کھانچے، تماشے اور طمانچے

بدھ 9 مارچ 2016

Mubashir Mir

مبشر میر

کسی سے ملاقات ہویا کسی محفل میں جائیں ہر جگہ ایک ہی جملے سے گفتگو کا آغاز ہوتا ہے، کہ کیا ہورہا ہے؟ ہر کوئی اسی کھوج میں نظر آتا ہے۔ بعض لوگ ایسے مواقع پر اپنی معلومات کا خزانہ لٹانے کیلئے بے تاب دکھائی دیتے ہیں۔ ہر صحافی کو اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ زیادہ خبریں تو آپ کے پاس ہیں، کوئی اندر کی بات بتائیں۔ میں اپنے بارے میں تو نہیں کہہ سکتا لیکن اپنے کئی دوستوں کے متعلق ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ان کے سینے میں خبروں اور معلومات کا جو خزانہ دفن ہے اگر وہ ہر خاص و عام کیلئے اگلنا شروع کردیں تو واقعی کئی لوگوں کو دن میں تارے نظر آنا شروع ہوجائیں۔

صحافی کے اندر جو ایڈیٹنگ کا سسٹم ڈویلپ (Develop) ہوجاتا ہے وہ بہت سی خبریں قابل اشاعت حالت میں ہی زبان پر لاتاہے۔

(جاری ہے)

لیکن صورتحال کاایک رخ یہ بھی ہے کہ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر وہ کچھ سامنے آرہا ہے جس کا دس برس قبل تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بڑے انکشافات کے باوجود کسی کے کان پر جُوں تک نہ رینگنے والی بات بھی درست ثابت ہورہی ہے۔

احتساب کا شور و غل سننے کے بعد ہر کوئی اس کا اندازہ لگاسکتا ہے۔
قومی احتساب بیورو (نیب) کی ویب سائٹ ملاحظہ کریں تو بڑے کمال کے کھانچے تفصیلات کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ یہ وہ کیسز ہیں جو نیب کی طرف سے سپریم کورٹ میں بھی پیش کئے جاچکے ہیں۔ کسی جگہ نظر آتا ہے کہ فلاں ابن فلاں نے کرپشن کرتے ہوئے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا، کہیں لکھا ہوا ہے کہ وزیر، مشیر یا افسرانِ اعلیٰ نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچایا۔

میگا کرپشن کیسز کی تفصیلات اس کے علاوہ ہیں۔ ویب سائٹ پر تفصیلات شائع ہونے کے علاوہ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر بھی ان کی تفصیلات پڑھنے اور دیکھنے کو ہر پاکستانی کو ملتی رہتی ہے۔ میگا کرپشن کیسز دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان کتنا امیر ملک ہے۔ ہر حکومت میں شامل لوگ اور بیوروکریسی تیزی سے مال بنارہے ہیں جس کے گواہ دنیا کے بڑے بڑے بینک ہیں خاص طورپر سوئس بینک کے اکاؤنٹس پاکستانی عوام اور احتساب بیورو کے افسران اور عوام کا منہ چڑھانے کیلئے کافی ہیں۔


ایسی صورت حال کی دیکھا دیکھی ایک عام آدمی بھی صبح گھر سے نکلتے ہوئے یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ آج کونسا اور کیسے کھانچہ لگانا ہے، گویا کروڑوں لوگ کھانچے کو اوّلین سمجھتے ہوئے سیاسی ذہن کے ساتھ کام کیلئے گھر سے نکلتے ہیں۔ گویا ایک منفی سوچ ملک کے طول و عرض میں پھیل جاتی ہے جس کے آگے اکثر مثبت سوچ ماند پڑجاتی ہے۔
کھانچوں کی تفصیلات پڑھ پڑھ کے دل کی گہرائیوں سے جو صلواتیں نکلتی ہیں وہ اپنی جگہ لیکن اس کے بعد ہم نے جو تماشے لگے دیکھے ہیں وہ ہنستے ہنستے رلادیتے ہیں۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جس کا داؤ نہیں لگا وہی کھانچوں کے خلاف زبان درازی کرتا ہے جس کا لگ گیا اس کو ساون کے اندھے کی طرح ہرا ہرا ہی سوجھتا ہے۔ سب اچھا دکھائی دیتا ہے۔ دنیا ترقی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ تماشے دیکھنے والے قنوطیت کا شکار ہوکر ہر صاحب اختیارکو کوسنے دینے شروع کردیتے ہیں۔ مرزا غالب# بھی جب عتاب میں آئے تو دربار شاہی تک رسائی رکھنے والوں کو جملے کسنے سے باز نہ آئے تھے۔

ابراہیم ذوق# کو شاہ کا مصاحب ہونے پر طعنہ دیا۔ عیش کی زندگی گزارنے والے ایک رئیس تجمل حسین خان کو بھی دیکھ کر دل جلایا۔ مرزاکو اگر قرض کی مئے اور ٹپکتی ہوئی چھت کی جگہ آسودگی میسر آتی تو مرزا کے خطوط بھی صرف حسینوں کے نام نکلتے۔ بہرحال بات کہیں اور نہ نکل جائے۔ کھانچوں کے تماشے جو ہم آج تک دیکھ چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں اور نجانے کتنے دیکھیں گے وہ اتنے حیران کن ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی کرپشن ہونے کے باوجود ہمارے لطیفے بن چکے ہوں گے۔

چند مشہور زمانہ کھانچے جن کے تماشے کورٹ کچہری اور پھر میڈیا پر آئے دن زبان زد عام ہیں۔ کھانچے بازوں نے کمال فن اور دیدہ دلیری سے اپنا کام کیا اور آخر میں ملک کے عدل و انصاف کے نظام اور بے چاری پاکستانی عوام کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ لگایا اور شادیانے بجاتے ہوئے نہ صرف بخشے ہوئے برگزیدہ لوگوں کی صف میں کھڑے ہوگئے بلکہ بعض تو مسند پر بٹھادئیے گئے۔

ایک سیاسی جماعت کے اعلیٰ ترین قائد سترہ برس ایک مقدمے کا سامناکرتے رہے اور بالآخر نظامِ عدل پر ایک زور دار طمانچہ رسید کرنے کے بعد سرخروئی کا نعرہ بلندکرتے ہوئے پارٹی کی اعلیٰ ترین مسند سنبھال لی جبکہ اِسی طرح کے الزامات کے ساتھ ساتھ جیتے ہوئے ہمارے کئی سیاستدان اور بیوروکریٹ ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور فائز بھی ہیں۔

دنیا بھر میں ایسے تماشوں کا تصور ناممکنات میں سے ہے۔ الزامات کے بعد لوگ استعفیٰ دیتے ہیں، کورٹ میں سامناکرتے ہیں اگر سزا یافتہ ہوجائیں تو سزا بھگتنے میں تامل نہیں کرتے۔ اگر سرخرو ہوجائیں تو پھر نیا راستہ اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ باغیوں کی داستانوں سے بھری ہوئی ہے۔ جنہوں نے نظام ظلم کو ختم کرنے کا نعرہ لگایا۔

صدر ایوب خان سے ذوالفقار علی بھٹو نے بغاوت کی اور مسند اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوگئے لیکن نظامِ ظلم ختم نہ کرسکے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے غلام مصطفی کھر نے بھی بغاوت کی تھی لیکن معافی تلافی ہوگئی۔ میاں نواز شریف نے محمد خان جونیجو سے بغاوت کی، بینظیر بھٹو سے فاروق لغاری نے بغاوت کی۔ لیکن نظام ظلم اپنی توانائیوں کے ساتھ موجود ہے۔

آصف علی زرداری سے ذوالفقار مرزا اور شاہ محمود قریشی نے بغاوت کی۔ جاوید ہاشمی کی بغاوت بھی ان کی وجہ شہرت ہی ہے۔ لیکن یہ صاحبانِ علم بغاوت بلند کرنے کے بعد نظام ظلم کا خاموشی سے حصہ بن کر تبدیلی کے نعروں سے عوام کا دل بہلارہے ہیں۔ اب اچانک مصطفےٰ کمال نے اپنی پارٹی کے قائد سے بغاوت کی ہے۔
الزامات بھی سنگین لگائے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ اس بغاوت کو کامیاب بنانے کیلئے انہوں نے ہوم ورک کتنا کیا ہے۔

جس کرپشن کا ہم ذکر کررہے ہیں۔ اگر ان کے لوگ اس میں ملوث تھے تو پھر اس وقت وہ خوفزدہ ہوکر اس کا حصہ کیوں بنے رہے۔ انہیں قوم سے اپنے رویے کی معافی بھی مانگنی پڑے گی یہ بھی بتانا پڑے گا کہ انہوں نے کتنی رقوم اکٹھی کرکے پارٹی کو دی تھی۔ مصطفی کمال کے ہی دور میں 12 مئی کا واقعہ ہوا تھا اس وقت ان کاکردار کیاتھا۔ اگر اپنے دورِ نظامت کے کھانچوں کے بارے میں سچ نہ بولا تو پھر ان کا بھی تماشہ دنیا دیکھے گی اب ان کیلئے قوم کو طمانچہ مار کر مسکرانا ممکن نہیں ہوسکے گا۔


پاکستان میں کوئی بھی نظامِ سیاست رائج کردیا جائے، پارلیمانی، فوجی یا صدارتی جب تک دو برائیوں میں سے کم تر برائی کومنتخب کرنے کی منطق موجود رہے گی کھانچے بھی لگیں گے، تماشے بھی ہونگے اور بالآخر طمانچے قوم کے حصہ میں آئیں گے۔ نظامِ ظلم کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
سیاستدان کہتے ہیں کہ عوام کی عدالت سب سے بڑی عدالت ہے، لیکن عملاً کیاہوتا ہے کوئی اُمیدوار جنرل نشست پر ہار جائے تو اسے خصوصی نشست پر اسمبلی کا معزز رکن بننے کا شرف بخشا جاتا ہے یا ایوانِ بالا کا رکن بنادیا جاتا ہے یا کسی بڑے ادارے کا سربراہ بنادیا جاتا ہے، حتیٰ کہ وزیر کے برابر درجہ پر مشیر بنانے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کی جاتی۔

ایوانِ بالا کے ممبر بننے کیلئے سیاسی جماعتوں نے اجتماعی دروغ گوئی کی ہے، خود ہی اٹھارہویں ترمیم بنائی اور اپنے ہاتھوں اُسے مسخ بھی کیا۔ جو کسی دوسرے صوبے کا رہائشی ہے اس کا جعلی رہائش نام تیار کرکے اسے اپنی اکثریت والے صوبے سے منتخب کروادیا اور ثابت ہوا کہ اس نظام ظلم میں ایسا کرنا بائیں ہاتھ کا کام ہے۔
ہماری عدلیہ ایک ممبر کو جھوٹ بولنے پر نااہل قرار دیتی ہے اور ساتھ ہی الیکشن لڑنے سے روکتی نہیں گویا سزا کی بجائے جزا ملتی ہے اور وہ پھر منتخب ہوکر اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح ادارے بھی نظام ظلم کو فروغ دینے میں معاونت کرہے ہیں۔ جب تک لوگوں کو بہتر افراد میں سے بہترین لوگ منتخب کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ کھانچے، تماشے اور طمانچے قوم کا مقدر رہیں گے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :