تین رخ

جمعرات 31 مارچ 2016

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

تجزیہ :
"اب آہستہ آہستہ تصویر صاف ہو رہی ہے! تانے بانے مل رہے ہیں ! سریا ننگا ہورہاہے اور جمہوریت کا سیمنٹ جھوٹ کی دیوار سے اتر کر لاہور اوراسلام آباد کی سڑکوں پردھول کی صورت بکھر رہا ہے. خبر حقیقت کا روپ دھار چکی ہے .امن کی آشا کا ایجنٹ گلبھوشن بھی پکڑا گیا ، ہزاروں انسانی جانوں اور دہشت گردی کے علاوہ پاکستان کے ناراض شہریوں کے ساتھ مل کر ملک توڑنے کی سازش میں ملوث ہندوستان کی جمہوری قدروں کا نمائندہ جو سالوں سے پاکستان میں دہشت کا کھیل کھیل رہا تھا.

"
حکومتی خبریں :
" پنجاب میں کہیں دہشت گردی نہیں ہے ، چند ڈکیت ہیں جن کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا .

(جاری ہے)

اس سال بارشوں کی وجہ سے فصل کو نقصان ہوا ہے اور حکومت کسانوں کو کھاد پر رعایت دے گی . مردم شماری جلد ہو گی اور لاہور میں پندر ہ نئے فیملی پلاننگ یونٹ کھولے جا رہے ہیں جہاں تک اورنج لائن بچھائی جائے گی اور صوبے میں سکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ."
تلخ حقیقت :
خوش آمدید ! جانثارو خوش آمدید ! یہ ہم سب کی جنگ ہے ، پچاس ، ساٹھ، دس بارہ، جتنے ملیں کاٹ ڈالو ، یہ تمہارا مشن ہے " کمانڈر بولا !'' کاٹنا کس کو ہے کمانڈر صاحب ؟" گروہ میں نئے بھرتی ہونے والے سترہ سالہ رضا نے پوچھا !
" پاکستانی بچوں کو ، ان کی نسلیں مٹانی ہیں “کمانڈر نے وضاحت کی!
" اچھا تو جنگ پاکستانی بچوں کے ساتھ ہے “رضا نے پوچھا؟ " نہیں ، ایک سوچ کے ساتھ ، ایک قوم کے ساتھ ، ایک شناخت اور جذبے کے ساتھ ہے جو ان بچوں کی صورت ہمارے لیے خطرہ ہے- تم بھول گئے تمہارے ساتھ کیا کیا اس نظام نے ؟ " کمانڈر نے رضا کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا؟اور رضا خاموش ہو گیا .

دوسرے روزایک گاڑی رضا کو شہر کے ایک مصروف علاقے میں اتار کر کہیں غائب ہو گئی . اس کے جسم کے ساتھ کچھ باندھا گیا اور کہا گیا کہ جیسے ہی وہ اپنی جیب میں رکھا ریموٹ دبائے گا اس کی ماں کو وہ نوٹوں سے بھرا بیگ پہنچا دیا جائے گا جس کا وعدہ کمانڈر صاحب نے اسے بھرتی کرتے ہوئے کیا تھا .
رضا اسی ملک کا شہری تھا کہ جس کے حکمرانوں کے کتوں کے بسکٹ لندن سے آتے ہیں .

رضا کے والد کو کسی نا معلوم الزام میں گرفتار کیا گیا اور تھرڈ ڈگری کے بعد جب چھوڑا گیا تو وہ اپاہج ہو چکا تھا ، رضا کی بہن رضیہ کو گاوٴں کے چوہدری کا بیٹا دو بار کھیتوں سے اٹھا کر لے گیا اور وہ نیم مردہ نیم برہنہ حالت میں ٹیوب ویل پر بے ہوش پائی گئی. رضا کی ماں نے اپنا زیور بیچ کر رضیہ کا علاج کسی زنانہ ہسپتال میں کروایا اور یہ سب تب ہو رہا تھا جب رضا سکول میں ماسٹر کی مار اس لیے کھاتا تھا کیونکہ رضا ماسٹر کے بیٹے سے زیادہ لائق تھا .

پھر ایک روز گاوٴں میں چوہدری کے بیٹے کے موبائل سے رضیہ کے دو شرمناک ویڈیو کلپ گاوٴں میں بیشتر لوگوں نے دیکھے . اس روز رضیہ اٹھی اور گاوٴں کے ٹھنڈے پانی کے کنویں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو گئی اور رضا کو کمانڈر صاحب مل گئے .
گاڑی سے اترتے ہی رضا نے ایک باغ میں کچھ بچوں کو کھیلتے دیکھا، اسے ان کی مسکراہٹ نظر نہیں آ رہی تھی ، بس کمانڈر کا وعدہ یاد تھا کہ اس کے گھر بیگ پہنچ جائے گا .

اسے کبھی وہ تھانیدار یاد آتا کہ جس نے اس کے باپ کو اپاہج کیا تھا اور کبھی وہ درندہ زمیندار کا بیٹا کہ جس نے اس کی بہن کی عزت کو تار تار کیا تھا . وہ کبھی اپنی ماں کی محرومیوں کا سوچتا اور کبھی اسے سکول ماسٹر کا غضب ناک چہرہ یاد آتا . وہ بے حس ہو چکا تھا ، وہ باغ میں داخل ہوا اور اس نے خود کش جیکٹ سے خود کو اڑا لیا. معصوم بچوں کے لہو سے ایک اور شہر لہو لہو ہو گیا جبکہ حکومت کھاد، کسان، مردم شماری اور زچہ بچہ مراکز کے مسائل میں الجھی رہی . ……………!!!!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :