عورت کا تحفظ اور لبرل ازم کی خواہش

جمعرات 17 مارچ 2016

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

حال میں پنجاب اسمبلی سے منظورہونیوالا تحفظ حقوق خواتین بل تاحال ملک میں انتشار کاباعث بن رہا ہے اس ضمن میں نوزائید لبرل اور نام نہاد” ترقی پسندوں“ کی باچھیں کھلی کی کھلی جارہی ہیں۔ ایسا ہی منظر ہم نے پرویزمشرف کے تحفظ حقوق نسواں بل کے ضمن میں بھی دیکھاتھا‘ ہم تو جان نہیں پائے کہ اس حقوق نسواں بل کی بدولت کتنی خواتین کو تحفظ ملا یا انکے حقوق میسرآئے البتہ بعض ”قابل اعتراض“ امور بارے یقینا شاہد بھی ہیں اور پڑھا بھی ہے کہ بہت سے فوائد ”مخصوص مقاصد رکھنے والی خواتین “ کو ضرور حاصل ہوئے۔

اس کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتے البتہ یہ ضرور عرض کریں گے کہ جب ایسا کوئی بل منظر عام پرآتا ہے تو خود کو روشن خیالی کے لبادے میں لپیٹنے والے خود بخود منظر عام پر آجاتے ہیں۔

(جاری ہے)

اب سوال یہ کہ حال میں منظور ہونیوالے تحفظ خواتین بل کے کس قدر فوائد ہونگے ؟ایک بیوی اپنے شوہر کی شکایت جب متعلقہ سنٹریا تھانے تک لے جائے گی تو کیا اس کی واپسی اپنے گھر ہوسکے گی؟ اگر وہ گھر آبھی گئی اور پھر دو دن کیلئے وہ اپنے شوہر کو گھر سے بیدخل کرکے کیا وہ ”طلاق “ جیسے طعنے سے بچ پائے گی۔

سیانوں کا خیال ہے کہ شادی صرف جسموں کا بندھن نہیں بلکہ روحوں کا میلاپ ہوا کرتا ہے اگر روحیں آپس میں نہ مل پائیں تو حالات کے بدلتے ہی جسم بھی جدا ہوجاتے ہیں۔ پھر اسلام کے نقطہ نظرسے دیکھاجائے تو اس بندھن کو قابل احترام قرار دیاگیا ہے بلکہ کہاگیا ہے کہ جب زمین پر دو مسلمان شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں توخود خداوند قدوس اس میں برکت ڈال دیتے ہیں۔


اب یہ بات کہ” تحفظ حقوق خواتین بل سے مذہبی طبقہ کے پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھ رہے ہیں’‘اپنی جگہ باعث افسوس ہے کہ پاکستان کہنے کو اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ‘اس کاآئین بھی کہنے کواسلامی بھی ہے( یہ الگ بحث کہ ان قوانین‘ آئین کے نقاط پر عمل نہیں ہورہا) اگر اس پس منظر میں دیکھاجائے تو پھر تحفظ خواتین بل نہ صرف آئین پاکستان کی رو سے اور بقول مولاناخان محمدشیرانی یہ دوقومی نظریہ کے بھی مساوی ہے۔

خیر اس بل کے ڈھنڈورہ پیٹنے اور اسلامی ممالک میں عورت کے استحصال کاڈھنڈورہ پیٹنے والے اگر ایک رپورٹ ملاحظہ کرلیں تو یقیناان کی طبیعت صاف ہوجائیگی۔
صنفی عدم مساوات کے متعلق شائع ہونے والی عالمی رپورٹ ورلڈ جینڈر گیپ میں بھی کچھ ایسے ہی انکشافات کئے گئے ہیں، جن کے مطابق نام نہاد تہذیب یافتہ مغربی معاشروں میں خواتین کو بدترین جنسی استحصال کا سامنا ہے۔

ویب سائٹ Yougov.co.ukکے مطابق رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مغربی ممالک میں خواتین کے ساتھ سربازار دست درازی اور بدسلوکی کے واقعات بڑے پیمانے پر پیش آرہے ہیں لیکن بدقسمتی سے حکومتیں اور میڈیا حقائق کے برعکس تاثر پیش کرنے میں مصروف ہیں۔رپورٹ کے مطابق برطانیہ جیسے ملک میں دو تہائی خواتین، یعنی ہر تین میں سے دو خواتین، کو سرعام ہراساں کیا جاتا ہے۔

ان خواتین کو مردوں کی طرف سے گھورنے، قابل اعتراض اشارے کرنے اور جنسی نوعیت کے آوازے کسنے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک تہائی خواتین (تقریبا 35فیصد) کا کہنا ہے کہ انہیں اس بدترین تجربے سے بھی گزرنا پڑا کہ سر عام ان کے جسم کو جنسی ارادے کے ساتھ چھوا گیا۔ نوعمر خواتین اور لڑکیوں کو عمومی اور جنسی بدسلوکی کا مسئلہ سب سے زیادہ درپیش ہے۔

61 فیصد خواتین نے بتایا کہ وہ جنسی بدسلوکی سے بچنے کے لئے اندھیرا چھانے سے پہلے سفر کرنے یا گھر لوٹنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ 55فیصد کا کہنا تھا کہ جنسی بدسلوکی سے بچنے کے لئے انہیں اپنا راستہ تبدیل کرنا پڑا، جبکہ 54 فیصد کا کہنا تھا کہ انہوں نے جنسی بدسلوکی کے خوف سے پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرنے کی بجائے زیادہ رقم ادا کرکے ٹیکسی کے ذریعے سفر کیا۔


رپورٹ کے مطابق صنفی مساوات کے لحاظ سے 145ممالک کی فہرست میں برطانیہ کا نمبر 18واں رہا، جبکہ سپین اور امریکا کا نمبر بالترتیب 25واں اور 28واں تھا، یعنی ان ممالک میں خواتین کے ساتھ ہونے والا سلوک اوپر بیان کئے گئے حالات کی نسبت کہیں بدتر ہے۔
یقینا یہ رپورٹ اپنی جگہ فکر انگیز ہے لیکن جنہیں ہرسو ہریالی ہی ہریالی نظرآرہی ہو ان کیلئے بھلا اس رپورٹ کی کیا حیثیت ‘یوں بھی اب امریکہ بہادر اور ہمارے دوسرے ”بگ باس“ نوازشریف کی روز بڑھتی لبرل پالیسی پر نہ صرف خوش ہیں بلکہ باقاعدہ جشن منارہے ہیں سوان کے جشن کی خوشی کا احساس ہمارے نام نہاد اور ”کالے انگریزوں“ کو بھی ہے۔

حالیہ چند برسوں میں تعلیمی نصاب میں ہونیوالی تبدیلیوں کا ذکر بھی یقینا اسی حوالے سے سامنے آتاہے(تفصیلی ذکر پھر کبھی کریں گے) عربی ‘اسلامیات کے بعد اب معاشرتی علوم‘تاریخ پاکستان بھی اب اس حد تک اختیاری ہوگئے کہ ان کا امتحان تک نہیں لیاجاتا ‘ میٹرک لیول کی کتب سے حضرت اقبال  کی ایمان تازہ کرنیوالی نظمیں بھی آہستہ آہستہ غائب کی جارہی ہیں۔

یہ ہے لبرل ازم کا نیا سورج جو اب آہستہ آہستہ پاکستان کی سرزمین پر طلوع ہورہاہے۔
یورپ امریکہ اوردوسرے نام نہاد انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والے ممالک میں جسمانی‘ روحانی آزادی اور پھر آزادی رائے کے نام پر جس قدر غلاظت سامنے آرہی ہے وہ اپنی جگہ بحث کے قابل ہے جہاں کی عورت اب بذات خود ”محفوظ گھر“ کی تلاش میں ہے وہ ممالک جہاں عورت کو ”جنسی مشین “ سمجھ لیاگیا وہاں کی عورت اب ”حقیقی ماں “ بننا چاہتی ہے۔

کتنی حیرت کی بات ہے کہ وہ ممالک اوران کے نام نہاد کارپردان ہمیں ”عورت کا تحفظ “ کرناسیکھارہے ہیں۔
اس ضمن میں بعض لوگ یورپ‘ امریکہ اورالغم بلغم قسم کے ممالک کی ترقی کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں قانون ہے ‘ آزادی ہے ‘تحفظ ہے ‘ حقوق میسر ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ بات ان کی بھی درست لیکن کیا اسلام نے اپنی ریاست میں یہ حقوق دینے سے منع کیا ہے یا پھر ہم خود یہ حقوق دینے کوتیار نہیں‘ یعنی قصور ہمارا یا ہمارے حکمرانوں کاہوا ورہم ذمہ دار اسلام اوراسلامی قوانین کو ٹھہراتے رہیں۔

یقینا یہ امر باعث شرم ہے ۔رہی بات یورپ امریکہ اوردوسرے ممالک کی ترقی اور ہماری تنزلی کی تو اس ضمن میں قیادتوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایاجاسکتا ہے کہ ان ممالک میں قانو ن پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ انہیں عوام سے محبت کرنیوالی قیادت میسر آتی رہی لیکن ہمارے ہاں ہرپل ملکی خزانے کو لوٹنے والوں کاراج رہا ہے اوریہ سلسلہ گذشتہ 67برس سے جاری وساری ہے اورآج تک یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ ہرآنیوالا نیا دن ‘نئی برائیوں کو ساتھ لیکرآرہا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :