کم نہیں۔ ان کی تنخواہیں اور دیگر مراعات بھی دھونی الیون سے زیادہ۔

پھر ہر میچ میں شکست ان کا مقدر کیوں۔۔؟ لگتا ہے کہ ہمارے کھلاڑی بھی سیاستدان بن چکے ہیں۔ سیاست تو ہماری کرکٹ میں پہلے ہی سرایت کر گئی تھی لیکن بھارت سے شکست کھانے پر قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کی خوشی کو دیکھ کر یوں محسوس ہورہا ہے کہ ہمارے یہ کھلاڑی بھی اب سیاستدان بن چکے ہیں کیونکہ جس طرح سیاستدانوں کو عوام کی کوئی فکر نہیں ہوتی اسی طرح اب ان کھلاڑیوں کو بھی لاکھوں نہیں کروڑوں عوام کے جذبات و احساسات کی کوئی پرواہ نہیں۔

شاہد آفریدی سمیت دیگر کھلاڑیوں کو اگر شائقین کرکٹ کی ذرہ بھی فکر ہوتی تو وہ بھارت کے ہاتھوں اس طرح اپنی دھلائی کبھی نہ کرتے۔ مانا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ میچ پاک بھارت جنگ نہیں لیکن شاہد آفریدی سمیت تمام کھلاڑیوں کو ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان کوئی بھی میچ جنگ سے کم بھی نہیں ۔ جیت کی خوشی میں اگر پورے انڈیا کو سر پر اٹھایاجا سکتا ہے تو ہار پر پورا پاکستان لرزے گا کیوں نہیں ۔

۔؟ آخر غیرت و حمیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ دشمن سے ہار اور شکست پر نہ صرف غیرت مند لوگوں کے دل دکھتے ہیں بلکہ ان کو شدید دھچکا لگنے کے ساتھ ٹھوکر بھی لگتی ہے۔ بھارت کے خلاف میچ میں قومی ٹیم نے جس طرح کھیل پیش کیا ان کی جگہ اگر کسی محلے کی کوئی ٹیم ہوتی تو وہ بھی ان سے بہتر پرفارمنس دے کر قوم کو اس طرح مایوس کبھی نہ کرتی۔ قومی ٹیم نے پوری قوم کی ناک کاٹ کے رکھ دی ہے۔

بھارت سے شکست کوئی معمولی واقعہ نہیں یہ کروڑوں دلوں کے جذبات و احساسات کا معاملہ ہے۔ اس کو اس طرح نظرانداز نہیں کرنا چاہیے ۔اس کا سخت نوٹس لے کر شیر سے گیدڑ بننے والے کھلاڑیوں کے خلاف فوری کارروائی کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں پی سی بی کا سب سے پہلے احتساب ضروری ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام اگر پسندو ناپسند اور سیاسی اثرورسوخ پر کھلاڑیوں کا انتخاب نہ کرتے تو قوم کو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ عبدالرزاق جیسے کھلاڑیوں پر اگر کرکٹ کے دروازے بند کئے جائیں گے تو پھر انجام تو یہی ہوگا۔ اس لئے کرکٹ بورڈ سے سفارشی کلچر کا فوری خاتمہ کرنا ہوگا تاکہ قوم کو آئندہ ایساکوئی دن دیکھنانہ پڑے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :