مولانا عبیداللہ سندھی سیمینار

بدھ 6 اپریل 2016

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

ہفتے کی شام ادارہٴ حکمت قرآن کراچی کے زیراہتمام شیخ زید اسلامک سینٹر جامعہ کراچی میں ”مولانا عبیدالله سندھی سیمینار“ میں شرکت اور چند معروضات پیش کرنے کا موقع ملا اور یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ اس دور میں بھی مولانا سندھی جیسی استعمار دشمن شخصیت کے فکر وفلسفے کو پڑھنے، سمجھنے اور اپنانے کی کوشش کرنے والوں کی کمی نہیں ہے، بلکہ ایسا محسوس ہوا کہ مولانا سندھی کے جن بعض خیالات وتصورات کو سمجھنے میں خود ان کے زمانے کے بہت سے طبقات کو دشواری درپیش ہوئی تھی، ان کی وفات کے پون صدی بعد کے حالات کے تناظر میں اب ان کو سمجھنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔

مولانا عبیداللہ سندھی کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے، جنہوں نے استخلاص وطن کی جدوجہد میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں اور مشقتیں برداشت کیں، مولانا سندھی برصغیر کی آزادی کی سب سے بڑی تحریک، تحریک ریشمی رومال کے سب سے فعال کردار تھے اور کابل میں قائم آزاد حکومتِ موقتہ ہند میں انہیں وزیردفاع کا عہدہ دیا گیا تھا، تحریک کی ناکامی کے بعد آپ کو طویل عرصہ تک جلاوطنی کی اذیت برداشت کرنا پڑی۔

(جاری ہے)

مولانا سندھی جیسی شخصیات کا حق ہے کہ نئی نسل کو ان کی شخصیت وخدمات سے کماحقہ آگاہ کیا جائے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا موجودہ نصاب تعلیم ان لوگوں کے لیے بہت کم گنجائش رکھتا ہے، جنہوں نے تقسیم ہند کے منصوبے کی حمایت نہیں کی تھی، مگر ”قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید“ کے مصداق ان صاحب بصیرت بزرگوں کی باتیں آج اپنی صداقت کو منوا رہی ہیں۔

زکی کیفی مرحوم کا ایک شعر ہے
جن کو ہم نے بھلا دیا تھا کیفی
دل میں جب درد اٹھا یاد آئے
مولانا عبیداللہ سندھی سیمینار کا موضوع ”دورحاضر میں مولانا سندھی کے افکار کی اہمیت “تھا اور مقررین وسامعین میں نہ صرف یہ کہ مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے،بلکہ اس سیمینار کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ایک جانب ”رجعت پسند“ و ”بنیادپرست“ کہلانے والے مذہبی طبقے کے لوگ تھے تو دوسری جانب ”ترقی پسند“ و ”روشن خیال“ کہلانے والے طبقے کی نمایندگی بھی اچھی خاصی تھی، یہاں تک کہ سندھ اور کشمیر کی کٹر قوم پرست جماعتوں کے سرکردہ حضرات بھی شریک تھے۔

راقم الحروف سے قبل جن مقررین نے مولانا سندھی کے افکار وخیالات پر اظہار خیال کیا، ان کی گفتگو سے ایسا محسوس ہوا کہ وہ مولانا کو ایک خالص نیشنلسٹ اور سوشلسٹ رہنما کے روپ میں پیش کرنا چاہتے ہیں اور تقسیم ہند سے قبل کے ماحول سے متعلق ان کے بعض خیالات کو خاص طور پر کنفیڈریشن کے ان کے فارمولے کو پاکستان کے موجودہ حالات پر اس طرح منطبق کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ گویا پاکستان کو بھی ایک سیکولر اسٹیٹ بن جانا چاہیے اور یہاں بسنے والی مختلف قومیتی اکائیوں کو خودمختاری دی جانی چاہیے۔


راقم نے اپنی باری پر گزارش کی کہ مولانا عبیداللہ سندھی کے افکار ونظریات کو سمجھنے کے لیے یہ بنیادی نکتہ پیش نظر رکھا جانا چاہیے کہ مولانا سندھی کسی الگ طرزفکر کے بانی نہیں، بلکہ بنیادی طور پر وہ امام شاہ ولی الله کے فکر وفلسفے کے شارح اور شیخ الہند مولانا محمودحسن کی تحریک کے سرکردہ رکن تھے، اس لیے ان کے فکر وفلسفے کو کسی مخصوص سانچے میں ڈھال کر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔

ہاں البتہ یہ بات درست ہے کہ مولانا سندھی کی شخصیت اس لحاظ سے ہمہ جہت تھی کہ انہوں نے آزادی کی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے معاصر دنیا میں پنپنے والے نظریات اور معروضی حالات کا گہرا مطالعہ اور دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کا براہ راست مشاہدہ بھی کیا تھا، اس لیے ان کے خیالات میں وہ وسعت وگہرائی پیدا ہوگئی تھی کہ وہ چیزوں کو زیادہ وسیع تناظر میں دیکھتے اور بیان کرتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ آج یہاں اس سیمینار میں مختلف بلکہ متضاد طرزفکر کے حامل لوگ مولانا سندھی کی عقیدت میں جمع ہیں۔ آج ہمارے قومی منظرنامے میں ان دونوں طبقات کے درمیان کشمکش اپنے عروج پر ہے اور اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ اس خلیج کو دور کیا جائے۔ میرا خیال یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہم مولانا سندھی کے افکار وخیالات سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

مولانا سندھی دونوں طبقات کو اپنا مخاطب بناتے ہیں۔ مولانا نے مذہبی طبقے میں رجعت پسندانہ سوچ کو تبدیل کرنے کی بات کی ہے اور اس طبقے کے لیے ان کا پیغام یہ ہے کہ وہ دور حاضر کے تقاضوں کے ادراک اور معاصر دنیا میں آنے والے سیاسی وفکری تغیرات سے غافل نہ رہے۔ مولانا سندھی کی نظر میں اسلام کی سیاسی ومعاشی تعلیمات کی تعبیر وتشریح میں طرز کہن پر اڑنے کی بجائے شاہ ولی الله کے حکیمانہ اسلوب کی پیروی ضروری ہے۔

مولانا سندھی نے یہ محسوس کیا کہ برصغیر کے مسلمان انگریز استعمار کی مزاحمت میں ”ردعمل“ کی نفسیات کا شکار ہوگئے ہیں، اس لیے انہوں نے مسلمانوں کو ”عمل“ کا پیغام دیا۔ ان کے مطابق ہمیں دشمن کی صرف خامیاں گنتے رہنے کی بجائے ان کی خوبیوں پر غور کرکے انہیں اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مولانا کے فکر کا پیغام یہ ہے کہ مذہبی طبقات کو جدید دور کی ایجادات، اصطلاحات اور تعبیرات سے گھبراکر ان کے مقابلے میں مخاصمانہ رویہ اپنانے سے گریز کرنا چاہیے۔

مولانا سندھی نے اپنے زمانے میں مزدوروں اور محنت کشوں کی عالمگیر تحریکوں کے تناظر میں علماء سے کہا کہ وہ ان تحریکوں کا ساتھ دیں اور ایک مزدور، محنت کش اور کاشتکار کو یہ پیغام دیں کہ اسلام صرف عقائد وعبادات تک محدود نہیں ہے، بلکہ وہ عام آدمی کے روٹی، کپڑا اور مکان کا بھی سامان کرتا ہے۔ مولانا نے انتباہ کیا تھا کہ اگر محنت کشوں کی تحریک کو دینی قوتوں نے نہیں اپنایا تو لادینی قوتیں انہیں اپنالیں گی اور اہل دین کے ہاتھ سے سیاسی قیادت نکل جائے گی۔

( مولانا کی یہ پیشگی بہت حد تک درست ثابت ہوئی)
مولانا سندھی کا یہ پیغام دینی حلقے کے لیے تھا۔ دوسری جانب ترقی پسند اور قوم پرست طبقات کے لیے مولانا سندھی کا پیغام یہ ہے کہ جن حقوق کے حصول کے لیے وہ مختلف چھتریوں تلے جدوجہد کررہے ہیں، اسلام ان تمام حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ مولانا سندھی کے افکار وخیالات میں اگر کہیں سوشلزم یا نیشنلزم کے بعض نظریات سے ہم آہنگی ملتی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اس بحث کو مخصوص اصطلاحات کے مخصوص معانی ومفاہیم سے ہٹاکر محنت کش اور سرمایہ دار کی جنگ کے تناظر میں دیکھتے تھے اور یقینی طور پر وہ اس جنگ میں مزدور اور محنت کش کے ساتھ تھے، مگر ساتھ ہی انہوں نے بہت واضح الفاظ میں بیان کیا ہے کہ میرے فکر وفلسفے کی بنیاد ایمان بالله اور ایمان بالآخرة ہے۔

وہ قرآن وسنت کو ہی انسانیت کی فلاح و ترقی کا دستور ومنشور سمجھتے تھے۔ وہ ایک ایسے معاشرے کے قیام کے متمنی تھے، جہاں خوف خدا اور آخرت میں جوابدہی کے احساس پر مبنی دیانت کا معیار قائم ہو۔ آج کی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ دنیا نے ایک طرف سائنس وٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی کی ہے اور انسانی زندگی کے لیے آسائشوں کا سامان کیا ہے تو دوسری جانب ایمان بالله اور آخرت میں جوابدہی کا تصور ختم ہونے کا نتیجہ دنیا میں جنگوں اور ہلاکت خیزیوں کے اسباب میں اضافے اور سرمایہ داریت کے فروغ کی صورت میں سامنے آرہا ہے اور شاعر کے بقول #
جس قدر تسخیر خورشید و قمر ہوتی گئی
زندگی تاریک سے تاریک تر ہوتی گئی
کا منظر سامنے ہے۔

اسی لیے اگر دنیا میں پائے دار ترقی واستحکام لانا ہے تو اس کے لیے سائنسی وسماجی ارتقاء کو ایمان بالله اور ایمان بالآخرة کے تابع رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :