بھائی کی گرفت

اتوار 13 مارچ 2016

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس نے ملک کے سیاسی و سماجی حلقوں میں ایک نئی ہلچل پیدا کر دی ہے
ایم کیو ایم کے متاثرین اور معترضین کا خیال ہے کہ اب ”بھائی“ کی مزید نہیں چلے گی۔لیکن مجھے ایسا ہوتا دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا”بھائی“ کی صحت ضرور کمزور ہوئی ہے لیکن پارٹی پر ان کی گرفت ڈھیلی نہیں ہوئی۔ان پر اسی نوعیت کے “پر انکشاف حملے“ پہلے بھی ہوئے ہیں۔

لیکن پارٹی میں ان کے مقام اور اختیار میں کمی واقع نہیں ہوئی اور نا ہی اس تازہ حملے میں انہیں کچھ نقصان پہنچ پائے گا خواہ دوچار مزید جانثار”بے وفا“ ہوجائیں۔وہ”سرخرو“رہیں گے۔بھائی اور ایم کیو ایم کے خلاف”انکشاف“ کا پہلا بھرحملہ پور ذوالفقار مرزا کا تھا۔
انہوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ ایم کیو ایم اور الطاف حسین کو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کے واقعات کا ذمہ دار قرار دیاتھا۔

(جاری ہے)

حتیٰ کہ 30اگست2011ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہ تک کہہ دیا تھاکہ یہ پارٹی ایٹمی ہتھیار اور بیلسٹک میزائل حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم 150000اے کے 47کلاشنکوفوں اور تقریباً 15000راکٹ لانچرز ‘ اینٹی ایئرکرافٹ گنز‘ اینٹی ٹینک بارودی سرنگوں اور مارٹرز سے مسلح ہے اور اب انکل سام ( امریکہ) کی مدد سے ایٹمی ہتھیاروں حاصل کرنے کی کوششوں میں ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایم کیو ایم دوسرے ممالک کی حکومتوں کے ساتھ مل کر پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے بھی کام کر رہی ہے۔ انہوں نے نیٹو کے کئی کنٹینر غائب ہونے کا ذمہ دار بھی اسی جماعت کو قرار دیا۔
ان کی بھرپور پریس کانفرنس کئی روز تک ٹی وی ٹاک شو اور دورہ برطانیہ کے باوجود اس ساری مشق کا نتیجہ محض چند روزہ”تماشا“ کے سوا کچھ نہ نکلا۔

ذرا یاد کیجئے یہی”بیدار ضمیر“مصطفی کمال تھا جس نے ذوالفقار مرزا کی پریس کانفرنس کے ردعمل میں ٹی وی پر آکر کیا کیا”گل افشانی“ نہیں کی تھی۔آج اگر وہ انیس قائم خانی کے ساتھ مل کر ”بھائی“ کے ظلم و ستم پر رو رو کر ہلقان ہورہے ہیں تو پارٹی میں ابھی بیسوں”مصطفی کمال“ موجودہیں جو بھائی کا دفاع اسی انداز بلکہ اس سے بہتر انداز میں کرنے کے لیے بے تاب ہیں جو انداز ماضی میں مصطفی کمال اپنایا کرتے تھے۔


یہ ”فیضان نظر“ کا ہی کرشمہ ہے کہ قرآ ن پر ہاتھ رکھ کر اور ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے”نامہ اعمال“ کو دینا کے سامنے لانے کی جرأت رندانہ کرنے والے ذوالفقار مرزا آج کس‘”مقام“ پر ہیں اور ان کے ہدف الطاف حسین اور رحمان ملک کا ”مقام و مرتبہ“کیاہے۔
الطاف حسین کا”سحر“توڑنے کی کپتان نے بھی کوشش کی تھی لیکن بالآخر انہیں مصلحت کا راستہ ہی اختیار کرنا پڑا۔


ماضی قریب کا دوسرا قابل ذکر حملہ صولت مرزا کا تھا۔ صولت مرزا نے پھانسی سے قبل ٹی وی چینلز کو جاری کئے گئے اپنے بیان میں کہا کہ ایم کیو ایم کے کارکن مجھ سے عبرت پکڑیں۔ اس جگہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ حقوق‘ قومیت اور نظریات کے نام پر ہمارا برین واش کرواتے رہے‘ جب ہماری ضرورت پوری ہو گئی تو ٹشو پیپر کی طرح ہمیں ضائع کر دیا گیا۔

الطاف حسین کی نفسیات رہی ہے کہ جو کوئی ایم کیو ایم اور عوام میں مقبول ہونے لگتاہے‘ اسے کسی نہ کسی طریقے سے تحریک یا پارٹی سے ہٹا دیا جاتا ہے۔‘ جیسے عظیم احمد طارق چیئرمین تھے ان کو الطاف حسین کی ہدایت پر قتل کیا گیا‘ مصطیٰ کمال کراچی کے لئے کام کر رہے تھے‘ ان کو ہٹایا گیا اور ذلیل کر کے پارٹی سے نکال دیا گیا۔ الطاف حسین لوگوں کو اپنے برابر برداشت نہیں کر سکتے‘ استعمال کرتے ہیں ‘ ا س کے بعد پھینک دیتے ہیں۔

صولت مرزا کے ویڈیو پیغام کے بعد یوں محسوس ہوتا تھا کہ ایم کیو ایم کے جانثار کارکنان نصیحت پکڑیں گے مگرایسا ہرگز نہ ہوا۔ ”بھائی“پر تیسری”کرم فرمائی”ایس ایس پی راؤ انور کی تھی۔30اپریل 2015کو اپنے دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ ایک دہشت گرد تنظیم ہے‘ جو کالعدم تحریک طالبان سے زیادہ خطرناک ہے۔

وہ بھارتی خفیہ اینجسی ”را“کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف کام کر رہی ہے۔ حکومت کو سفارش کروں گا کہ ایم کیو ایم پر پابندی لگائی جائے۔ ایس ایس پی کے مطابق ایک روز پہلے پکڑے گئے دو دہشت گردوں نے انکشاف کیا ہے کہ لندن قیادت کے حکم پر ہر سیکٹر سے بھارت میں خفیہ ایجنسی ”را“ سے دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے کے لئے لڑکوں کے گروپ تیار کئے گئے اور کہا گیا کہ اس ٹریننگ کے بعد آپ کو جو ٹاسک دیا جائے گا وہ آپ کو پاکستان میں پورے کرنے ہیں۔


پھر مارچ 2015ء کے وسط میں رینجرز افسران نے چیف الطاف حسین کے خلاف ایک مقدمہ درج کرایا‘ جس میں کہا گیا کہ انہوں نے ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر پر رینجرز کی ریڈ کے بعد ایک ٹیلی وژن پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے پیراملٹری فورسز کو دھمکی دی اور کہا کہ ”وہ تھے (فعل ماضی ) ہو جائیں گے“ ۔ مقدمہ اینٹی ٹیررازم ایکٹ کے سیکشن سات اور پاکستان پینل کوڈ کی شق 506کے تحت درج کیا گیا۔


اور اب مصطفےٰ کمال تقریباً ویسے ہی الزامات کے ساتھ منظر عام پر آ گئے ہیں‘ جو اس سے پہلے کئی بار دھرائے جا چکے ہیں اور الزامات کا یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ کہ ایم کیو ایم کے خلاف 1992اور پھر 1996میں آپریشن کئے گئے تھے اور اس وقت بھی یہ کہا گیا تھا کہ یہ جماعت اور اس کے رہنما محب وطن نہیں۔پھر عمران فاروق کا قتل اور منی لانڈرنگ کے مقدمات بھی الطاف حسین کے گلے کی پھانس بنے ہوئے ہیں۔

لندن پولیس کے مطابق عمران فاروق نئی سیاسی پاٹی بنانے جا رہے تھے۔ اس قتل کی تحقیقات کا سلسلہ برطانیہ کے علاوہ پاکستان میں بھی جاری رہا اور آخر کار قتل کے پانچ سال بعدپانچ دسمبر2015کو آیف آئی اے کی کاؤنٹر ٹیررازم کورٹ نے ڈاکٹڑ عمران فاروق قتل کیس میں ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین سمیت کئی افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیاہے ۔ اس مقدمے اندراج کے بعد”حاسدین “ کی خواہش بے تاب ہوگئی تھی۔

لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔
مصطفی کمال ،انیس قائم خانی ڈاکٹر قیصر اور وہ سارے ”بے وفا“ جو آنے والے دنوں میں ”بھائی“ کے خلاف محاز پر اکٹھے ہوجائیں گے۔باہم مل کر بھی اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکیں گے کہ بھائی کی صحت ضرور کمزور ہوئی ہے لیکن پارٹی پر ان کی” گرفت“ ابھی ڈھیلی نہیں ہوئی۔ جبر کی رات کو ڈھلنے اور صبح نو کو اترنے میں ابھی دن باقی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :