اٹھ باندھ کمر!

جمعرات 17 مارچ 2016

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

مارچ موسم سرما اور موسم گرما کا سنگم ہوتا ہے ،مارچ کا نصف گزر چکا، گرمی مارچ کرتی آرہی ہے ،جوں جوں مارچ اختتام کی طرف بڑھے گا، گرمی فل مارچ کے موڈ میں ہو گی ، سنا ہے اس بار گرمی زیادہ ہو گی ، یوں تو ہمارے پاکستان میں کسی بھی قسم کی پیشین گوئیاں دعووں کے مطابق پوری کم ہی ہوا کرتی ہیں ، لیکن پھر بھی کیا پتا! پوری ہو جائیں۔ اس لیے ہر ایک پر فکر سوار ہے ، میاں حکومت کے سالار اعلی یعنی مسٹر نوازا شریف جب بھی بات کرتے ہیں 2018میں بجلی کی کمی پوری ہونے اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی نوید سناتے ہیں ، ان کی ٹیم کے بجلی والے ارکان اس اعلان کی بابت کبھی دبے دبے اور کبھی کھلے کھلے لفظوں میں یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ 2018میں بھی لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہو گی ، خیر ختم نہ ہو مگر اتنی بھی نہ ہو کہ لوگ پوچھتے پھریں بجلی کہاں ہے ، وہ دسیوں منصوبے کدھر گئے۔

(جاری ہے)


####
خواتین کی زلفوں نے میاؤں حکومت کو الجھا لیا ہے ، چھوٹے اور بڑے دونوں میاؤنوں کو خواتین کے تحفظ اور حقوق کی بڑی فکر ہے ، بجلی کی حسب ضرورت فراہمی بھی حقوق نسواں میں شامل ہے ، کپڑے دھلتے ہیں ، مشین بجلی سے چلتی ہے ، کپڑے استری ہوں تو بجلی ہی کی ضرورت پڑتی ہے ، گھر میں اور دسیوں قسم کے آلات جو خواتین استعمال کرتی ہیں، ان میں بجلی لازم ہوتی ہے ، بجلی نہیں ہوگی تو کام متاثر ہو گا، کام متاثر ہوگاتو مردوں اور خواتین میں ان بن ہو گی ، خاتون صرف بیوی ہی نہیں ہوتی، خواتین میں ماں بھی ہے بیٹی بھی اور بہن بھی ، دوسرے رشتے بھی ہوتے ہیں ، مثلا ، ساس ، خالہ، اور بہت سے رشتے ۔

بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ہونے والی الجھنیں ماں بیٹے ، باپ بیٹی ، بھائی بہن کے بیچ ان بن پیدا کرتی ہے ، بجلی نہیں ہوگی تو پنکھے بھی نہیں چلیں نہ ہی اے سی کام کریں گے ، دماغ گرم ہو گا ، دماغ کی گرمی ان بن کو فساد تک پہنچادے گی ۔ حکومت بجلی فراہمی کا کام کر لے تو بہت سی الجھنیں ختم ہو جائیں گی ، خواتین اور مردوں کے بیچ محبت کی فضا پیدا ہو گی ۔


####
پنجاب کی وزارت قانون کے منچھوں والے سر خیل مسٹر رانا ثنا ء اللہ کے بیانات سے پتا چلتا ہے ، کئی معاملات میں چھوٹے میاں کو گم راہ کرنے میں ان کا ہاتھ شامل ہے، موصوف کبھی مذہبی شخصیات اور جماعتوں کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے ، آج اتنا ہی ان جماعتوں اور شخصیات پر برستے نظر آتے ہیں ، قانون کو ذاتی باندی سمجھتے ہیں ،حقوق نسواں قانون کے سب سے بڑے محافظ اور رکھوالے بن کر سامنے آئے ہیں۔

موصوف مونچھوں کے بوجھ جتنی عقل بھی پاس رکھتے تو خواتین کے تحفظ کے لیے کسی بل یا قانون کی ضرورت ہی نہ پڑتی ۔ لیکن شاید ان کی ذمے داری ہی یہ ہے کہ قیمتی وقت ضائع کرنے کے لیے نئی نئی راہیں تلاش کریں ، مشن میں کامیاب ہیں۔
####
مذہبی جماعتوں کے لاہور میں ہونے والے اجتماع میں طے یہ کیا گیا کہ 27مارچ تک خواتین حقوق کا نام نہاد محافظ قانون ختم کیا جائے ، دوسرے معاملات میں بھی اپنی اصلاح کی جائے ورنہ بڑی تحریک چلائی جائے گی ۔

دینی جماعتیں باتیں کرنے میں سیاست دانوں سے دو ہاتھ آگے نہ ہوں تو پیچھے بھی نہیں ہوتیں ، تمام دعووں کی کامیابی کے لیے سب سے اہم چیز ان میں اتحاد ہونا ہے جس بابت تمام موصوفات میں یہ غیر اعلانیہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ یہ اتفاق اور اتحاد دو چار اجلاسوں اور ان میں اٹھک بیٹھک سے زیادہ کوئی کام نہیں کرے گا ، ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھنا ، بدگمانیوں کی آبیاری کرنے میں ہمہ تن مشغولیت فرائض میں شامل رکھنا موصوفات کے مزاج میں رچ بس گئی ہے ، ماضی کی مثالیں تو دی جاتی ہیں لیکن ماضی کے بڑوں کی طرح بڑا دل گردہ کہاں سے لایا جائے گا ۔


####
خبر ہے کہ مصطفی کمال پھیلنا شروع ہو گئے ہیں ، کراچی کے علاوہ ملک کے دوسرے شہروں میں نام لیا جارہا ، پوسٹر لگائے جا رہے ہیں ، ان کے ساتھی ڈاکٹر صغیر نے کہا ہے اُس مقصد کے لیے کام کریں گے ، جس کے لیے پاکستان بنایا گیا تھا۔حضرات ِگرامی پاکستان تو کلمہ لا الہ کے تحفظ اور اس کی سر بلندی کے لیے بنایا گیا تھا، آپ لوگوں کا ہمیشہ سے یہ دعوی رہا ہے کہ آپ کے بڑوں نے پاکستان بنایا ، پاکستان کے لیے قربانیاں دیں ہجرت کی، بڑے تو اپنا کام کر گئے ، ذرا ان کی قربانیوں کی بابت مراقبہ کر کے دیکھیں ممکن ہے کچھ رہ نمائی مل جائے کہ پاکستان بنایا کس لیے گیا تھا ، بن کیا گیا، جس ہندو نے سازشیں کر کے مہاجروں کو تہ تیغ کیا تھا، ان کی اولاد اس ہندو ذہنیت کی باجماعت غلام بن گئی ۔

اگر بھولا سبق یاد آگیا ہے تو دیر کاہے کی :
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :