شام کابحران

جمعرات 17 مارچ 2016

Abdul Rauf

عبدالرؤف

شام کے جنگی بحران کا پانچواں سال اپنی اختتامی تاریخوں سے گزر رہا ہے۔ شام کی سرزمین پر ہر روز ایک نیا المیہ جنم لے رہا ہے۔ انسانیت کی سسکاریاں بمباری کی گھن گرج کے مقابلے میں نہایت معمولی ہیں۔ مارچ 2011 ء کے احتجاج سے شروع ہونے والی تحریک اب بین الاقوامی جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ بارہ ہزار بچوں سمیت تین لاکھ سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

دس لاکھ افراد جان بچ جانے کی صورت میں جسمانی معذوری کی زندگی بسر کر یں گئے ۔ 66لاکھ افراد اپنے ہی ملک میں گھر بار سے محروم ہو چکے ہیں۔ ملک کا 80فیصد علاقہ بجلی سے محروم ہے۔ شام کے مہاجرین کا بحران خطے کے ممالک اور یورپ کے لئے بڑا مسئلہ بن رہا ہے۔ تقریباً 46 لاکھ افراد مہاجرین ہیں۔ مہاجرین کی بڑی تعداد لبنان، ترکی، اردن، عراق اور مصر کے کیمپوں میں پناہ گزین ہیں۔

(جاری ہے)

اخباری اطلاعات کے مطابق دس فیصد یورپ کے مختلف ممالک میں داخل ہو ئے ہیں۔ مہاجرین کی بڑی تعداد یورپ کی سرحدوں پر موجود ہے۔ شامی مہاجرین میں موجود بچے مستقبل کے اندھیروں کی جانب سفر کر رہے ہیں۔ اپنوں کی جدائی ، جبری مشقت ، بیماریاں اور جنسی زیادتیاں ایسے خطرے ہیں جو عالمی توجہ کے باوجود حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔ نہایت معمولی احتجاج سے شروع ہونے والی جنگ اب ایسی خونخوار حقیقت بن چکی ،جس سے مغربی ایشیا سے پورے مشرقی وسطی میں آگ کا الاؤ دہک رہا ہے ۔

مسلمانوں میں جاری صدیوں کی فر قہ وارنہ چپقلش نے شام میں اپنا خوب رنگ دکھایا ہے ۔ شامی حزب اختلاف کو ترکی، قطر اور سعودی عرب کی امداد اور امریکی تعاون بھرپور طریقے سے حاصل رہا۔ دوسری طرف بشا رالاسد کی حکومت کو روس اور ایران کی مدد حاصل ہے۔ شامی حزب اختلاف باغی فوجی اور سول گروہوں پر مشتمل تھی جو فری سریین آرمی (Free Syrian Army) کے نام سے میدان جنگ میں موجود رہی۔

عراق اور عرب ممالک کے جنگجو بھی شامل ہوتے رہے۔ فری سریین آرمی (Free Syrian Army) کا مرکز ترکی سر حد پر تشکیل دیا گیا ۔ شام کی سرکاری فوج کو روس اور ایران کی فوجی امداد کے علاوہ جزب اللہ کے جنگجو بھی میسر تھے۔ ایرانی فوج کے اعلیٰ فوجی افسران شام میں پہنچے ۔سال 2013ء شامی بحران کیلئے اہم سال تھا جب دمشق کے مضافتی علاقے جو شامی حزب اختلاف کے کنٹرول میں تھے وہاں کیمیکل حملوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں ا سی سال اسلامک سٹیٹ عراق و شام نے عالمی توجہ حاصل کی امریکہ نے شام پر باقاعدہ حملے کی راہ ہموار کی مگر امریکہ کے اتحادیوں نے رضامندی ظاہر نہ کی۔

برطانوی دارالعلوم نے1782 ء کے بعدپہلی دفعہ کسی جنگ کے حق میں قرار داد کی منظور نہیں دی۔ نیٹو نے بھی حملوں میں شمولیت سے انکار کیا۔ روس نے امریکی حملے کے مقابلے میں اپنے بحری بیڑے روانہ کیے ۔ اس تمام صورت حال میں امریکی حملہ عارضی طور پر روک دیا گیا۔ اِس منظر نامے نے نئی کروٹ تب لی جب اسلامک سٹیٹ نے عراق اور شام میں وسیع پیمانے پر بھیانک قتل عام کیا۔

انبیاء اور صحابہ کے مزارات کو بمبوں سے تباہ کیا۔ تیل صاف کرنے کے کارخانوں پر قبضہ کیا۔ عالمی توجہ حاصل کرنے کے لئے اسلامی اسٹیٹ نے نہایت جنونی انداز میں انسانوں کو قتل کیا اور ویڈیوز بنا کر ان واقعات کی تشہیر کی۔ غور طلب بات یہ تھی کہ شام میں فری سریین آرمی (Free Syrian Armyکے تحت ہونے والی جنگ پس منظر میں چلی گئی جبکہ یہ دونوں گروہ ہی سنی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے اب ایک طرف شام کی سرکاری فوج اور دوسری طرف اسلامی سٹیٹ کے خطرناک جنگجو اور درمیان میں عربوں کی حمایت یافتہ تنظیمیں یہ سوال ہمیشہ تاریخ کا حصہ رہے گا آخر اسلامک اسٹیٹ عراق و شام کا اتنا اچانک اور خوفناک آغاز کن قوتوں کی مدد سے ممکن ہو؟۔

2014 ء کے آخری مہینوں میں اسلامک سٹیٹ عراق وشام کے خلاف امریکی فضائیہ کے حملے شروع ہو گئے ان حملوں میں امریکہ کے عرب اتحادی اردن، قطر، سعودی عرب اور بحرین نے بھی عراق اور شام پر فضائی حملے شروع کر دئیے نیٹواتحاد میں شامل فرانس اور ترکی نے بھی فضائی کارروائی کا آغاز کیا بالآخر برطانوی پارلیمنٹ نے بھی اپنی فضائی فوج کو شام میں کارروائی کا اختیار دے دیا۔

اس ساری صورت حال میں روس کیسے پیچھے رہ سکتا تھا؟۔ روس نے شام میں پہلی بار 30ستمبر 2015 ء کو اسلامک اسٹیٹ کے خلاف حملوں کا آغاز کر دیا۔ روسی فضا ئیہ اسلامی اسٹیٹ کے علاوہ ہر اس زمینی قوت کو بھی نشانہ بنا رہی ہے جو شام کی سرکاری فوج کے خلاف ہو۔ امریکی صدر باراک اوبامہ متعدد دفعہ روس کو تینیہہ کر چکے ہیں۔ کہ وہ اعتدال پسند باغیوں کو نشانہ بنانے کی کوشش نہ کرے بین الاقوامی قوتوں کی مداخلت کے شام کا بحران نہایت سنجیدہ نوعیت اختیار کر گیا ہے۔

تمام مداخلت کار شام کے بحران کو اپنی مرضی سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ بشار الاسد کسی صورت اقتدار سے علیحدہ ہونے کو تیار نہیں ہے۔ شام کے سا حلی علاقے حلب، حما تہہ حمس، دمشق پر سرکاری افواج کا کنٹرول موجود ہے۔ اور اِسی جگہ واقع طرطوس کے ساحل پر روس کا بحری اڈہ موجود ہے۔ اس لئے روس ، شام میں اپنے فوجی اور سول مفادات کا تحفظ بشارالاسد کی صورت میں کر رہا ہے۔

ایران کی فوج کے اعلیٰ عہدیدار شامی فوج کی مدد کے لئے موجود ہیں۔ ایرانی فوج کے حاضر سروس بریگیڈیر جنرل حسین ہمدانی شام میں قتل ہو چکے ہیں۔ترکی بھی بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ چاہتا ہے دوسری طرف اسلامک اسٹیٹ ترکی میں ہونے والے بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔ کرُ د تحریک ایک علیحدہ خطرہ ہے۔ ترک فضائیہ نے روسی24 SU-، کو گرا کر روس کے ساتھ تعلقات خراب کر لئے، ترکوں کی مصیبتیں اِسطرح بڑھی ہیں جیسے نامعلوم انداز میں ترکی کو عین میدان جنگ میں دھکیلا جا رہا ہے۔

ترکی اور سعودی عرب آنے والے چند دنوں شام میں کُرد باغیوں،اِسلامک اسٹیٹ کے دہشت اور الاسد حکومت کے خلاف مشترکہ کا اِرادہ رکھتے ہیں۔ روسی حکام نے اِس کاراوئی کو اعلان جنگ قرار دیا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کا ٹکراؤ کوئی نئی بات ہر گز نہیں ہے۔ سعودی عرب کو ایک طرف براہ راست یمن میں حوثی باغیوں سے کی بغاوت سے نبردآزماہو رہا ہے۔ تو دوسری طرف شا م میں الاسد کی حکومت اور اسلامک اسٹیٹ دو خطروں کی صورت میں سر اٹھائے کھڑی ہے انہی خطرات کے مقابلے کے لئے سعودی عرب نے ایران کے بغیر 34 ملکی فوجی اتحاد قائم کیا اور اب شمال کی گرج کے نام سے تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقیں کیں ہیں۔

بہر حال مسلم ممالک نے شام کی جنگ کو روکنے کے لئے سنجیدہ اقدامات نہ کئے تو شام کے کھنڈرات میں لڑی جانے یہ خوفناک جنگ نہ صرف خطے کے مزید ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے گی ۔ امریکہ اور روس نے مشرق وسطی کے ممالک کو خطرے میں ڈال کر شام میں جنگ بندی پہ اتفاق کر لیا ہے ۔ روسی فضائیہ نے واپسی کا سفر شروع کر دیا ہے۔شام میں بشارالاسد کی حکومت قائم رہے یا نہ رہے روس اور امریکہ کے مفادات کام کرتے رہیں گئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :