پانچ روزپراگ میں

ہفتہ 2 اپریل 2016

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

جینیاتی طبی تحقیق کی تیرھویں بین الاقوامی کانفرس میں شرکت کے لیے جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پراگ میں جانے کا تفاق ہوا۔ ہر ڈیڑھ سال بعد اس نوعیت کی کانفرس کسی ایک ملک میں منعقد ہوتی ہے جس میں دنیا بھر کے سائنس دان، ماہرین اور جینیاتی انجنئرنگ کے میدان میں پیشہ وارانہ کام کرنے والے افراد شریک ہوتے ہیں۔ بیماریوں کی تشخیص و علاج ہو یا انسانی خوارک اور دوسرے معاملات ، جینیاتی تحقیق کی حیثیت مسلمہ ہے اسی لیے دنیا بھر کی جامعات اور تحقیقی اداروں میں اس پر بہت زیادہ کام ہورہا ہے اور اس سال کانفرس میں شرکاء کی تعدا د ساڑھے چھ سو سے زائد تھی لیکن اسلامی دنیا سے صرف ترکی، ایران اور سعودی عرب کی نمائدگی تھی باقیسارے عالم اسلام بشمول پاکستان سے کوئی شریک نہیں تھا۔

(جاری ہے)

سائنس اور تحقیق کے شعبہ میں انحطاط کا اندازہ اس سے لگانا مشکل نہیں۔ پراگ جو کہ جمہوریہ جیک کا دارلحکومت ہے اس میں چارلس یونیورسٹی کی بنیاد ۱۳۴۸ء میں رکھی گئی جو کہ یورپ کی قدیم ترین جامعہ ہے۔ یہ وہی دور تھا جب ہندوستان میں محمد بن تغلق کی حکومت تھی لیکن وہاں کے بادشاہوں کو یہ خیال نہ آیا۔ پراگ ایک قدیم تاریخی، صنعتی، تعلیمی، ثقافتی، تجارتی اور سیاسی مرکز ہے۔

اس شہر نے بہت سے انقلابات دیکھے ہیں جس کی بازگشت اس کی تاریخی عمارتوں سے سنائی دیتی ہے۔ دریائے وتاوا بل کھاتا ہوا سست روی سے اس کے درمیان سے گذرتا ہے۔ پراگ۱۹۱۸ء میں چیکوسلواکیہ کا دارالحکومت بناجو اس خطہ سے کیمونزم کے خاتمہ کے بعد یکم جنوری ۱۹۹۳ء کو جمہوریہ چیک کا دارلحکومت بنا ور سلواکیہ ایک الگ ملک بن گیا۔ ایک سے دو ملک ایسے بنے کہ دنیا کے دنیا میں مثال قائم ہوئے نہ ہماری طرح کہ مشرقی پاکستان اس قدر رسوائی سے الگ ہوا کہ دونوں ممالک اب بھی ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔

چاروں طرف خشکی میں گھرے ہوئے جمہوریہ چیک کے ہمسایوں میں سلواکیہ، پولینڈ، آسٹریا اور جرمنی شامل ہیں۔ اس کی آبا دی ایک کروڑ بیس لاکھ جبکہ رقبہ صو بہ خیبر پختون خواہ سے تھوڑا سا زیادہ ہے۔ اس خطے کے دو سنہرے ادوار میں سے ایک بادشاہ چارلس چہارم ۷۸۔۱۳۴۶ء اور دوسرا رودلف دوم ۱۶۱۲۔۱۵۷۶ء کا سمجھا جاتا ہے۔ چارلس نے یونیورسٹی قائم کرنے کے علاوہ دریائے وتاوا پر چارلس پل تعمیر کیا جو شہرکا اہم سیاحتی مقام ہے۔

بادشاہ چارلس نے شاہی نجومی کے مشورے پر صبح ساڑھے پانچ بجے ۱۳۵۷ء کو اس پل کا سنگ بنیاد رکھا جو کہ ۱۴۰۲ء میں مکمل ہوا۔ کیتھڈرل ، قلعہ اور دیگر تاریخی عمارتیں بھی اس دور کی یادگار ہیں جنہیں سیاح بہت دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔
پراگ ایک پیارا شہر ہے جو یورپ کے ماضی، حال اور مستقبل کی جھلک لئے ہوئے ہے۔ ذرائع آمدورفت کا بہت اچھا نظام ہے۔

زیر زمین ریلوے، ٹرام اور بس سب موجود ہیں۔ مغربی یورپی ممالک کی نسبت سستا شہر ہے۔موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی سیاحوں سے یہ شہر بھر جاتا ہے۔ وہاں جانے کا ارداہ کیا تو کچھ احباب نے جیب کتروں سے ہوشیار رہنے کی تاکید کی۔ خیر کوئی ناخوگوار واقعہ تو نہیں ہوا لیکن اس ملک کا فون کے لیے بین الاقوامی کوڈ ۴۲۰ ہے۔ وہاں مقیم ایک پاکستانی محمد ارشدنے اس بارے میں کہا کہ جب بھی کسی دوسرے ملک میں مقیم پاکستانی کو اپنا فون نمبر دیتے ہیں تو ساتھ ہی مسکراہٹ کا تبادلہ بھی ہوتا ہے۔

پراگ میں ٹیکنیکل یونیورسٹی کی بنیاد ۱۷۰۷ء میں رکھی گئی ۔ یہاں کی نیشنل لائبریری، قلعہ، پراناشہر اور بہت ہی تاریخی عمارتیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ پراگ میں ایک بڑی جامع مسجد کے علاوہ اور مساجد بھی موجود ہیں۔ شہر کے وسطی علاقہ میں ایک مسجد کی توسیع کا فیصلہ ہوچکا ہے۔دوسری جنگ عظیم میں اس شہر پر جرمنوں کا قبضہ رہا۔ پراگ دوسرے یورپی ممالک کی ترقی میں دوڑ میں شامل ہے اور نوجوان کیمونزم کے خاتمہ سے خوش ہیں جبکہ عمر رسیدہ افراد اب بھی اس دور کو یادکرتے ہیں۔


پراگ میں پاکستانی سفارت خانہ نے یوم پاکستان کے موقع پر شام قوالی کا نعقاد کیا جس میں مجھے اہلیہ اور بیٹے حارث کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا ۔ یوم پاکستان کی اس تقریب میں عورتیں اور بچے بھی شریک تھے اگرچہ پاکستانی کمیونیٹی وہاں بہت کم ہے۔ مقامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد بھی وہاں موجود تھی۔ پراگ میں غیر ملکی سفارتی عملہ بھی مدعو کیا گیا تھا۔

پاکستانی سفارت خانہ کا عملہ یوم پاکستان کی اس تقریب میں آنے والوں کو خوش آمدید کہہ رہا تھا ور ان کی توضع کے لیے مصروف تھے۔ ایک مقامی سینما میں ہونے والی اس تقریب کے آغاز میں پاکستان کے بارے میں بہت اچھی دستاویزی فلم دیکھائی گئی اور پھر صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے علاقائی لباسوں میں ملبوس خواتین نے لوک گیتوں پر رقص پیش کیا لیکن پنجاب کا رنگ غائب تھا جس کی کوئی وضاحت بھی نہ کی گئی۔

ایک مقامی گلوکارہ نے فریدہخانم کی گائی ہوئی غزل پیش کی۔ سفیر پاکستان تجمل الطاف نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ جس دن میں جمہوریہ چیک کے صدر کو اپنی سفارتی اسناد پیش کرنے گئے تھے وہاں جیک وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر بھی موجودتھے جو اس محفل کے مہمان خصوصی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ قوالی سے انہیں بہت لگن ہی اور ان کی خواہش ہے کہ پراگ میں قوالی کا کوئی پروگرام بنایا جائے۔

بعد ازاں ایک اور ملاقات میں انہوں نے جب دوبارہ اسی خواہش کا اظہار کیا تو ہم نے اسی کے پیش نظر قوالی کنسرٹ کا اہتمام کیا ہے۔ جمہوریہ چیک کی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر نے سفیر پاکستان کی باتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانیوں کو جب پہلی دفعہ کوئی کام کہا جائے تو وہ اسے نظر انداز کردیتے ہیں لیکن جب دوسری بار کہا جائے تو پھر کام ہوجاتا ہے جیسے آجکی شام قوالی ہے۔

اُن کے خطاب میں قوالی کی تاریخ، امیر خسرو، تصوف اور اسلامی تاریخ پر گہری نظر اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ انہیں ان مور سے گہری دلچسپی ہے۔ قوالی کی تاریخ اور ساری تمہید کے بعد موصوف اور آنے والے مہمان توقع کررہے تھے کہ آج وہ قوالی سے خوب لطف اندوز ہوں گے لیکن اسٹیج پر صرف محمود صابری اپنے طبلہ نواز کے ہمراہ قوالی پیش کرنے آئے تو قوالی شرکاء حیرت ذدہ رہ گئے۔

ایک تیسرے شخص کو محض اسٹیج کا توازن برقرار رکھے کے لیے بٹھا دیا گیا۔ یہ قوالی سے زیادہ خیراتی پروگرام نظر آنے لگا او ر شرکاء ایک ایک کرکے جانے لگے۔ ہماری ہمت بھی جواب دینے لگی اور جب ہم دیکھا کہہال سے اکثریت چلی گئی ہے تو ہم نے بھی نکلنے ہی میں عافیت سمجھی۔ ہال سے باہر لوگ قوالی کے نام پر ہونے والے کنسرٹ پر اپنے تبصرے کررہے تھے اور ہم بھی یہ سوچ رہے تھے کہ چیک وزارت خارجہکے ڈائریکٹر نے اگر قوالی کی فرمائش کرہی دی تھے تو کیا ایسے پوری کی جاتی ہے۔ بحرحال پراگ میں پانچ روزگذارنے کے بعد ہم بذریعہ ریل آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کی جانب روانہ ہوئے جس کا احوال اگلے ہفتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :