میری بزم سے کشادہ میری غم سرائے رکھنا

پیر 21 مارچ 2016

Jahid Ahmad

جاہد احمد

خالد احمد کے لئے لکھنے کی کیا اہمیت تھی اس کا حقیقی اندازہ مجھے ان کی زندگی کے آخری چند ماہ میں ہوا ۔ بحیثیت اُن کا بیٹا مجھے لگتا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ شاعری کرنا اور لکھنا ان کے لئے کیا معنی رکھتا ہے لیکن کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں مکمل آگاہی نہیں رکھتا تھا!
ابھی خالد احمد کے جسم میں پھیپھڑوں کے سرطان جیسے موذی مرض کی تشخیص نہیں ہوئی تھی۔

تکلیف بڑھ جانے کے سبب چند دن ہسپتال میں گزارنے کے باعث طبیعت میں پیدا ہوئی بہتری محض عارضی ثابت ہوئی۔ ابتدائی طور پر ڈاکٹروں نے طبعیت کی خرابی کو دل کا عارضہ قرار دیا تھا جو بعد میں غلط ثابت ہوا ۔ ڈاکٹروں کی جانب سے ایک طرف بیماری کی درست تشخیص کے مقصد سے روزآنہ کی بنیاد پر مختلف اقسام کے تکلیف دہ ٹیسٹ کئے جا رہے تھے تو دوسری طرف تکلیف ہر گزرتے لمحے زور پکڑتی چلی جا رہی تھی۔

(جاری ہے)

برداشت کے بند کمزور ہو چلے تھے۔اسی کھینچا تانی میں ایک دن طبیعت زیادہ گبھرائی تو دل کے اسی ڈاکٹر کے پاس چل دیے جو ابو کا علاج ہسپتال میں کر چکا تھا اور صورتحال سے کسی حد تک آگاہ تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے سوال کیا : خالد صاحب طبیعت کیسی ہے۔کیا ہو گیا؟
ابو نے جواب دیا: ڈاکٹر صاحب! بہت تکلیف میں ہوں۔ 28 دن ہو گئے کچھ لکھ نہیں سکا۔سوچ نہیں پا رہا!!!
میں جو کونے میں کھڑا سر جھکائے ابو اور ڈاکٹر کی بات چیت سن رہا تھا ایسا غیر متوقع جواب سن کر سیدھا ہوا ، کن اکھیوں سے ابو کو دیکھا اور دماغ میں جھماکا ہوا! یہ ابو کیا بات کر رہے ہیں۔

وہ اتنی سخت تکلیف میں ہیں۔ بیماری کی تشخیض ہو نہیں پا رہی۔ روزآنہ اتنے سارے ٹیسٹ کروا رہے ہیں۔ سوئیاں لگوا لگوا کر بازو اور جسم چھدے پڑے ہیں۔ اسقدر کمزور ہو گئے ہیں اور یہ اپنی تکلیف کیا بتا رہے ہیں کہ 28 دن ہو گئے کچھ لکھ نہیں سکا۔سوچ نہیں پا رہا! کیا ہو گیا ہے ابو کو؟ تبھی دماغ منمنایا۔ ابو میرے ابو تو ہیں لیکن وہ خالد احمد بھی تو ہیں۔

یہ تخلیق کار خالد احمد نے اپنی تکلیف بیان کی ہے جس کی زندگی لکھنا، شعر کہنا اور تخلیق میں محو رہنا ہے۔ ایسے نابغہ روزگار شخص کے لئے تخلیق نہ کر پانا زندگی تھم جانے کے مانند ہے۔ ان کی زندگی 28 دن سے تھمی پڑی ہے۔ وہ واقعی تکلیف میں ہیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب میں ان کی اصل تکلیف کو سمجھ پایا۔ اُس لمحے ان کے چہرے پر تکلیف و کرب کے جو تاثرات دیکھے اور آواز میں جو ارتعاش محسوس کیا وہ میرے ذہن پر ہمیشہ کے لئے نقش ہو گئے ۔

اس ایک لمحے کی سرگزشت مجھے ’ابو‘ کوبطور’ خالد احمد‘ سمجھا گئی۔
خالد احمد کے لئے ہر قسم کی جسمانی تکلیف قابلِ برداشت تھی۔اگلے چند دنوں میں پھیپھڑوں کے سرطان کی تشخیص و تصدیق ہو گئی۔ جس دن انہیں اپنی جان لیوا بیماری کے بارے علم ہوا اس کے بعدسے 19 مارچ رات 12 بج کر 20 منٹ تک جب انہوں نے آخری ہچکی لی نہ کبھی اپنی بیماری کے بارے میں کوئی شکایت زبان پر لائے اور نہ کبھی کسی بھی طرح کی جسمانی تکلیف کا اظہار کیا۔

اپنی تمام تر توانانی یکجا کر کے بیماری کا دلیری سے مقابلہ کیا۔ آخری ایک ماہ میں ریڈی ایشن جیسے تکلیف دہ مرحلے سے بھی گزرے، لکھنا بھی شروع کر دیااور اپنے شعری مجموعے ’نم گرفتہ‘ کی تقریبِ رونمائی کا انعقاد بھی کیا۔ ان کا آخری کالم وفات سے دو دن پہلے روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا۔
علم و ادب اور خصوصاٌ شاعری سے اس درجے کی وابستگی ہی کسی شخص کو اس قابل کر سکتی ہے کہ وہ اپنا گھر چلانے کے لئے روز سویرے دفتر بھی جائے،شہر میں شام کے وقت بلاناغہ ادبی محفلیں بھی سجا کر رکھے، نوجوان لکھاریوں کی بے لوث تربیت بھی کرے، انہیں عزت اور محبت سے بھی نوازے، راتوں کو جاگ جاگ کر شاعری کرے، پڑھے بھی، لکھے بھی، ڈرامے بھی تخلیق کرے اور ریڈیو کے لئے کام بھی کرے، گیت بنائے، مشاعرے پڑھے ، کالم لکھے، اور پھر اپنے گھر والوں کو وقت بھی دے۔

یہ کسی ایک دن کا احوال نہیں بلکہ صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی کے حامل خالد احمد کی زندگی کے شب و روز کامعمول تھا۔
آج بھی خالد احمد کے ذکر پر ان کے چاہنے والوں کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ اب شہر میں طبعی طور پر نہ ویسی محبت دینے والا بچا ہے اور نہ اپنے پاس بٹھا کر باعزت طور پر تربیت دینے والا۔ خالد احمد محض ایک بڑے شاعر و لکھاری نہیں بلکہ اس فن میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے۔

لیکن خالد احمد زندہ ہیں! اپنی شاعری میں اپنے لکھے ہوئے الفاظ میں۔ اسی لئے آج کی تاریخ میں بھی خالد احمد کی شخصیت اور فن پر پی ایچ ڈی مقالے لکھے جا رہے ہیں۔احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا تھا کہ خالد احمد ایک بڑا شاعر ہے۔ کئی جگہ وہ اتنا بڑا ہو جاتا ہے کہ بڑے بڑوں کو اپنی پگڑیا ں سنبھالنا پڑتی ہیں۔حمید نسیم صاحب نے خالد احمد کو آج کے دور کا ولی دکنی ٹھہرایا۔

جبکہ انتظار حسین صاحب نے کہا کہ ولی دکنی نہیں بھی ہو تو کیا مضائقہ ہے بہرحال وہ خالد احمد تو ہے۔
یہ ان کی محبت اور سیکھ ہی ہے کہ ادارہ بیاض ہر ماہ عمران منظور صاحب کی ادارت میں باقائدگی سے ماہنامہ بیاض شائع کرتا ہے۔ بیاض ہی کے زیرِ انتظام 2014 میں خالد احمد ایوارڈ کا اجراء کیا گیا جو ہر سال شاعر اور لکھنے والوں کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی میں مشغولِ عمل ہے۔ خالد احمد نے کہا تھا:
کبھی پھول ڈال جانا کبھی دھول ڈال جانا
میری بزم سے کشادہ میری غم سرائے رکھنا
خالد احمد کے تیسرے یومِ وفات پر محبانِ خالد ان کی زندگی کو یاد کرتے ہیں اور انہی کے مقاصد کو آگے بڑھانے میں اپنی تما م تر توانائیاں صرف کرنے کا اعادہ کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :