خواتین کا تحفظ

ہفتہ 19 مارچ 2016

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

میں اپنے ایک دوست کے ساتھ ایک ریستوران میں بیٹھا رات کا کھانا کھا رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف اس کی زوجہ محترمہ یعنی بھابی صاحبہ تھیں۔ ان کے درمیان جو گفتگو ہوئی ‘ وہ میں آدھی ہی آپ کو بتا سکتا ہوں‘ کیونکہ ظاہر ہے‘ میں بھابی صاحبہ کی باتیں نہیں سن سکتا تھا‘ لیکن اپنے دوست کی باتوں سے اندازہ لگا رہا تھا کہ کیا سوا ل و جواب چل رہے تھے۔

میرے دوست کے ڈائیلاگ کچھ اس طرح تھے:
دوست: اس وقت فون کرنے کا مطلب؟ … میں نے دوپہر کو بھی فون پر بتایا تھا کہ جو تم کہہ رہی ہو‘ وہ نہیں ہو سکتا‘ پھر اس کھچ کھچ کا کیا مقصد؟ … بار بار ایک ہی بات بار بار ایک ہی بات … بس ایک بار کہہ دیا نہیں‘ تو اس کا مطلب ہے کہ نہیں … اچھا‘ فضول بحث نہ کرو‘ گھر آ کر بات کروں گا اس وقت میں مصروف ہوں… کہہ رہا ہوں کہ گھر آ کر بات کرتا ہوں اور تم پھر بولے جا رہی ہو‘ بولے جا رہی ہو!
یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا‘ لیکن ساتھ ہی بولا: (یہ عورتیں جس بات کے پیچھے پڑ جائیں‘ اسے چھوڑتی ہی نہیں‘ اوپر سے ان کے حق میں قانون بن گیا ہے‘ بندہ اونچا بول بھی نہیں سکتا۔

(جاری ہے)


اس کا اشارہ حال ہی میں پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والے خواتین کے تحفظ کے بل کی طرف تھا‘ جس کے تحت بیوی پر تشدد کرنے والے مرد یعنی شوہر کو ٹریکنگ کڑا لگایا جائے گا اور دو روز کے لئے گھر سے باہر رکھا جائے گا۔ نئے قانون کی بدولت خواتین ہراساں کرنے والوں یا جسمانی تشدد کرنے والوں کے خلاف عدالت سے پروٹیکشن آرڈر لے سکیں گی۔ علاوہ ازیں ان افراد کو عدالت پابند کرے گی کہ وہ خواتین سے ایک خاص فاصلے پر رہیں‘ جن سے خواتین کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا خطرہ ہو۔

خواتین پر تیزاب پھینکنے‘ زنا بالجبر اور دوسرے سنگین جرائم کا مرتب شخص متاثرہ خاتون کے کام کی جگہ‘ یا اکثر آنے جانے والی جگہوں پر نہیں جا سکے گا۔ اس نئے قانون کے تحت خاتون کو اس کی مرضی کے بغیر گھر سے بے دخل نہیں کیا جا سکے گا البتہ عورت کی شکایت پر عدالت مرد کو گھر سے بے دخل کر سکتی ہے۔
میرے دوست نے نیا قانون بننے کی بات از راہ تفنن کی تھی‘ لیکن یہ حقیقت ہے کہ مردوں کی ایک خاصی بڑی تعداد اس نئے قانون کا مضحکہ اڑاتی نظر آتی ہے‘ کچھ اس سے خوف زدہ بھی ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے بھی اس بل کے بارے میں خوب شگفتہ بیانیاں کرتے پنجاب اسمبلی کو ”زن مریدوں“ کا گھر قرار دے دیا۔ حافظ سعید احمد نے کہا کہ امریکہ و یورپ کی خوشنودی کے لئے پاکستان کو لبرل ثابت کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے کہا کہ پنجاب میں ایسا قانون نافذ ہو گیا ہے کہ والد بیٹی ‘ شوہر بیوی سے اونچا بولنے پر جیل جائے گا۔

حتیٰ کہ پنجاب حکومت کے ترجمان زعیم حسین قادری نے مطالبہ کر دیا کہ خواتین کی طرح مردوں کے حقوق کا بل بھی آنا چاہئے۔
علمائے کرام کی خفگی‘ سیاستدانوں کے ریمارکس اور یاروں دوستوں کے تبصرے اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے ایک خاصے بڑے حصے کو گھریلو تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے اور مختلف خود ساختہ رسوم و رواج کے نام پر ان کے حقوق پامال کئے جاتے ہیں۔

ونی‘ سوارہ‘کاری کر کے مارنا‘ وٹاسٹہ ‘ قرآن سے شادی جیسی رسوم پر آج کے جدید دور میں بھی عمل کیا جاتا ہے۔ ہمارے پڑوس (بھارت) کے انتہا پسند اور ذات پات کے خانوں میں بٹے سماج میں ستی اور بلیدان جیسی کریہہ رسوم کا خاتمہ ہو چکا‘ لیکن یہاں عزت اور غیرت کے نام پر خواتین کی جانوں سے کھیلنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ مختلف رپورٹوں سے ماخوذ درج ذیل اعدادوشمار پر ایک نظر ڈالئے ۔

آپ کو خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ آج کے اس جدید اور ترقی یافتہ دور میں بھی خواتین کا ایک خاصا بڑا حصہ ہے (میں خواتین کی کل آبادی کی بات نہیں کر رہا)بنیادی ترین حقوق سے بھی محروم ہے۔
ایک انگریزی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ میں سے چار خواتین کسی نہ کسی نوعیت کی گھریلو بے انصافیوں اور تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔

چند روز قبل منظر عام پر آنے والی پنجاب جینڈر پیرٹی رپورٹ 2016کے مطابق گزشتہ برس (2015) میں صرف پنجاب میں خواتین پر تشدد کے 6505مقدمات رجسٹرڈ کئے گئے۔ اور ان میں سے صرف ایک فیصد یعنی کم و بیش 81مجرموں کو سزا دی گئی۔ جرم اور سزا کے اس فرق سے مجرموں کو شہ ملتی ہے اور وہ کھل کھیلتے ہیں۔ اس فرق کو کم اور بالآخر بالکل ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ 2015میں پنجاب میں زنا بالجبر کے 2720کیسز سامنے آئے۔

خواترین کے قتل کے 666اور بری طرح پیٹنے کے 588کیسز کا پتہ چلا۔ اسی ایک سال میں غیرت کے نام پر قتل کے 173جبکہ تیزاب پھینکنے کے 22واقعات رپورٹ ہوئے۔ یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے۔جو رپورٹ نہیں ہو سکے‘ ان کے بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ 2002میں گھریلو تشدد کی شرح اور رپورٹ کئے گئے واقعات کا پتہ چلانے کے لئے ایک سروے کیا گیا۔

جن خواتین سے اس سلسلے میں انٹرویو کیا گیا‘ ان میں سے 46.9% فیصد نے بتایا کہ گھروں میں ان کے شوہر ان پر تشدد کرتے ہیں۔ ان 46.9%میں سے بھی 58.1% نے بتایا کہ انہوں نے اس تشدد کے بارے میں اپنی بہن یا کسی اور عزیز کو بتایا۔ گویا گھریلو تشدد کے حوالے سے رپورٹ ہونے والے واقعات کی شرح 50فیصد کے لگ بھگ ہے۔ باقی پچاس فیصد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور خواتین شوہروں کی جانب سے کی گئی زیادتی کو سہہ جاتتی ہیں۔

پھر رپورٹ ہونے والے کم و بیش 50فیصد کیسز میں سے بھی نصف میں بہتری آتی ہے‘ یعنی ان کے شوہروں کے رویے میں تبدیلی آتی ہے‘ اور باقی اسی طرح پٹتی رہتی ہیں۔ یہ رپورٹ صرف پنجاب میں خواتین کے حقوق کی پامالی پر مبنی ہے‘ کیونکہ اسی صوبے میں منظور کئے گئے ایک بل کی بات ہو رہی ہے۔ پورے ملک میں خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے اعدادوشمار اس سے کہیں زیادہ اور خوفناک ہیں۔


ان سارے حقائق اور اعدادوشمار کو مدنظر رکھ کر ذرا سوچئے کہ نام نہاد حقوق اور رسموں اور رواجوں کے نام پر خواتین کے استحصال کے صدیوں سے چل رہے اس سلسلے کو روکنے کے لئے ایک نئے اورزیادہ سخت قانون کی ضرورت ہے یا نہیں؟ یہ قانون ظاہر ان مردوں(شوہروں)کے لئے نہیں ہے اور نہ ان کے خلاف استعمال کیا جائے گا جو اپنی گھریلو ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کرتے ہیں‘ لہٰذا انہیں اس سلسلے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

اور آخر میں وہی معاملہ کہ معاشرے میں سدھار اسی وقت آئے گا جب ان قوانین کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے گا۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر پہلے سے موجود عائلی قوانین پر عمل درآمد کو ہی یقینی بنا لیا جاتا تو اس نئے قانون کی ضرورت یقیناً نہیں تھی اور اگر اس نئے قانون کو بھی مکمل طور پر نافذ نہ کیا جا سکا تو ظاہر ہے آئندہ بھی اس طرح کے نئے قوانین بنانے کی ضرورت پیش آتی رہے گی۔

اس لئے میرے خیال میں اصل مسئلہ نئے قانون بنانا نہیں بلکہ ان کا ان کی روح کے مطابق نفاذ ہے۔ اب وزیر اعظم نواز شریف نے جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ہونے والی ملاقات میں انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ تحفظ خواتین قانون کے بارے میں علمائے کرام کے تحفظات دور کئے جائیں گے۔ یعنی ممکن ہے‘ حکومت کو اس قانون میں ترمیم کرنا پڑے جس کے نتیجے میں حکومت مولانا حضرات کے غیظ و غضب سے تو بچ جائیں گے جس مقصد کے لیے یہ خواتین بل بنایا گیا تھا وہ مقصد کب حاصل ہوگااس سوال کا جواب بہت سادہ ہے جب شوہر اور بیوی دونوں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے رضامند ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :